بھارتی ایما پر کشمیر سے متعلق 10 لاکھ ٹوئٹس بلاک کیے جانے کا انکشاف

اپ ڈیٹ 26 اکتوبر 2019
ٹوئٹر کی ملکی مواد پالیسی کے تحت بھارت میں لاکھوں ٹوئٹس بلاک کی جاچکی ہیں—فائل فوٹو: رائٹرز
ٹوئٹر کی ملکی مواد پالیسی کے تحت بھارت میں لاکھوں ٹوئٹس بلاک کی جاچکی ہیں—فائل فوٹو: رائٹرز

کراچی: کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹ (سی پی جے) کی شائع کردہ تحقیقاتی رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ٹوئٹر نے بھارتی حکومت کی ایما پر کشمیر کے حوالے سے کی گئیں تقریباً 10 لاکھ ٹوئٹس بلاک کیں۔

دنیا بھر میں آزادی صحافت کے فروغ کے لیے کام کرنے والی آزاد تنظیم کی رپورٹ کے مطابق اگست 2017 سے اب تک ٹوئٹر کی ملکی مواد پالیسی کے تحت بھارت میں ایسی لاکھوں ٹوئٹس بلاک کی جاچکی ہیں جنہوں نے کشمیر پر بات کی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سی پی جے کو علم ہوا کہ بھارتی حکومت نے ٹوئٹر کو 53 خطوط ارسال کیے، جس میں گزشتہ 2 سال کے عرصے میں 400 اکاؤنٹس بلاک کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: کیا کشمیریوں کو خاموش کروانے میں ٹوئٹر بھارت کی مدد کر رہا ہے؟

مذکورہ اکاؤنٹس میں سے 45 فیصد اکاؤنٹس نے اپنی تفصیلات میں کشمیر کا ذکر کیا تھا یا پھر حال ہی میں کشمیر کے حوالے سے ٹوئٹ کی تھیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ بھارتی حکام نے 53 درخواستوں میں سے سیکڑوں یو آر ایل والی 13 درخواستیں 2019 کے عام انتخابات کے آس پاس ارسال کیں جبکہ باقی 40 درخواستیں بھارتی وزارت برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی کی جانب سے کی گئیں۔

صرف رواں برس اگست کے دوران جب مقبوضہ کشمیر میں مواصلاتی روابط منقطع تھے تو ٹوئٹر کو 9 قانونی درخواستیں ارسال کی گئیں، جس میں 20 اکاؤنٹس اور 24 ٹوئٹس کا ذکر کیا گیا تھا اور حالیہ کچھ ماہ کے دوران اس میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔

مزید پڑھیں: مسئلہ کشمیر: حالیہ تنازع پر ٹوئٹر نے 200 اکاؤنٹس معطل کیے

ان 400 میں سے 93 اکاؤنٹس ستمبر اور اکتوبر کے دوران بھارت میں بند کیے گئے جبکہ 90 فیصد بند کیے گئے اکاؤنٹس اس گروہ سے تعلق رکھتے تھے جو کشمیر کے بارے میں بات کرتا تھا اور ان کی جانب سے 9 لاکھ 20 ہزار ٹوئٹس کی گئی تھیں۔

خیال رہے کہ ٹوئٹر کی جانب سے اس قسم کی درخواستوں پر عملدرآمد میں 2017 کے وسط سے واضح اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

اس سے قبل دسمبر 2012 سے جون 2017 تک ٹوئٹر نے 900 اکاؤنٹس بلاک کرنے کی درخواستیں موصول ہونے کے باجود اس قسم کی درخواست پر صرف ایک اکاؤنٹ معطل کیا تھا۔

بعدازاں جون 2017 کے بعد سے دسمبر 2018 کے دوران اس میں واضح اضافہ دیکھنے میں آیا اور 4ہزار 722 درخواستوں پر ٹوئٹر نے 131 اکاؤنٹس بلاک کرنے پر آمادگی کا اظہار کیا۔

یہ بھی پڑھیں: کشمیر حامی اکاؤنٹس کی بندش: پاکستان نے معاملہ فیس بک، ٹوئٹر کے سامنے اٹھادیا

اس ضمن میں سی پی جے ایشیا کی محقق عالیہ افتخار نے ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’ٹوئٹر سے مواد ہٹانے کی قانونی درخواستیں ہی ظاہر کرتی ہیں کہ بھارت کشمیری بیانیہ پھیلنے سے روکنے کے لیے اپنی سینسر شپ کو مقبوضہ کشمیر کی سرحدوں سے وسیع تر کررہا ہے اور ٹوئٹر کی جانب سے اس پر عملدرآمد کا مطلب یہ ہے کہ خطے میں اب بھی بات چیت کے لیے محدود جگہیں ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں