کراچی: علامہ مرزا یوسف حسین اور تاج حنفی زیر حراست

اپ ڈیٹ 06 نومبر 2016
مسجد میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے کیے گئے سرچ آپریشن کے خلاف احتجاج کیا جارہا ہے — فوٹو: آن لائن
مسجد میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے کیے گئے سرچ آپریشن کے خلاف احتجاج کیا جارہا ہے — فوٹو: آن لائن

کراچی: قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ناظم آباد اور ناگن چورنگی کے علاقے میں چھاپہ مار کارروائی کے دوران آل پاکستان شیعہ ایکشن کمیٹی کے سربراہ علامہ مرزا یوسف حسین اور اہل سنت والجماعت کے سیکریٹری جنرل تاج حنفی کو حراست میں لے لیا۔

مجلس وحدت المسلمین کے ترجمان نے ڈان کو بتایا کہ پولیس نے ہفتے کی شب علامہ مرزا یوسف حسین کو ان کی رہائش گاہ سے حراست میں لیا جو جامع مسجد نورِ ایمان سے ملحق ہے۔

علامہ یوسف حسین اس مسجد کے پیش امام اور آل پاکستان شیعہ ایکشن کمیٹی کے سربراہ بھی ہیں۔

مجلس وحدت المسلمین کے رہنما احمد اقبال رضوی نے اپنے بیان میں مذہبی اسکالر مرزا یوسف حسین کو حراست میں لیے جانے کی مذمت کی اور کہا کہ ’عزا داروں کا قتل اور شیعہ رہنماؤں کو حراست میں لینا کراچی آپریشن کو سبوتاژ کرنے کی سازش ہے‘۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی: فائرنگ سے اہلسنت والجماعت کے کارکنان سمیت 6 ہلاک

دوسری جانب پولیس کا کہنا ہے کہ شہر کے مختلف علاقوں میں کومبنگ اور سرچ آپریشنز کے دوران دیگر متعدد افراد کو بھی حراست میں لیا گیا۔

واضح رہے کہ جمعے کے روز کراچی کے تین مختلف علاقوں پٹیل پاڑہ، شفیق موڑ اور نارتھ ناظم آباد میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات پیش آئے تھے جن میں کالعدم اہل سنت والجماعت کے 4 کارکنان سمیت 6 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

ان واقعات کے بعد رینجرز اور پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے جمعے اور ہفتے کی درمیانی شب نیو رضویہ سوسائٹی سے پیپلز پارٹی کےسابق سینیٹر فیصل رضا عابدی کو حراست میں لے لیا تھا۔

اہل سنت والجماعت کے رہنما تاج حنفی گرفتار

کراچی میں ٹارگٹ کلنگ میں تیزی کے بعد پولیس اور رینجرز کے تابڑ توڑ چھاپے جاری ہیں۔

ناگن چورنگی کے علاقے میں قائم مسجد صدیق اکبر اور اس سے ملحقہ ہاسٹل میں سرچ آپریشن کیا گیا اور اس دوران اہل سنت والجماعت کے سیکریٹری جنرل تاج حنفی کو گرفتار کرلیا گیا۔

مسجد صدیق اکبر اور اس سے ملحقہ ہاسٹل میں پولیس کا سرچ آپریشن— فوٹو: امتیاز علی.
مسجد صدیق اکبر اور اس سے ملحقہ ہاسٹل میں پولیس کا سرچ آپریشن— فوٹو: امتیاز علی.

ذرائع کے مطابق اہل سنت والجماعت کے دیگر رہنما رب نواز حنفی کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں جبکہ مسجد کے مہتمم مولانا شعیب کی تلاش بھی جاری ہے۔

ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ آپریشن کے دوران ہتھیار اور نفرت انگیز مواد بھی برآمد کیا گیا۔

اہل سنت والجماعت کے ترجمان نے تاج حنفی کی گرفتاری کی تصدیق کی ہے، خیال رہے کہ وہ 24 نومبر کو قومی اسمبلی کے حلقہ 258 پر ہونے والے ضمنی انتخابات کے اُمیدوار بھی ہیں۔

اہل سنت والجماعت کے سیکریٹری جنرل تاج حنفی کی گرفتاری پر رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے جماعت کے مرکزی صدر علامہ اورنگ زیب فاروقی نے اپنے جاری بیان میں کہا کہ ان کی جماعت کے ذمہ داروں اور کارکنوں کو نشانہ بنایا گیا ہے اور ظلم یہ کہ ان کے ہی رہنماؤں کو گرفتار کیا جارہا ہے اور ان کے گھروں پر چھاپے مارے جارہے ہیں۔

انھوں نے حکومت سے تاج حنفی کی فوری رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ان کے کارکنوں کو نشانہ بنانے والے دہشت گردوں کو انصاف کے کٹھرے میں لایا جائے۔

دوسری جانب کراچی کے مختلف علاقوں ناگن چورنگی، نیوکراچی، لیاقت آباد سندھی ہوٹل اور پیر آباد میں سرچ آپریشن کے دوران گھر گھر کی تلاشی لی گئی اور اس دوران 68 سے زائد افراد کو گرفتار کیا گیا، جن کی رہائی کے لیے کراچی کے مختلف علاقوں میں احتجاج بھی کیا گیا۔

مذہبی مقامات کا احترام ملحوظ خاطر رکھا جاتا ہے، رینجرز

رینجرز ترجمان کی جانب سے جاری ایک بیان میں سوشل میڈیا پر شرپسند عناصر کی جانب سے جاری کردہ تصاویر کو حقائق کے قطعی منافی قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ایسی تصاویر کا مقصد آپریشن کی راہ میں رکاوٹ ڈالنا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ شرپسند عناصر کی موجودگی کی اطلاع پر دوران تلاشی مساجد، امام بارگاہ اور مدارس کا احترام ملحوظ خاطر رکھا جاتا ہے۔

رینجرز ترجمان نے عوام سے اپیل کی کہ وہ کسی بھی گمراہ کن پروپیگنڈا کو بالائے طاق رکھتے ہوئے شرپسند عناصر کے خلاف آپریشن میں رینجرز کا ساتھ دیں۔

خیال رہے کہ سوشل میڈیا پر کچھ ایسی تصاویر گردش کررہی ہیں، جن کے ساتھ یہ دعویٰ کیا جارہا ہے کہ رینجرز نے علامہ مرزا یوسف حسین کی گرفتاری کے موقع پر ان کے گھر سے منسلک امام بارگاہ میں سرچ آپریشن کے دوران مذہبی اوراق کی بے حرمتی کی گئی تھی تاہم رینجرز نے ایسے کسی بھی دعوے کی تردید کی ہے۔

فیصل رضا عابدی پر غیر قانونی اسلحہ کا مقدمہ

پاکستان پیپلز پارٹی کے سابق سینیٹر سید فیصل رضا عابدی کے خلاف پولیس نے غیر قانونی اسلحہ رکھنے کا مقدمہ درج کرلیا۔

سینئر پولیس افسر نے بتایا کہ فیصل رضا عابدی کے خلاف غیر قانونی اسلحہ رکھنے کا مقدمہ بھی درج کرلیا گیا ہے کیوں کہ ان کی رہائش گاہ سے جو 5 اسلحہ برآمد ہوئے تھے ان میں سے ایک سب مشین گن (ایس ایم جی) غیر لائسنس یافتہ تھی لہٰذا ان کے خلاف سرکار کی مدعیت میں سندھ آرمز ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کرلیا گیا۔

پولیس نے بتایا کہ سچل تھانے میں سندھ آرمز ایکٹ کی دفعہ 23 وان کے تحت فیصل رضا عابدی کے خلاف ایف آئی آر نمبر 572/2016 درج کرلی گئی۔

واضح رہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے سابق سینیٹر سید فیصل رضا عابدی کو پولیس نے گزشتہ روز گرفتار کرکے شب پٹیل پاڑہ میں ہونے والی فائرنگ کے واقعے میں سہولت کار کا کردار ادا کرنے کے شبہے میں شامل تفتیش کرلیا تھا۔

سپرینٹنڈنٹ آف پولیس جمشید کوارٹرز طاہر نورانی نے اس بات کی تصدیق کی تھی کہ فیصل رضا عابدی کو دہرے قتل کے مقدمے میں باضابطہ طور پر گرفتار کرلیا گیا اور انہیں پٹیل پاڑہ میں ہونے والی فائرنگ کے واقعے میں شامل تفتیش کرلیا گیا ہے۔

اسٹیشن ہائوس آفیسر انعام حسن جونیجو نے ڈان کو بتایا تھا کہ گزشتہ شب پٹیل پاڑہ میں پیش آنے والے فائرنگ کے واقعے کا مقدمہ نامعلوم افراد کے خلاف ہلاک ہونے والوں کے رشتے داروں کی مدعیت میں جمشید کوارٹرز پولیس نے درج کیا تھا۔

مزید پڑھیں: پٹیل پاڑہ فائرنگ: سابق سینیٹر فیصل رضا عابدی گرفتار

واقعے کی ایف آئی آر (379، 2016) تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302 (قتل)اور انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کی دفعہ 7 کے تحت درج کی گئی تھی۔

بعد ازاں ایک اعلیٰ پولیس افسر نے بتایا تھا کہ فیصل رضا عابدی سے ماضی میں ہونے والے فرقہ وارانہ قتل سے متعلق بھی تفتیش کی جارہی ہے۔

شیعہ رہنماؤں کی گرفتاری پر احتجاج

ادھر کراچی میں فیصل رضا عابدی اور مرزا یوسف حسین کی گرفتاریوں کے خلاف راولپنڈی اور کراچی میں احتجاج کیا گیا۔

مظاہرے کے باعث راولپنڈی میں لیاقت باغ سے مری روڈ تک ٹریفک جام ہوگیا جبکہ کراچی کے علاقے رضویہ اور ایم جناح روڈ پر نمائش چورنگی پر سڑک کو بلاک کرکے احتجاج کیا گیا۔

احتجاج میں ایم ڈبلیو ایم، شیعہ ایکشن کمیٹی اور آئی ایس او کے کارکنان شامل تھے اور وہ دونوں رہنماؤں کی گرفتاری کے خلاف احتجاج کررہے تھے۔

اس موقع پر مظاہرین نے حکومت کے خلاف نعرے بازی کرتے ہوئے گرفتار رہنماؤں کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا۔

یاد رہے کہ حساس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے گذشتہ ہفتے میں کراچی میں ہونی والی فرقہ وارانہ ٹارگٹ کلنگ کے بعد فیصل رضا عابدی اور مرزا یوسف حسین کو شہر کے مختلف مقامات میں چھاپوں کے دوران گرفتار کیا تھا۔

دو روز قبل پٹیل پاڑہ میں ہونے والی فائرنگ فاطمہ بائی ہسپتال کے قریب جمشید کوارٹر پولیس کی حدود میں پیش آیا، جس کے نتیجے میں 2 افراد شدید زخمی ہوئے۔

دونوں زخمیوں کو تشویشناک حالت میں سول ہسپتال منتقل کیا گیا، جہاں سینئر میڈیکو لیگل افسر ڈاکٹر قرار احمد کے مطابق ڈاکٹرز نے 30 سالہ محمد امین اور ایک نامعلوم شخص کو مردہ قرار دے دیا۔

اہل سنت والجماعت کے عہدیدار نے ان دونوں افراد کے بھی جماعت کا کارکن ہونے کا دعویٰ کیا تھا تاہم پولیس کا کہنا ہے کہ ان دونوں کا تعلق تبلیغی جماعت سے تھا۔

انسداد دہشت گردی ڈیپارٹمنٹ کے عہدے دار راجہ عمر خطاب نے ڈان کو بتایا تھا کہ جمعے کو ہونے والے چھ افراد کے قتل میں ایک ہی گروپ ملوث ہے کیوں کہ پولیس کے فرانزک لیب رپورٹ میں اس بات کی تصدیق ہوئی کہ تینوں واقعات میں ایک ہی اسلحہ استعمال کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی میں مجلس پر فائرنگ، 5 افراد ہلاک

قبل ازیں 29 اکتوبر کو کراچی کے علاقے ناظم آباد نمبر 4 پر واقع تھانے کی پچھلی گلی میں واقع گلی میں مجلس عزا پر فائرنگ کے نتیجے میں ایک ہی گھرانے کے 5 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے تھے.

واضح رہے کہ فیصل رضا عابدی نے پیپلز پارٹی سے اختلافات کی وجہ سے 2014 میں سینیٹ کی نشست سے استعفیٰ دے دیا تھا۔

ایک وقت میں فیصل رضا عابدی کو سابق صدر سید آصف علی زرداری کا معتمد خاص سمجھا جاتا تھا تاہم بار بار مارشل لاء کی حمایت میں بیان دینے پر انہیں پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی کا مرتکب ٹھہرایا گیا تھا۔

اس کے علاوہ وہ عدلیہ کے خلاف بھی بیان دیتے رہے ہیں اور سینیٹ کے اجلاس کے دوران انہوں نے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سے استعفے کا مطالبہ بھی کیا تھا۔

سپریم کورٹ نے ان کے عدلیہ مخالف بیانات کا نوٹس لیتے ہوئے تحقیقات کا حکم دیا تھا جبکہ عدلیہ کے خلاف پریس کانفرنس کرنے پر فیصل رضا عابدی کو 2012 میں پیپلز پارٹی کی کور کمیٹی سے فارغ کردیا گیا تھا۔


ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

Naveed Chaudhry Nov 07, 2016 01:24am
السلام عليكم Why this person have government guard? Also see the police reports and observe that Sindh ( PPP ) is supporting him and trying to mnuplate it. This is why we need independent police which is liable to courts only.