اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو پاناما لیکس کی تحقیقات کے لیے کمیشن کی تشکیل کے لیے مشاورت کا وقت دیتے ہوئے عدالت نے پاناما لیکس پر وزیراعظم کے خلاف درخواستوں کی سماعت 9 دسمبر تک ملتوی کردی۔

چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے پاناما لیکس کے معاملے پر وزیراعظم نواز شریف کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کی۔

حکومتی وکیل سلمان اسلم بٹ نے دلائل کا سلسلہ جاری رکھا۔

سلمان اسلم بٹ کے دلائل سننے کے بعد عدالتِ عظمیٰ نے دونوں فریقین کو کیس کے فیصلے کے لیے کمیشن کی تشکیل کے حوالے سے مشاورت کرنے کے لیے وقت فراہم کیا کہ اپنے اپنے موکل سے پوچھ کر بتائیں کہ معاملے پر کمیشن بنائیں یا خود فیصلہ کریں۔

پاکستان تحریک انصاف کے وکیل نعیم بخاری کی جانب سے مشاورت کے لیے وقت کے تقاضے پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہماری طرف سے کوئی دباؤ نہیں، آرام سے مشورہ کریں، جس کے بعد عدالت نے کیس کی سماعت 9 دسمبر تک ملتوی کردی۔

چیف جسٹس نے پاناما لیکس کو تحقیقاتی اداروں کی ناکامی قرار دیتے ہوئے کہا کہ کمیشن تحریک انصاف کے الزامات پر بنایا جائے گا اور دونوں فریقین کو پورا موقع دیا جائے گا، کمیشن کو تمام اداروں کی معاونت کا اختیار بھی حاصل ہو گا اور اس کی رپورٹ ہمارے سامنے بینچ میں پیش کی جائے گی، انکا کہنا ہے کہ کمیشن سپریم کورٹ کے جج پر ہی مشتمل ہوگا ۔

حکومتی وکیل کے دلائل

درخواستوں کی سماعت پر حکومتی وکیل سلمان بٹ نے دلائل کا سلسلہ شروع کرتے ہوئے کہا کہ مریم نواز وزیراعظم کی زیر کفالت نہیں ہیں، باپ کے گھر میں قیام سے بیٹی زیر کفالت نہیں ہوجاتی اور والد بیٹیوں کو تحائف دیتے ہیں۔

سماعت کے دوران جسٹس عظمت سعید شیخ نے ریمارکس میں کہا کہ باپ نے بیٹی کو رقم دی اور وہی رقم والد کو زمین کی مد میں واپس کردی گئی۔

حکومتی وکیل سلمان اسلم بٹ کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف نے واجبات اور اثاثوں کو یکجا کردیا ہے۔

جسٹس عظمت نے مریم نواز کی کفالت سے متعلق استفسار کیا کہ مریم نواز کے اخراجات کہاں سے پورے ہوتے اور کیسے پورے ہوتے ہیں، کیونک ریٹرن کے مطابق مریم کی قابل ٹیکس آمدن صفر ہے۔

جسٹس عظمت نے وکیل سلمان بٹ کو کہا کہ مریم کے زیر کفالت ہونے کے معاملے میں آپ کے دلائل اب تک نکتہ حل نہیں کر پائے ہیں۔

جسٹس عظمت کا کہنا تھا کہ مریم نے اپنے ٹیکس گوشواروں میں رزعی آمدنی 21 لاکھ اور سفری اخراجات 35 لاکھ تک بتائے ہیں۔

وقفے کے دوران پاکستان تحریک انصاف کے رہنما نعیم الحق کا میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ حکومتی وکلا نے تسلیم کیا ہے کہ سن 80 کے مالی معاملات کے کاغذات ان کے پاس نہیں ہیں، اور وہ عدالت کے سوالات کو مسلسل ٹالتے رہے، اس کیس کا جلد فیصلہ آئے گا اور وزیراعظم اپنے عہدے پر قائم نہیں رہ سکیں گے۔

حکومتی رہنماؤں کی پریس کانفرنس

سماعت کے دوران وقفے میں میڈیا کے سامنے حکومتی رہنما طارق فضل چوہدری نے دعویٰ کیا کہ عدالت کا کہنا ہے کہ وزیراعظم پاکستان اس کیس میں ملزم نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پاناما لیکس سامنے لانے والی فرم نے بھی اس بات کی تصدیق کی کہ نواز شریف کا نام اس میں شامل نہیں۔

مسلم لیگ نواز کے رہنما دانیال عزیز نے سماعت کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ نوازشریف سپریم کورٹ کو تلاشی دینے کو تیار ہیں، عمران خان اب پیچھے کیوں ہٹ رہے ہیں، ان کے ثبوت کہاں گئے۔

انہوں نے الزام لگاتے ہوئے کہا کہ مہلت وہ مانگتے ہیں جن کے پاس ثبوت نہ ہوں، مگر ہم عمران خان کو بھاگنے نہیں دیں گے۔

انہوں نے مزید کہا کہ وزیراعظم کا دامن صاف ہے اب حساب عمران خان کا ہوگا۔

میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مسلم لیگ کے رہنما عابد شیر علی کا کہنا تھا کہ ہم عدالت اور قوم کے سامنے سرخرو ہوئے ہیں اور عمران خان کی طرف سے نعیم بخاری کوئی ثبوت پیش نہیں کرسکے۔

’کوئی ثبوت موجود نہیں‘

سماعت کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کا کہنا تھا کہ حکومتی وکیل نے آج عدالت میں کہا کہ وزیراعظم کا پارلیمنٹ میں خطاب سیاسی تھا، جبکہ آئین کے مطابق وزیراعظم پارلیمنٹ کو جوابدہ ہوتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ میں نواز شریف نے کہا تھا کہ منی ٹریل کے سارے کاغذات موجود ہیں، آج سپریم کورٹ میں کہہ رہےہیں کچھ بھی موجود نہیں، ان کے پاس قطری شہزادے کے خط کے حوالےسے بھی کوئی ثبوت موجود نہیں ہیں۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ حکومت کےماتحت ادارے آزادانہ تحقیقات کیسے کر سکتے ہیں۔

شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کے وکیل تینوں سوالات کا جواب دینے اور قائل کرنے میں ناکام رہے۔

’حکمرانوں کے پاس صرف سچ کا راستہ ہے‘

امیر جماعت اسلامی سراج الحق کا کہنا تھا کہ حکمرانوں کے لیے اب ایک ہی راستہ ہے اوروہ راستہ سچ کا راستہ ہے، پاناما اسکینڈل کی وجہ سے حکومت بدنام ہو چکی ہے، اور نیب نے اس ملک کو مشکل میں ڈالا ہے۔

سراج الحق کا کہنا تھا کہ نیب ذمہ داریاں پوری کرتا تو آج قوم کو یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔

انہوں نے کہا کہ انصاف کا تقاضا ہے کمیشن بننےکےبعد وزیراعظم سرکاری اختیارات استعمال نہ کریں۔

امیر جماعت اسلامی نے سپریم کورٹ سے کمیشن کے لیے پہلے ٹی او آرز بنانے کی درخواست بھی کی۔

گذشتہ سماعتیں

یاد رہے کہ پاکستان تحریک انصاف، جماعت اسلامی، عوامی مسلم لیگ، جمہوری وطن پارٹی اور طارق اسد ایڈووکیٹ نے پاناما لیکس کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ میں آئینی درخواستیں دائر کی تھیں۔

سپریم کورٹ نے 20 اکتوبر 2016 کو وزیراعظم کے خلاف دائر درخواستوں پر وزیراعظم نواز شریف، وزیر خزانہ اسحٰق ڈار، وزیراعظم کی صاحبزادی مریم نواز، داماد کیپٹن (ر) صفدر، بیٹوں حسن نواز، حسین نواز، ڈی جی فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے)، چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) اور اٹارنی جنرل سمیت تمام فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کیس کی سماعت 2 ہفتوں کے لیے ملتوی کردی تھی، بعدازاں اس کی سماعت کے لیے یکم نومبر کی تاریخ مقرر کی گئی۔

یہ بھی پڑھیں: پاناما لیکس: سپریم کورٹ نے 3 سوالات اٹھا دیئے

28 اکتوبر کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے پاناما لیکس پر درخواستوں کی سماعت کے لیے لارجر بینچ تشکیل دیا تھا، لارجر بینچ میں چیف جسٹس انور ظہیر جمالی، جسٹس آصف سعید کھوسہ، جسٹس امیرہانی مسلم، جسٹس عظمت سعید شیخ اور جسٹس اعجاز الحسن شامل ہیں۔

یکم نومبر کو ہونے والی سماعت میں سپریم کورٹ نے پاناما پیپرز کی تحقیقات کے لیے حکومت اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سے تحقیقاتی کمیشن کے ٹرمز آف ریفرنسز (ٹی او آرز) پر تحریری جواب طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت 3 نومبر تک ملتوی کردی تھی۔

3 نومبر کی سماعت میں وزیر اعظم کی جانب سے ان کے وکیل نے جواب داخل کرایا جبکہ عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے بھی اپنے ٹی او آرز جمع کرائے تھے۔

عدالت نے وزیراعظم کے بچوں کی جانب سے جواب داخل نہ کرائے جانے پر برہمی کا اظہار کیا تھا اور وزیراعظم کے وکیل سلمان اسلم بٹ کی سرزنش کی تھی جبکہ جواب داخل کرنے کے لیے 7 نومبر تک کی مہلت دی تھی۔

مزید پڑھیں: پاناما لیکس: وزیراعظم سمیت دیگر فریقین کو نوٹسز جاری

بعد ازاں تحریک انصاف نے کمیشن کے حوالے سے سماعت کے بعد سپریم کورٹ میں اپنے ٹی او آرز جمع کروائے جبکہ وزیراعظم کے داماد کیپٹن (ر) صفدر نے بھی اپنا جواب اور ٹی او آرز عدالت عظمیٰ میں جمع کرادیے تھے۔

7 نومبر کی سماعت میں وزیراعظم کے بچوں حسن نواز، حسین نواز اور مریم صفدر نے جواب داخل کرائے تھے۔

اس کے بعد چیف جسٹس نے تمام فریقین کو ہدایت کی تھی کہ وہ 15 نومبر تک دستاویزی شواہد پیش کریں جبکہ کیس کی سماعت بھی 15 نومبر تک کے لیے ملتوی کردی گئی تھی۔

15 نومبر کو ہونے والی سماعت کے دوران وزیراعظم اور ان کے بچوں کی جانب سے 400 صفحات سے زائد پر مشتمل دستاویزات عدالت عظمیٰ میں جمع کرائی گئیں، جن میں وزیراعظم نواز شریف کے ٹیکس ادائیگی سمیت زمین اور فیکٹریوں سے متعلق تفصیلات اور زمینوں کے انتقال نامے بھی شامل تھے۔

عدالت میں قطر کے سابق وزیر خارجہ شہزادے حماد بن جاسم بن جبر الثانی کا تحریری بیان بھی پیش کیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: قطری شہزادے کا خط اور وزیراعظم کا موقف مختلف: سپریم کورٹ

بعدازاں 17 نومبر کو ہونے والی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے تحریک انصاف کی جانب سے پاناما لیکس کے معاملے پر جمع کرائے گئے شواہد پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا تھا کہ 680 صفحات پر مشتمل جواب کا شریف خاندان کی لندن میں موجود جائیدادوں سے کوئی لینا دینا نہیں۔

عدالت کا کہنا تھا، 'ہم سمجھنے سے قاصر ہیں کہ کون سا وکیل کس کی نمائندگی کررہا ہے'.

عدالت نے تاسف کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ عدالت کو موصول ہونے والی دستاویزات کی تعداد واضح کرتی ہے کہ کارروائی 6 ماہ میں بھی مکمل نہیں ہوسکے گی، بعدازاں کیس کی سماعت 30 نومبر تک ملتوی کردی گئی تھی۔

جس کے بعد حامد خان نے سپریم کورٹ میں زیر سماعت مقدمے میں پی ٹی آئی کی نمائندگی سے معذرت کرلی تھی۔

مزید پڑھیں: پاناما لیکس پر میڈیا کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنے کی ہدایت

30 نومبر کو ہونے والی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے جہاں میڈیا کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنے کی ہدایت کی گئی، وہیں پی ٹی آئی کی جانب سے عدالت کو بتایا گیا کہ وزیراعظم نواز شریف کے پاس دبئی، سعودی عرب اور لندن فلیٹس کا کوئی منی ٹریل نہیں۔

6 دسمبر کو ہونے والی سماعت میں حکومتی اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے وکلاء کے دلائل سننے کے بعد جسٹس آصف سعید کھوسہ کی جانب سے 3 سوالات اٹھائے گئے:

وزیراعظم کے بچوں نے کمپنیاں کیسے بنائیں؟

زیر کفالت ہونے کا معاملہ

وزیراعظم کی تقریروں میں سچ بتایا گیا ہے یا نہیں؟

عدالت نے پوچھے گئے تینوں سوالوں کا جواب مانگتے ہوئے کیس کی سماعت 7 دسمبر تک کے لیے ملتوی کردی تھی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں