کورونا وائرس کے باعث فری لانسنگ میں نمایاں کمی

اپ ڈیٹ 27 مئ 2020
پاکستان میں 82 فیصد فری لانسرز کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کے بعد طلب میں اضافہ ہوگا — فوٹو: رائٹرز
پاکستان میں 82 فیصد فری لانسرز کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کے بعد طلب میں اضافہ ہوگا — فوٹو: رائٹرز

عالمی وبا کورونا وائرس کے باعث نہ صرف دنیا بھر میں باقاعدہ ملازمتیں متاثر ہوئی ہیں بلکہ فری لانس کام بھی متاثر ہوا ہے کیونکہ اکثر پاکستانی فری لانسرز کا ماننا ہے کہ کووڈ-19 کے باعث کام کی طلب میں نمایاں کمی آئی ہے۔

64 فیصد پاکستانی فری لانسرز کی یہ رائے حالیہ سروے میں سامنے آئی جس میں کہا گیا کہ کاروبار اور کمپنیوں نے فری لانسنگ کی لاگت میں کمی کردی ہے اور نئے منصوبوں پر کام روک دیا ہے۔

دنیا بھر کے 100 ممالک بشمول ابھرتی ہوئی مارکیٹوں جیسا کہ پاکستان کے فری لانسرز نے ڈیجیٹل ادائیگی کے پلیٹ فارم پایونیئر کو کورونا وائرس کے معاشی اثرات سے متعلق رائے بیان کی۔

پایونیئر کی رپورٹ 'فری لانسنگ ڈیورنگ کووڈ-19' ایک ہزار سے زائد فری لانسرز کے سروے پر مبنی ہے، جس میں دکھایا گیا کہ 64 فیصد پاکستانی فری لانسرز جن میں سے 33 فیصد گرافک ڈیزائنرز ہیں نے کہا کہ ان کی خدمات کی طلب میں کافی زیادہ کمی آئی ہے۔

مزید پڑھیں: کورونا وبا کے نتیجے میں نقصان دہ گیسوں کے اخراج میں ریکارڈ کمی

رپورٹ میں کہا گیا کہ 15 فیصد فری لانسرز، کاروباروں کے لیے حالات معمول پر ہیں جبکہ 18 فیصد کے مطابق ان کی خدمات کی طلب میں اضافہ ہوا ہے۔

ٹیم کے حجم میں کمی سے متعلق 24 فیصد پاکستانی فری لانسرز نے کہا کہ وہ اسی ٹیم کو برقرار رکھیں گے یا اس میں اضافہ کریں گے جبکہ 9 فیصد نے کہا کہ وہ اراکین میں کمی کریں گے۔

مستقبل مسابقتی ہے

مختصر عرصے میں فری لانسرز کی طلب کم ہوتی دکھائی دے رہی ہے لیکن اکثر کا ماننا ہے کہ یہ صرف اس وقت تک کا معاملہ ہے جب تک کاروبار بحال نہیں ہوتے اور ٹیلنٹ حاصل کرنے کے لیے آؤٹ سورسنگ کرتے ہیں۔

پاکستان میں 82 فیصد فری لانسرز کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کے بعد طلب میں اضافہ ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ مستقبل میں مقابلہ زیادہ ہوگا کیونکہ زیادہ لوگ فری لانسنگ کی جانب جارہے ہیں، 64 فیصد کا کہنا ہے کہ اس عرصے کے دوران ان کی آمدن تبدیل نہیں ہوئی یا اس میں اضافہ ہوا جس سے وہ پر اعتماد ہیں کہ اس صورتحال میں بھی ان کا معاوضہ منصفانہ ہے۔

دوسری جانب 35 فیصد فری لانسرز کا کہنا ہے کہ ان کا معاوضہ کم ہوا ہے۔

اکثر فریقین کا کہنا ہے کہ کل وقتی ملازمتوں کے بجائے ذاتی روزگار مستحکم ہوجائے گا۔

پایونیئر کے چیف ایگزیکٹو افسر اسکاٹ گیلٹ نے کہا کہ ایک ہزار سے زائد فری لانسرز کا سروے کیا گیا جس میں معلوم ہوا کہ 53 فیصد کا ماننا ہے کہ عالمی وبا کے خاتمے کے بعد ان کی خدمات کی طلب میں اضافہ ہوگا جبکہ مارکیٹ میں نئے فری لانسرز کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔

پاکستان سے فری لانسر آف دی ایئر 2019 ایمن سروش نے کہا کہ اس وقت کاروبار آن لائن منتقل ہورہے ہیں اور فری لانسرز کے پاس ویب/ایپ ڈیولپمنٹ اور ڈیجیٹل مارکیٹنگ دونوں میں اپنے کاروبار کو بڑھانے کے لیے بہت زیادہ مواقع ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ میں نے دیکھا ہے کہ چند فری لانسرز نہ صرف جاب پورٹلز پر فعال ہیں بلکہ دیگر سوشل میڈیا چینلز پر بھی سرگرم ہیں۔

سی ای او نے کہا کہ موجودہ صورتحال آن لائن منصوبوں اور مواقع کو یکساں آپشن فراہم کرتا دکھائی دے رہا ہے جنہیں پہلے کبھی اہم نہیں سمجھا گیا تھا۔

عالمی منظر نامہ

رپورٹ کے مطابق شمالی امریکا اور یورپ میں موجود بین الاقوامی کلائنٹس کے ساتھ کام کرنے والے فری لانسرز کی طلب میں سب سے زیادہ کمی کا رجحان دیکھا جبکہ ایشیا اور آسٹریلیا جہاں وبا پہلے آئی وہاں بھی فری لانسرز کی طلب میں کمی دیکھی گئی۔

فری لانسرز جو خود اپنی ٹیم رکھتے ہیں (سروے کے 21 فیصد) نے اپنے ملازمین اور ماتحت کنٹریکٹرز کو محفوط کرنے میں لچک دکھائی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: گوگل کی مفت ویڈیو کانفرنسنگ سروس استعمال کرنا سیکھیں

رپورٹ کے مطابق 76 فیصد نے کہا کہ انہوں نے ٹیم کی آمدن تبدیل نہیں کی جبکہ 17 فیصد نے اس میں کمی کی۔

مزید برآں 74 فیصد نے کہا کہ وہ اپنی ٹیم کا حجم برقرار رکھیں گے یا اس میں اضافہ کریں گے جبکہ 25 فیصد نے کہا کہ وہ کمی کریں گے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ عالمی سطح پر سست روی کے باوجود فری لانسنگ کے نرخ مستحکم رہے۔

ای کامرس کی طلب

مارچ 2020 میں پایونیئر نے کہا تھا کہ امریکا میں چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار میں ماہانہ بنیادوں پر 33 فیصد اضافہ ہوا جنہوں نے بین الاقوامی فری لانسرز کو ادائیگی کے لیے پلیٹ فارم پر رجسٹرڈ کیا۔

پایونیئر کے سی ای او نے کہا کہ کمپنیوں کو ایسا کرنے کے لیے اس خلا کو پر کرنا ہوگا جس کی وہ توقع نہیں کررہے تھے، وہ صنعتیں جن میں طلب میں اضافہ ہوا ان میں ویب اینڈ گرافک ڈیزائن، کانٹینٹ رائٹنگ اور مارکیٹنگ شامل ہیں۔


یہ خبر 27 مئی 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں