دنیا

گلوبل صمود فلوٹیلا کے 4 اطالوی رضاکار ملک بدر، بقیہ کو بھی جلد واپس بھیج دیا جائے گا، اسرائیلی حکام

گرفتار کیے گئے تمام 461 کارکن ’محفوظ اور صحت مند‘ حالت میں ہیں، ملک بدری کے عمل کو جلد مکمل کرنے کی خواہش ہے، وزارتِ خارجہ کا دعویٰ

غزہ کے لیے گلوبل صمود فلوٹیلا کی آخری کشتی کو بھی اسرائیلی حکام نے روک لیا ہے، ساتھ پہلے سے گرفتار رضاکاروں میں سے 4 اطالوی کارکنوں کو ملک بدر کر دیا گیا ہے۔

قطری نشریاتی ادارے ’الجزیرہ‘ کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی وزارتِ خارجہ کا کہنا ہےکہ اس نے 4 اطالوی شہریوں کو ملک بدر کر دیا ہے جبکہ گلوبل صمود فلوٹیلا میں شامل بقیہ کارکنوں کو بھی جلد ملک بدر کر دیا جائے گا۔

واضح رہے کہ اسرائیلی فوج نے جنگ زدہ غزہ کا محاصرہ توڑنے کی کوشش کرنے والے پورے امدادی فلوٹیلا کو روک کر درجنوں کشتیوں سے سیکڑوں کارکنوں کو گرفتار کر لیا تھا۔

جمعہ کی صبح گلوبل صمود فلوٹیلا کی آخری کشتی پر بھی اسرائیلی فورسز نے زبردستی چڑھائی کر دی، پولینڈ کے جھنڈے والی ’میرینیٹ‘ کشتی پر 6 افراد موجود تھے۔

غزہ کا محاصرہ توڑنے کے لیے قائم بین الاقوامی کمیٹی نے ایک بیان میں کہا کہ کئی گرفتار کارکنوں نے اپنی گرفتاری کے ساتھ ہی ’غیر معینہ مدت کی بھوک ہڑتال‘ بھی شروع کر دی ہے۔

اسرائیلی وزارتِ خارجہ کے بیان میں کہا گیا کہ اسرائیل چاہتا ہے کہ یہ عمل جلد از جلد مکمل کیا جائے، وزارت خارجہ نے گرفتار کیے گئے تمام 461 کارکنوں کے ’محفوظ اور صحت مند‘ حالت میں ہونے کا دعویٰ بھی کیا۔

اس سے قبل گلوبل صمود فلوٹیلا نے اسرائیل سے تمام کارکنوں کو رہا کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

رپورٹرز وِد آؤٹ بارڈرز (آر ایس ایف) نے اسرائیل کی جانب سے گلوبل صمود فلوٹیلا میں شامل صحافیوں کو گرفتار کرنے کی مذمت کی ہے، پیرس میں قائم میڈیا واچ ڈاگ کے مطابق فلوٹیلا پر 20 سے زائد غیر ملکی صحافی موجود تھے۔

آر ایس ایف کے مطابق، مذکورہ صحافی یکم سے 2 اکتوبر کے درمیان اس وقت گرفتار ہوئے جب اسرائیلی بحریہ نے ان کشتیوں کو روکنا شروع کیا۔

آر ایس ایف کے کرائسس ڈیسک کے سربراہ مارٹن روکس نےکہا کہ صحافیوں کو گرفتار کرنا اور انہیں اپنا کام کرنے سے روکنا آزادیِ اظہارِ رائے اور بنیادی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے، انہوں نے مزید کہا کہ آر ایس ایف صحافیوں کی غیر قانونی گرفتاری کی مذمت کرتی ہے۔

یاد رہے کہ یکم اکتوبر کو غزہ کے لیے امداد لے جانے والے 40 سے زائد ممالک کے تقریبا 500 کارکنوں کو اسرائیلی بحریہ نے گرفتار کر لیا تھا۔

اسرائیل نے رضاکاروں پر الزام لگایا کہ وہ ’ایک قانونی بحری محاصرہ توڑنے کی کوشش‘ کر رہے تھے اور مزیدکہا کہ انہیں روکنے کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے جائیں گے۔

اسرائیلی بحریہ نے قافلے میں شامل ہر کشتی کو روکا، عملے کو گرفتار کیا اور بعد ازاں انہیں اسرائیل منتقل کر دیا گیا، جہاں سے اب انہیں ملک بدر کیا جائے گا، گرفتار شدگان میں کئی نمایاں شخصیات جن میں ماحولیاتی کارکن گریٹا تھنبرگ، سابق میئر بارسلونا آدا کولاو اور یورپی پارلیمنٹ کی رکن ریما حسن شامل ہیں۔

رپورٹ کے مطابق یہ اب تک کا سب سے بڑا بحری امدادی مشن تھا جس نے فلسطینی علاقے تک سامان پہنچانے کی کوشش کی اور کشتیوں پر اسرائیلی قبضے نے عالمی سطح پر مذمت کو جنم دیا اور دنیا بھر میں احتجاج کی وجہ بنا۔

سیکریٹری جنرل انٹرنیشنل ٹرانسپورٹ ورکرز فیڈریشن (آئی ٹی ایف) اسٹیفن کاٹن، جو دنیا بھر کے 1 کروڑ 65 لاکھ سے زائد ٹرانسپورٹ ورکرز کی نمائندگی کرتے ہیں، انہوں نے الجزیرہ کو بتایا کہ بین الاقوامی پانیوں میں غیر مسلح امدادی کشتیوں پر حملہ یا قبضہ بین الاقوامی قانون کے تحت غیر قانونی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ریاستیں یہ فیصلہ نہیں کر سکتیں کہ کب بین الاقوامی قانون کا احترام کریں اور کب نہیں، سمندر کو جنگ کا میدان نہیں بنایا جا سکتا۔

دنیا بھر کے رہنماؤں نے بھی ان غیر قانونی کارروائیوں کی مذمت کی ہے، جن میں کولمبیا کے صدر گسٹو پیٹرو بھی شامل ہیں جنہوں نے اسرائیلی سفیروں کو ملک سے نکالنے کا اعلان اور آزاد تجارتی معاہدہ منسوخ کرنے کا اعلان کیا۔

یورپی ممالک جرمنی، فرانس، برطانیہ، اسپین، یونان اور آئرلینڈ نے بھی اسرائیل سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ گرفتار کیے گئے عملے کے حقوق کا احترام کرے، اقوام متحدہ نے ابھی تک اسرائیلی اقدامات پر تبصرہ نہیں کیا، تاہم فلسطین کے لیے اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ فرانسسکا البانیزے نے ان گرفتاریوں کو ’غیر قانونی اغوا‘ قرار دیا ہے۔