آزادی مارچ: کنٹینرز ضبط کرنے سے جڑواں شہروں میں خوراک کی قلت کا خدشہ

اپ ڈیٹ 01 نومبر 2019
یومیہ اجرت پر کام کرنے والے مزدور ایک ہفتے سے بے روزگار ہیں—فائل فوٹو: اے پی
یومیہ اجرت پر کام کرنے والے مزدور ایک ہفتے سے بے روزگار ہیں—فائل فوٹو: اے پی

حکومت کی جانب سے ’آزادی مارچ‘ کے شرکا کا راستہ روکنے کے لیے کنٹینرز تحویل میں لینے سے راولپنڈی اور اسلام آباد کی مارکیٹ اور بازاروں میں اشیائے خورونوش کی قلت کا خدشہ بڑھ گیا۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق انتظامیہ نے دونوں شہروں کی مرکزی شاہراہوں کے ساتھ ہزاروں کنٹینرز رکھ دیے ہیں۔

مزیدپڑھیں: شہباز شریف نے جے یو آئی (ف) کے آزادی مارچ کی حمایت کا اعلان کردیا

دوسری جانب مقامی گڈز ٹرانسپورٹرز اور ٹریڈرز ایسوی ایشن کے مطابق کہ کنٹینرز تحویل میں لینے سے آئندہ چند دنوں میں شہروں میں کھانے پینے کی قلت بڑھے گی۔

واضح رہے کہ گزشتہ چند برس سے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کم و بیش تمام تحاریک، مظاہروں اور مارچ کے خلاف کنٹینرز کا استعمال کیا، جس کی مثال وکلا، طاہر القادری، عمران خان اورتحریک لبیک پاکستان کے احتجاج و دھرنوں سے ملتی ہے۔

یہاں یہ بات مدنظر رہے کہ جڑواں شہر (راولپنڈی اور اسلام آباد) میں کاشتکاری نہیں ہوتی اس لیے پھل، سبزیاں اور اجناس ملک کے دیگر شہروں سے یہاں پہنچایا جاتا ہے۔

راولپنڈی اور اسلام آباد میں پھل اور سبزی کی بڑی تعداد پنجاب اور خیبرپختونخوا سے پہنچائی جاتی ہے اور سڑکیں بند ہونے کی صورت میں دونوں شہر مسائل سے دوچار ہوسکتے ہیں۔

مزیدپڑھیں: آزادی مارچ: حکومت اور اپوزیشن کے مذاکرات بے نتیجہ ختم

ایک راہداری شہر کا درجہ رکھنے کی حیثیت سے راولپنڈی سے آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان مختلف اشیا بھیجی جاتی ہیں۔

دوسری جانب گڈز ٹرانسپورٹ یونین کے صدر شکیل قریشی نے بتایا کہ حکومت نے کنٹینرز تحویل میں لے کر لوگوں کے لیے مسائل پیدا کردیے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ یومیہ آمدن والے مزدور گزشتہ ایک ہفتے سے بے روزگار ہیں۔

شکیل قریشی نے بتایا کہ حکومت نے روزگار چھین کر یومیہ اجرت کمانے والوں اور ان کے اہلخانہ کو شدید مشکل میں ڈال دیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’گڈز آپریٹرز کے پاس کنٹینرز تحویل میں لینے کے بعد حکومت کے خلاف احتجاج کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔

مزیدپڑھیں: پاکستان فروری 2020 تک ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں ہی رہے گا

ٹرانسپورٹ یونین کے صدر نے بتایا کہ ’احتجاج کے دوران، کنٹینرز میں موجود اشیا برباد ہوجاتی ہیں اور گڈز آپریٹرز کو ٹریڈرز کو ادائیگی کرنی پڑتی ہے، پولیس اور حکومت کسی بھی نقصان کا ازالہ نہیں کرتے۔

اس ضمن میں ٹریڈرز ایسوسی ایشن کے ترجمان راجا سلیم نے کہا کہ تاجر کنٹینرز اشیا ضرورت کی ترسیل کے لیے استعمال کرتے ہیں، سڑک بن کرنے کے لیے نہیں۔

انہوں نے کہا اگر حکومت کنٹینرز کے ذریعے روڈ بند کرنا چاہتی ہے تو سندھ حکومت کی طرح اپنے کنٹینرز خریدے۔

راجا سلیم کا کہنا تھا کہ ضلعی انتظامیہ یقین دلائے کہ وہ کنٹینرز کا یومیہ کرایہ ادا کرے گی ورنہ احتجاج ضرور ہوگا، ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اگلے چند روز میں ادویات سمیت دیگر اشیا خراب ہوجائیں گی۔

آزادی مارچ

واضح رہے کہ جمعیت علمائے اسلام (ف) نے جون میں یہ اعلان کیا تھا کہ ان کی جماعت اکتوبر میں اسلام آباد میں حکومت مخالف لانگ مارچ کرے گی۔

اپوزیشن جماعت کے سربراہ کا اس آزادی مارچ کو منعقد کرنے کا مقصد 'وزیراعظم' سے استعفیٰ لینا ہے کیونکہ ان کے بقول عمران خان 'جعلی انتخابات' کے ذریعے اقتدار میں آئے۔

مولانا فضل الرحمٰن کی جانب سے اس لانگ مارچ کے لیے پہلے 27 اکتوبر کا اعلان کیا گیا تھا لیکن بعد ازاں اسے 31 اکتوبر تک ملتوی کردیا گیا، ساتھ ہی یہ کہا گیا کہ 27 اکتوبر کو دنیا بھر میں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی قبضے کے خلاف یوم سیاہ منایا جاتا ہے، لہٰذا اس روز کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کیا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: اپوزیشن سے مذاکرات کیلئے حکومت کی 7 رکنی کمیٹی تشکیل

اس آزادی مارچ کے اعلان کے بعد وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ ہفتے جے یو آئی (ف) اور دیگر اپوزیشن جماعتوں سے مذاکرات کے لیے وزیر دفاع پرویز خٹک کی سربراہی میں ایک 7 رکنی مذاکراتی کمیٹی قائم کی تھی۔

ابتدائی طور پر کمیٹی کے رکن اور چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی جانب سے ملاقات کے لیے ٹیلی فون پر رابطہ کرنے کے بعد جے یو آئی (ف) کے سربراہ نے اپنی جماعت کے سیکریٹری جنرل مولانا عبدالغفور حیدری کو اس ملاقات کی اجازت دی تھی۔

تاہم 20 اکتوبر کو پاکستان پیپلز پارٹی کے تحفظات کے بعد مولانا فضل الرحمٰن نے پارٹی کے وفد کو صادق سنجرانی سے ملاقات کرنے سے روک دیا تھا اور کہا تھا کہ حکومت سے مذاکرات کا فیصلہ اب اپوزیشن کی مشترکہ رہبر کمیٹی کرے گی۔

علاوہ ازیں 21 اکتوبر کو اپوزیشن کی رہبر کمیٹی نے فیصلہ کیا تھا کہ حکومت سے مذاکرات پرامن مارچ کی یقین دہانی کے بعد ہوں گے، جس کے بعد حکومت نے جے یو آئی (ف) کو 'آزادی مارچ' منعقد کرنے کی مشروط اجازت دینے کا فیصلہ کیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں