اسلام آباد: قومی احتساب بیورو (نیب) نے کرپشن کے سنگین الزامات میں ملوث اعلیٰ حکومتی عہدیدار کو ’کلیئر‘ قرار کرنے جا رہی ہے، جس کے بعد حزب اختلاف کی جماعتوں اور قانونی حلقوں کی جانب سے نیب کی افادیت پر کئی سوالات کھڑے کیے جاسکتے ہیں۔

رواں سال مئی میں سیکریٹری خزانہ بلوچستان اس وقت سرخیوں کا حصہ بنے جب اربوں روپے کی بدعنوانی کے الزام میں گرفتاری کے چند گھنٹوں بعد نیب نے کوئٹہ میں واقع ان کے گھر سے 73 کروڑ روپے نقد برآمد ہوئے۔

اربوں روپے کی برآمدگی کے بعد ان کے خلاف شروع ہونے والی تحقیقات میں اس بات کا انکشاف بھی ہوا کہ کراچی میں مشتاق احمد رئیسانی کے نام پر درجنوں بنگلے موجود ہیں جن کی کل مالیت 2 ارب روپے کے قریب بتائی گئی۔

مزید پڑھیں: بلوچستان کرپشن اسکینڈل: پلی بارگین کی درخواست منظور

سیکریٹری خزانہ کے گھر سے اربوں کی غیرقانونی رقم ضبط کیے جانے اور ان کی آمدن سے زائد جائیداد کے سامنے آنے کے بعد ایسا ظاہر ہوتا تھا کہ اس کیس کا صاف اختتام کی سزا کے فیصلے پر ہوگا لیکن بدھ (21 دسمبر) کو سامنے آنے والے نیب کے فیصلے نے صورتحال کو یکسر تبدیل کردیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق قومی احتساب بیورو کے ایگزیکٹو بورڈ کے جس اجلاس نے مشتاق احمد رئیسانی پر 40 ارب روپے کرپشن کے الزامات عائد کیے تھے، اب اسی بورڈ نے ان کی پلی بار گین کی درخواست منظور کرلی، پلی بارگین کے تحت مشتاق رئیسانی 2 ارب روپے سے زائد نیب میں جمع کرائیں گے۔

یہ اجلاس چیئرمین قمر زمان چوہدری کی صدارت میں نیب ہیڈ کوارٹرز میں ہوا۔

نیب ترجمان نے تصدیق کی کہ اجلاس میں بلوچستان کے سیکریٹری خزانہ مشتاق احمد رئیسانی اور اور وزیراعلیٰ بلوچستان کے سابق مشیر خالد لانگو کے فرنٹ مین سہیل مجید شاہ کی 2 ارب روپے کی ادائیگی پر بلی بارگین کی درخواست منظور کرلی۔

ترجمان نیب کے مطابق پلی بارگین کے تحت یہ نیب کی تاریخ کی سب سے بڑی وصولی ہوگی۔

یہ بھی پڑھیں: 73کروڑ نقد برآمد،مشتاق رئیسانی کاریمانڈ منظور

ایک سوال کے جواب میں ترجمان نیب کا کہنا تھا کہ احتساب عدالت سے منظوری کے بعد مشتاق احمد رئیسانی اس قضیے سے ’مکمل کلیئر‘ ہوجائیں گے تاہم وہ آئندہ 10 سال کے لیے نہ ہی حکومتی نوکری حاصل کرسکیں گے اور نہ بینک سے قرضہ حاصل کرسکیں گے۔

ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ ملزم سیکریٹری خزانہ سے ایک ارب روپے پہلے ہی حاصل کیے جاچکے ہیں جو اان کے 12 گھروں کے قبضے کے علاوہ ہیں۔

کراچی میں موجود گھروں سے متعلق سوال پر ترجمان نیب کا کہنا تھا کہ لگائے گئے اندازوں کے مطابق ان گھروں کی کل مالیت 2 ارب سے زائد ہے تاہم ان کی اصل مالیت کا تخمینہ بھی لگایا جارہا ہے جس کے بعد ہی اس حوالے سے فیصلہ کیا جائے گا۔

مزید پڑھیں: سیکریٹری خزانہ بلوچستان کے گھر سے 73 کروڑ روپے برآمد

واضح رہے کہ نیب کے اس خلاف معمول فیصلے پر اس کئی سوالات اٹھائے جاسکتے ہیں، نیب کی جانب سے پلی بارگین کا معاملہ اس صورت میں سامنے آتا ہے جب لوٹی ہوئی یا غیر مناسب طور پر منتقل رقم کی وصولی کرنا ہو تاہم مشتاق احمد رئیسانی کا کیس نے یکسر مختلف موڑ لیا ہے۔

واضح رہے کہ نیب نے سیکریٹری خزانہ کے قبضے سے 1 ارب روپے کی رقم اور 2 ارب مالیت کے 12 گھر ضبط کیے گئے تھے جس کا مطلب ہے کہ نیب پہلے ہی 3 ارب روپے کی رقم ان سے حاصل کرچکا ہے جب کہ ملزم کی جانب سے پلی بارگین کی ڈیل کے تحت 2 ارب روپے جمع کرائے جانے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں