وکلاء پولیس تصادم: خطرے کی گھنٹی

27 مئ 2015
۔ —. فائل فوٹو اے ایف پی
۔ —. فائل فوٹو اے ایف پی

لاہور: پاکستان کے انسانی حقوق کمیشن (ایچ آر سی پی) نے ڈسکہ میں پولیس کی فائرنگ سے دو وکلاء کی ہلاکت کی مذمت کی ہے ۔

کمیشن نے اپنے بیان میں کہا کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ شہریوں کی ہلاکت کے بجائے ان کے تحفظ کے لیے پولیس اپنی قوت کا استعمال کررہی ہے۔ انہوں نے پولیس کے طریقہ کار کے گہرے تجزیے کا بھی مطالبہ کیا۔

منگل کو جاری ہونے والے اس بیان میں کمیشن کا کہنا ہے کہ ’’پیر کو پولیس کے ہاتھوں ڈسکہ میں دو وکیلوں کی ہلاکت کو ایچ آر سی پی خطرے کی گھنٹی سمجھتی ہے۔‘‘

میڈیا کی رپورٹوں کے مطابق ڈسکہ تحصیل میونسپل ایڈمنسٹریشن (ٹی ایم اے) کے باہر احتجاج کرنے والے وکلاء کے ایک گروپ نے ٹی ایم اے کے عملے کے کچھ لوگوں پر حملہ کردیا، جس کی وجہ سے عملے نے تحفظ کے لیے پولیس طلب کرلی۔

پولیس کی مداخلت کا جو بھی جواز پیش کیا جائے، مہلک قوت کا استعمال غیرضروری اور بلاجواز تھا۔

کمیشن کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے اس بات کا تعین کرنے کے لیے ایک انکوائری تشکیل دی جائے کہ کیا پولیس کی جانب سے قوت کا استعمال ضروری اور مناسب تھا۔

تاہم یہ پہلے موقع نہیں ہے کہ اس صوبے میں ریاست نے پولیس کو شہریوں کی ہلاکت کے لیے استعمال کیا ہو۔

بدقسمتی سے میڈیا میں پولیس کی لاپرواہی کا تذکرہ اب نیا نہیں رہا۔

ایچ آر سی پی نے کہا کہ ڈسکہ کی ہلاکتیں ایک تفصیلی تجزیے کا مطالبہ کرتی ہیں، کہ آخر اس طرح کی ہلاکتوں کے واقعات کیونکر وقوع پذیر ہوتے ہیں، اور انہیں کس طرح روکا جاسکتا ہے۔

یہ بات بھی اہم ہے کہ یہ واقعات مکمل طور پولیس کے محکمے کی اندرونی عکاسی نہیں کرتے۔

ناصرف یہ کہ معاشرے کے ایک متنوع حصے سے اس سلسلے میں مشاورت کی جائے، بلکہ اس معاملے پر بحث بھی کی جانی چاہیے اور لوگوں کے خدشات کو دور کرتے ہوئے اس مشق کے نتائج کو عوام کے سامنے بھی پیش کیا جانا چاہیے۔

کمیشن نے کہا کہ ہلاکتوں میں ملوث پولیس اہلکاروں کو گرفتار کیا جائے اور شریک ملزموں کے خلاف بھی مقدمات درج کیے جائیں۔ قتل کی ذمہ داری کا تعین کرنے اور ملزموں کو سزا دینے کے لیے ایک شفاف تحقیقات شروع کی جانی چاہیے۔

پیر کے المناک واقعات کا ایک اور مایوس کن پہلو بہت سے شہروں میں وکلاء کا پُرتشدد احتجاج تھا۔

ایک لحاظ سے شہری حکومت سے یہ دریافت کرنے کا حق رکھتے ہیں کہ اس نے ہلاکتوں کے بعد صورتحال پر قابو پانے کے لیے مزید مؤثر اقدامات کیوں نہیں کیے۔

ایچ آر سی پی نے کہا کہ وکلاء برادری کو دنیا بھر میں سب سے زیادہ باشعور اور قانون کی حکمرانی کا سب سے زیادہ احترام کرنے والا خیال کیا جاتا ہے، انہیں ڈسکہ کی بدقسمت ہلاکتوں کے خلاف یا کسی دوسرے مقصد کے لیے احتجاج کے دوران پرامن رہنا چاہیے اور سرکاری یا نجی املاک کونقصان نہیں پہنچانا چاہیے تھا۔

تشدد کا سہارا لینے سے ناصرف وہ لوگوں کی ہمدردیوں سے محروم ہوجاتے ہیں، بلکہ اس معاشرے میں ایک غلط مثال قائم ہوجاتی ہے، جو پہلے ہی بڑے پیمانے پر تشدد کی لپیٹ میں ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں