کراچی: پولیس نے بلدیہ ٹاؤن گارمنٹس فیکٹری آتشزدگی کیس کے حوالے سے سیشن کورٹ میں پیش رفت رپورٹ جمع کروا دی۔

رپورٹ کے مطابق مذکورہ مقدمے میں نامزد ایک ملزم نے پولیس کو بتایا ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) سے منحرف ہونے والے سابق پارٹی رہنما انیس قائم خانی کا نام فیکٹری مالکان سے متاثرین کو معاوضہ دینے کا بہانہ بنا کر بھتہ لینے کیلئے استعمال کیا گیا تھا۔

یاد رہے کہ ستمبر 2012 میں بلدیہ ٹاؤن میں متعدد منزلوں پر مشتمل ایک گارمنٹس فیکٹری میں آتشزدگی سے 250 سے زائد ملازمین زندہ جل کر ہلاک ہوگئے تھے۔

ابتدائی طور پر پولیس نے بد قسمت صنعتی یونٹ کے مالکان عبدالعزیز بھالیہ اور اس کے بیٹوں ارشاد بھالیہ اور شاہد بھالیہ، فیکٹری کے جنرل مینجر اور کچھ چاکیداروں کے خلاف مذکورہ سانحہ میں ملزم قرار دیتے ہوئے چارج شیٹ پیش کی تھی۔

خیال رہے کہ گزشتہ سال مارچ میں جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) کو کیس کی دوباری تحقیقات کا حکم دیا گیا تھا اور اس کی رپورٹ ٹیم نے ایک ماہ قبل سندھ ہائی کورٹ میں پیش کردی تھی۔

2013 میں تیار کی جانے والی رپورٹ کے مطابق 2013 میں غیر قانونی ہتھیار رکھنے کے الزام میں گرفتار ہونے والے ایک سیاسی جماعت کے کارکن رضوان قریشی نے انکشاف کیا تھا کہ فیکٹری مالکان کی جانب سے 'بھتہ' نہ دینے کے باعث فیکٹری کو جلایا گیا تھا۔

گزشتہ روز ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اور سیشن جج (غربی) مقبول میمن کی عدالت میں مذکورہ کیس کی سماعت کے دوران تفتیشی افسر ایس پی ساجد سدوزئی نے کیس کے حوالے سے ہونے والی پیش رفت کی رپورٹ عدالت میں پیش کی، جو جے آئی ٹی کے حوالے سے نتائج اور سفارشات پر مشتمل تھی۔

رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ بھتے کی عدام ادائیگی کے باعث ایم کیو ایم کے کچھ اہم کارکن فیکٹری میں آتشزدگی کی سرگرمی میں ملوث تھے، اس میں مزید کہا گیا کہ یہ آتشزدگی کا عمل تھا اور شرپسند عناصر نے فیکٹری میں آگ لگانے کیلئے انتہائی خطرناک آتش گیر کیمیکل استعمال کیا تھا۔

اس میں شامل کیا گیا ہے کہ ایم کیو ایم کراچی تنظیمی کمیٹی کے سابق چیف حماد صدیقی نے اپنے فرنٹ مین بلدیہ ٹاؤن میں پارٹی کے سیکٹر انچارج عبدالرحمٰن عرف بھالو کے ذریعے سے فیکٹری مالکان سے رابطہ کیا اور ان سے 25 کروڑ روپے بھتہ اور فیکٹری میں شراکت داری کا مطالبہ کیا تھا، لیکن فیکٹری مالکان نے صرف ایک کروڑ روپے دینے کی پیش کش کی جو مبینہ بھتہ خوروں کی جانب سے ٹھکرا دی گئی۔

رپورٹ میں الزام لگایا گیا ہے کہ حماد صدیقی نے عبدالرحمٰن کو کہا کہ 'مالکان کو سبق سکھانے کیلئے' فیکٹری کو آگ لگادی جائے۔

مذکورہ سیاسی جماعت سے تعلق رکھنے والے فیکٹری کے ملازم زبیر عرف چریا نے اپنے چار نامعلوم ساتھیوں کے ساتھ مل کر فیکٹری بیس منٹ میں موجود گودام میں کیمیکل پھیک کر آگ لگائی۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ حماد صدیقی، اس کے قریبی ساتھیوں اور سینئر ایم کیو ایم اراکین نے مبینہ طور پر تفتیش میں مداخلت کی کوشش کی اور فیکٹری مالکان اور کچھ ملازمین کو کام کی جگہ پر حفاظتی اقدامات کو یقینی بنانے میں مبینہ غفلت برتنے پر ایف آئی آر میں نامزد کیا اور بعد ازاں انھیں متاثرہ افراد کو پارٹی کا کارکن ظاہر کروا کر بلیک میل کیا گیا۔

رپورٹ میں مزید انکشاف کیا گیا ہے کہ فیکٹری کے مالکان کو دیگر طریقوں سے تفتشی افسران کو حقیقت بتانے سے روکنے کیلئے خبردار اور ہراساں کیا جاتا رہا۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ اس کے بعد فیکٹری مالکان نے حیدرآباد سے تعلق رکھنے والے ایک تاجر علی حسن قادری سے رابطہ کیا اور ایم کیو ایم کے رہنماؤ سے کسی نتیجے پر پہنچ نے کیلئے مدد طلب کی۔

تاجر نے فیکٹری مالکان کو بتایا کہ اس کے بھائی عمر حسن قادری کے ایم کیو ایم کے ڈپٹی کنوینئر انیس قائم خانی سے اچھے مراسم ہیں اور وہ اس سے بات چیت کے بعد اس مسئلے کو حل کرلیں گے۔

رپورٹ میں مزید انکشاف کیا گیا ہے کہ علی حسن قادری نے فیکٹری مالکان کو یہ پیش کش کی کہ اگر مالکان ہلاک ہونے والے ملازمین کے لواحیقین کے لیے فی کس ڈھائی لاکھ روپے اور زخمیوں کیلئے فی کس ایک ایک لاکھ روپے ادا کردیں، جو کہ مجموعی طور پر 5 کروڑ 98 لاکھ روپے کی رقم ہے تو پارٹی مذکورہ معاملے میں لہجہ نرم کرنے کیلئے تیار ہے۔

تاہم یہ رقم کبھی بھی متاثرہ افراد کو ادا نہیں کی گئی اور اس کے بجائے اس سے حیدرآباد کے علاقے لطیف آباد میں ایک خاتون اقبال عدیب خانم کے نام پر جائیداد کی خریداری کی گئی، جس کی قیمت 6 کروڑ 35 لاکھ روپے تھی۔

مذکورہ رقم انیس قائم خانی کے انتہائی قریبی اور بیٹوں کی طرح سمجھے جانے والے عزیز ڈاکٹر عبدالستار کے بینک آکاونٹ کو استعمال کرتے ہوئے کی گئی۔

جیسا کہ متاثرین کو چیک کی ادائیگی کی تقریب کبھی منعقد ہی نہیں ہوئی تو علی حسن قادری نے فیکٹری مالکان کو بتایا کہ مذکورہ رقم جو ان کی جانب سے ادا کی گئی ہے انیس قائم خانی کو منتقل کردی گئی ہے۔

رپورٹ کے مطابق جے آئی ٹی نے سفارش کی تھی کہ انسداد دہشت گردی کا ایک نیا مقدمہ درج کیا جائے اور ساتھ ہی یہ تجویز پیش کی تھی کہ حماد صدیقی، عبدالرحمٰن، زبیر، علی حسن، عمر حسن، عبدالستار، اقبال عدیب خانم اور دیگر چار نامعلوم کو اس میں ملزم قرار دیا جائے۔

اس حقیقت سے قطر نظر کہ رپورٹ میں انیس قائم خانی کے بالواسطہ کردار کا ذکر کیا گیا ہے، جے آئی ٹی نے انھیں نامزد کیے جانے والے افراد میں شامل نہیں کیا ہے۔

تفتشی افسر نے عدالت کو بتایا کہ اس حوالے سے 1997 انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت علیحدہ مقدمہ درج کرنے کیلئے جے آئی ٹی کی رپورٹ وزارت داخلہ سے مشاورت کے لیے ارسال کردی گئی ہے۔

عدالت نے تفتشی افسر کو حکام کے جواب کے ساتھ ایک تفصیلای رپورٹ 22 مارچ تک عدالت میں پیش کرنے کی ہدایت کی ہے۔

یہ خبر 06 مارچ 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی.


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔

تبصرے (0) بند ہیں