طیارہ حادثہ: ایئربس کے ماہرین کا تحقیقات کیلئے جائے وقوع کا دورہ

اپ ڈیٹ 27 مئ 2020
ایئربس کی ٹیم کو حکام نے حادثےسے متعلق بریفنگ دی — فوٹو: ریڈیو پاکستان
ایئربس کی ٹیم کو حکام نے حادثےسے متعلق بریفنگ دی — فوٹو: ریڈیو پاکستان

ایئربس کے ماہرین نے کراچی میں عید سے دو روز قبل پیش آنے والے مسافرطیارے کے حادثے کی تحقیقات کا آغاز کردیا۔

عید سے محض دو روز قبل 22 مئی کو پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن (پی آئی اے) کا طیارہ 'اے 320' کراچی کے علاقے ماڈل کالونی کی سوسائٹی جناح گارڈن کی ایک گلی میں گر کر تباہ ہوگیا تھا، جس کے نتیجے میں عملے کے 8 ارکان سمیت 97 افراد لقمہ اجل بن گئے تھے۔

ابتدائی رپورٹس میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ طیارہ بظاہر انجن کی خرابی کی وجہ سے گر کر تباہ ہوا۔

تاہم ایوی ایشن انتظامیہ نے کہا کہ انہوں نے ایئربس بنانے والی یورپی کمپنی کی 11 رکنی ٹیم سے اپنی تحقیقات کے ابتدائی نتائج شیئر کیے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: طیارہ حادثے سے متاثرہ مکانات کے نقصان کا جائزہ لینے کیلئے سروے

ریڈیو پاکستان کی رپورٹ کے مطابق ایئربس کے ماہرین اور انجینیئرز نے پرواز 'پی کے 8303' کو پیش آنے والے حادثے کے مقام کا بھی دورہ کیا، جہاں انہیں ایئرکرافٹ ایکسیڈنٹ انویسٹی گیشن بورڈ (اے اے آئی بی) کے حکام نے بریفنگ دی۔

پی آئی اے کے ترجمان عبدالحفیظ کا کہنا تھا کہ 'ہم ایئربس کے تکنیکی ماہرین کو تمام ممکنہ معاونت فراہم کر رہے ہیں۔'

علاوہ ازیں ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایئر بس نے پاکستانی حکام کے ساتھ ساتھ پی آئی اے کو تحقیقات میں مکمل تکنیکی معاونت فراہم کرنے کی کوشش کے تحت 11 رکنی ٹیم پاکستان بھیجی ہے۔

خیال رہے کہ طیارے کا ملبہ جائے وقوع سے نہیں ہٹایا گیا کیونکہ تحقیقاتی ٹیم نے شواہد جمع نہیں کیے، تاہم پیراملٹری دستوں کی جانب سے جائے حادثہ کو سیل کردیا گیا ہے اور انہوں نے کسی غیر مجاز شخص کو داخلے کی اجازت نہیں دی۔

وفاقی حکومت نے پہلے ہی ایئرکرافٹ ایکسیڈنٹ اینڈ انویسٹی گیشن بورڈ تشکیل دے دیا تھا جو اپنا کام شروع کرچکا ہے۔

گزشتہ روز ایئربس کے تکنیکی ماہرین کی ٹیم تحقیقات میں معاونت کے لیے خصوصی پرواز کے ذریعے کراچی پہنچی تھی۔

ٹیم نے پی آئی اے اور سول ایوی ایشن اتھارٹی کے حکام کے ہمراہ رن وے کا بھی دورہ کیا تھا جہاں پی کے-8303 کے پائلٹ نے لینڈنگ کی کوشش کی تھی لیکن پہلی کوشش میں لینڈنگ گیئر کام نہ کرنے کی وجہ سے کامیاب نہیں ہوا تھا۔

ماڈل کالونی کےعلاقے جناح گارڈن میں جائے حادثہ کے دورے کے وقت ٹیم کی سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے، اس موقع پر پی آئی اے کے فلائٹ سیفٹی اینڈ انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹس کی جانب سے جائے حادثہ پر تکنیکی معاونت فراہم کی گئی تھی۔

ماہرین کی ٹیم نے اے آئی آئی بی کے تفتیش کاروں سے ملاقات کے ساتھ ساتھ طیارے کے ملبے، تباہ ہونے والے گھروں اور دیگر مواد کا جائزہ لیا۔

خیال رہے کہ ایئربس کی ٹیم آئندہ 4 سے 5 روز میں بلیک بکس کے ہمراہ پاکستان سے چلی جائے گی تاکہ اسے ڈی کوڈ کیا جاسکے۔

علاوہ ازیں پی آئی اے کے ترجمان نے ماڈل کالونی کے رہائشیوں سے گھروں کے اندر تباہ شدہ طیارے کا حصہ ملنے کی صورت میں حکام کے حوالے کرنے کی اپیل کی کیونکہ وہ ہر حصہ تحقیقات کے لیے اہم ہے۔

ڈی این اے ٹیسٹنگ

پی آئی اے کے ترجمان نے کہا کہ منگل کی شام تک مجموعی طور پر 43 افراد کی لاشیں شناخت کے بعد ورثا کے حوالے کردی گئی تھیں۔

انہوں نے کہاکہ دیگر 54 کی شناخت کے لیے ڈی این اے ٹیسٹ کیے جارہے ہیں، یہ ایک مشکل مرحلہ ہے جس میں وقت لگتا ہے۔

ترجمان نے کہا تھا کہ نیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے)، پنجاب اور سندھ کی حکومتوں کی مشترکہ ٹیمیں ڈی این اے ٹیسٹنگ پر کام کررہی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز لاہور کی ٹیم سندھ حکومت کے ساتھ مل کر ڈی این اے ٹیسٹنگ پر کام کررہی ہے۔

تاہم وزیر اطلاعات سندھ ناصر حسین شاہ نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ پنجاب سے ماہرین کو صوبائی حکومت کو آگاہ کیے بغیر بلایا گیا، اگر ان کی ضرورت تھی تو حکومت سندھ خود درخواست کرلیتی۔

انہوں نے کہا کہ کراچی یونیورسٹی کے انٹرنیشنل سینٹر فار کیمیکل اینڈ بائیولوجیکل سائنسز میں ڈی این اے کے نمونوں کی جانچ جاری ہے اور یہ عمل 10 روز میں مکمل ہوگا۔

مزید برآں پاکستان ایئرلائنز پائلٹس ایسوسی ایشن (پالپا) کے الزامات پر ترجمان پی آئی اے نے کہا کہ حادثے کی اصل وجہ تحقیقات کے ذریعے معلوم ہوسکتی ہے، محدود معلومات اور چند ویڈیوز کی بنیاد پر کسی کو الزام دینا ناانصافی ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ ایک قومی سانحہ ہے اور کسی گروہ کی جانب سے اپنے مفاد کی خاطر کوئی غیر ذمہ دارانہ اقدام قابل مذمت ہے۔

ایفالپا کا تکنیکی تحقیقات کا مطالبہ

ادھر انٹرنیشنل فیڈریشن آف ایئرلائن پائلٹس ایسوسی ایشن (ایفالپا) کے مونٹریل آفس کی جانب سے ڈان کو بھیجے گئے بیان میں پائلٹس کے عالمی ادارے نے بین الاقوامی معیار کے مطابق حادثے کی تکنیکی تحقیقات کی ضرورت پر زور دیا۔

انہوں نے کہا کہ ایسی تحقیقات کو کنونشن آن انٹرنیشنل سول ایوی ایشن کے اینکس 13 کی اس شق پر سختی سے عمل کرنا چاہیے جو کہتی ہے کہ ' حادثے کی تحقیقات کا بنیادی مقصد ان سے بچاؤ ہوگا اور اس سرگرمی کا مقصد کسی پر الزام دینا نہیں ہے'۔

ایفالپا نے مطالبہ کیا کہ غلط تشریح سے گریز کے لیے تحقیقات کے دوران حادثے کے شواہد جیسا کہ ریکارڈنگز کا انکشاف نہیں کیا جانا چاہیے۔

واضح رہے کہ 2 روز قبل ایفالپا کے صدر کیپٹن جیک نیٹسکر نے اے اے آئی بی کے صدر ایئر کموڈور عثمان غنی کو خط لکھا تھا اور تحقیقات میں پائلٹ انویسٹی گیٹر کی شمولیت کا مطالبہ کیا تھا۔

انہوں نے کہا تھا کہ ایفالپا کا ماننا ہے کہ فعال کمرشل پائلٹس کی شمولیت کسی حادثے کی تحقیقات کے لیے قیمتی اثاثہ ہے۔

خط میں ایفالپا ایکسپرٹ ایئرلائن پائلٹ کو تحقیقات میں شامل کرنے کی درخواست کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ ایفالپا نے پائلٹ انویسٹی گیٹرز کی منظوری سے متعلق ایک پروگرام شروع کیا ہوا ہے جنہیں ان کی تربیت، قابلیت اور تجربے کی بنیاد پر منتخب کیا جاتا ہے اور ان تمام کو کامیابی سے بین الاقوامی سطح پر تسلیم کیا گیا ایکسیڈنٹ انویسٹی گیشن کورس مکمل کرنا ہوتا ہے۔

یہاں یہ بات مدنظر رہے کہ وفاقی وزیر ہوابازی غلام سرور نے طیارہ حادثے کی شفاف انکوائری کا وعدہ کیا ہے اور کہا ہے کہ حکومت 3 ماہ میں رپورٹ پبلک کرے گی۔

تحقیقاتی ٹیم پر عدم اعتماد

مزید برآں صوبائی وزیر اطلاعات ناصر حسین شاہ کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر تعلیم سندھ سعید غنی نے طیارہ حادثے کے لیے تشکیل دی گئی تحقیقاتی ٹیم پر عدم اطمینان کا اظہار کردیا۔

انہوں نے کہا کہ تحقیقاتی کمیٹی کے تمام اراکین، سربراہ پی آئی اے کے ماتحت ہیں۔

خیال رہے کہ تحقیقاتی ٹیم کے اکثر اراکین کا تعلق پاک فضائیہ سے ہے اور پی آئی اے کے چیف ارشد ملک، پاک فضائیہ کے حاضر سروس ایئر مارشل ہیں۔

واضح رہے کہ لاہور سے کراچی آنے والی پرواز جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے قریب لینڈنگ کے کوشش کے دوران گر کر تباہ ہوگئی تھی جس میں بینک ایگزیکٹو ظفر مسعود سمیت دو مسافر محفوظ رہے تھے۔

مزید پڑھیں: طیارہ حادثہ: مجھ سمیت جو بھی ذمہ دار ہوا اس کا احتساب ہوگا، سربراہ پی آئی اے

حکام نے کہا تھا کہ جائے حادثہ پر 18 گھروں کو نقصان پہنچا تاہم کوئی جاں بحق نہیں ہوا تھا جس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ حادثے کے وقت مقامی افراد قریبی مسجد میں موجود تھے، حادثے میں 8 مقامی افراد زخمی ہوئے تھے۔

طیارے نے حادثے سے قبل کراچی ایئرپورٹ پر لینڈ کرنے کی کوششیں کی تھیں جو ناکام رہی تھی، حکام نے طیارے کا بلیک بکس حاصل کر لیا تھا۔

طیارے کو سرکاری طور پر آخری بار نومبر میں چیک کیا گیا تھا۔

پی آئی اے کے چیف انجینئر نے 28 اپریل کو ایک الگ سرٹیفکیٹ پر دستخط کیے تھے اور طیارے کی تمام مینٹیننس ہونے کی تصدیق کی تھی۔

ایئربس کی ٹیم کا کہنا تھا کہ دو انجن والے طیارے نے گزشتہ جمعے تک 47 ہزار 100 فلائٹ گھنٹے اور 25 ہزار 860 فلائٹس مکمل کی تھیں۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی طیارہ حادثہ: فی مسافر 10 لاکھ روپے دیے جائیں گے، وزیرہوا بازی

طیارے کو حادثہ حکومت کی جانب سے عید الفطر سے قبل مقامی پروازوں کی دوبارہ بحالی کے اجازت کے چند روز بعد ہی پیش آیا تھا۔

حادثے کا شکار ہونے والے طیارے میں سوار افراد میں کئی خاندان تھے اور چھٹیوں کے لیے اپنے آبائی شہر واپس آرہے تھے۔

خیال رہے کہ کورونا وائرس کی وجہ سے پاکستان بھر میں مارچ کے وسط سے جزوی لاک ڈاؤن ہے، جس کی وجہ سے مقامی پروازوں کی بحالی کے بعد سماجی فاصلے کو برقرار رکھنے کے لیے طیارے میں ہر مسافر کے بعد ایک نشست خالی چھوڑی گئی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں