ڈاکٹر عاصم ویڈیو کیس، نیب اور رینجرز تعاون نہیں کررہی

اپ ڈیٹ 30 اگست 2016
ڈاکٹر عاصم حیسن کے اعترافی بیان کی ویڈیو سوشل میڈیا پر اچانک گردش کرنے لگی تھی جس کے بعد 15 جون کو اسے ٹی وی چینلز پر بھی نشر کیا گیا
ڈاکٹر عاصم حیسن کے اعترافی بیان کی ویڈیو سوشل میڈیا پر اچانک گردش کرنے لگی تھی جس کے بعد 15 جون کو اسے ٹی وی چینلز پر بھی نشر کیا گیا

اسلام آباد: قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات کی ذیلی کمیٹی کو بتایا گیا ہے کہ قومی احتساب بیورو (نیب) اور رینجرز قیدیوں سے تفتیش کی ویڈیوز لیک ہونے کی تحقیقات میں سندھ پولیس کے ساتھ تعاون نہیں کررہی۔

سندھ پولیس کے ایڈیشنل انسپکٹر جنرل (آئی جی) ثناء اللہ عباسی اور کراچی شرقی کے ڈپٹی آئی جی کامران فضل نے ذیلی کمیٹی کو بتایا کہ ان کے محکمے کا ویڈیو لیک ہونے کے معاملے سے کوئی لینا دینا نہیں۔

وزارت داخلہ کے حکام کا بھی کہنا ہے کہ سندھ رینجرز اس حوالے سے پوچھے جانے والے سوالات کے جواب نہیں دے رہی۔

یہ صورتحال جان کر کمیٹی کے کنوینر پاکستان پیپلز پارٹی کے عمران لغاری اور پاکستان مسلم لیگ ن کے طلال چوہدری نے سخت برہمی کا اظہار کیا۔

یہ بھی پڑھیں:رینجرز، پولیس کے بعد ڈاکٹر عاصم سے نیب کی تفتیش

انہوں نے کمیٹی کے اجلاس میں سیکریٹری داخلہ کی عدم موجودگی پر بھی ناراضی کا اظہار کیا اور کہا کہ اگر اگلے اجلاس میں وہ پیش نہ ہوئے تو ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔

وزارت داخلہ کے ایک عہدے دار نے بتایا کہ انہوں نے ویڈیو لیک ہونے کی تحقیقات کے حوالے سے سندھ رینجرز کے ڈائریکٹر جنرل کو خط بھیجا تھا جس کا جواب اب تک نہیں آیا۔

ڈی آئی جی کامران نے بتایا کہ دو تفتیشی افسر نے اپنے حلفیہ بیان میں کہا ہے کہ انہوں نے ڈاکٹر عاصم حسین کے 16 روزہ ریمانڈ کے دوران ان کی کوئی ویڈیو ریکارڈ نہیں کی۔

انہوں نے بتایا کہ پولیس سے قبل ڈاکٹر عاصم نیب اور رینجرز کی تحویل میں تھے۔

ثناء اللہ عباسی نے کمیٹی کو بتایا کہ پولیس نے نیب اور رینجرز کو خطوط لکھے اور ان سے پوچھا کہ آیا انہوں نے ڈاکٹر عاصم کی کوئی ویڈیو ریکارڈ کی تھی جب وہ ان کی حراست میں تھے۔

یہ بھی پڑھیں:ڈاکٹر عاصم کے سابق صدرآصف زرداری سے متعلق انکشافات

انہوں نے بتایا کہ اس حوالے سے نیب اور رینجرز کی جانب سے اب تک کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

ڈاکٹر کامران نے کہا کہ سندھ پولیس نے عدالت میں درخواست دائر کی ہے جس میں ڈاکٹر عاصم تک رسائی کی اجازت مانگی گئی ہے تاکہ ان سے پوچھا جاسکے کہ ان کی ویڈیو کب اور کہاں ریکارڈ کی گئی۔

انہوں نے کہا کہ اس کیس کی آئندہ سماعت 17 ستمبر کو ہوگی اور امید ہے کہ عدالت انہیں اس معاملے پر پوچھ گچھ کیلئے ڈاکٹر عاصم سے ملاقات کی اجازت دے دے گی۔

عمران لغاری نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہمیشہ سیاسی شخصیات سے ہونے والی تفتیش کی ویڈیو ہی کیوں لیک ہوتی ہیں۔

جب طلال چوہدری نے استفسار کیا کہ ملزمان کے بیان کی ویڈیو بنانا قانونی ضرورت ہوتی ہے یا ایسا غیر قانونی طریقے سے کیا جاتا ہے تو پولیس افسران نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا۔

مزید پڑھیں:ڈاکٹر عاصم کیس: وسیم اختر کے وارنٹ گرفتاری جاری

بعد ازاں سندھ پولیس کو ہدایت دی گئی کہ وہ اس معاملے کی تفصیلی رپورٹ 26 ستمبر کو کمیٹی کے سامنے پیش کریں۔

عمران لغاری نے کہا کہ کمیٹی نیب اور رینجرز کو بھی خط لکھے گی کہ وہ اس معاملے میں سندھ پولیس کے ساتھ تعاون کریں بصورت دیگر ان کے خلاف بھی قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔

دریں اثناء پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کے چیئرمین ابصار عالم نے بتایا کہ تفتیشی ویڈیو کو نشر کرنا غیر قانونی نہیں کیوں کہ اس میں نازیبا زبان استعمال نہیں کی گئی اور نہ ہی یہ ویڈیو جعلی تھی۔

انہوں نے کہا کہ ہوسکتا ہے کہ اس ویڈیو کی تیاری اور میڈیا کو لیک کرنے کا عمل غیر قانونی ہو لیکن صحافتی اخلاقیات کے مطابق ایسی ویڈیوز کو نشر کرنے کی اجازت ہے۔

یہ خبر 30 اگست 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی


تبصرے (1) بند ہیں

محمد آصف ملک Aug 30, 2016 01:38pm
مسئلہ ویڈیو لیکیج کا نہی مسئلہ ان حقائق کا ہے جن کا اعتراف ڈاکٹر عاصم صاحب نے کیا ہے۔