کورونا وائرس کی وبا کے ننتیجے میں دنیا بھر میں طرز زندگی میں بہت زیادہ تبدیلیاں آئی ہیں اور لوگوں کی نقل و حرکت ماضی کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔

اب کروڑوں یا اربوں افراد زیادہ وقت گھروں کے اندر گزار ررہے ہیں اور سڑکوں پر گاڑیاں کم چل رہی ہیں، طیارے گراؤنڈ کیے جاچکے ہیں جبکہ توانائی کے استعمال میں بھی ڈرامائی کمی آئی ہے۔

تو یہ حیران کن نہیں کہ اس کے نتیجے میں ہم کسی حد تک صاف ہوا میں سانس لینے کا موقع مل رہا ہے۔

جریدے نیچر کلائمیٹ چینج میں شائع ایک تحقیق میں جائزہ لیا گیا کہ اس وبا کے نیتجے میں عالمی سطح پر زہریلی کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس کے اخراج پر کس حد تک اثرات مرتب ہوئے ہیں۔

دنیا بھر میں حکومتی پالیسیوں اور ایکٹیویٹی ڈیٹا کو اپریل 2020 کے آخر تک استعمال کرکے تخمینہ لگایا کہ اس عرصے میں زہریلی گیس کے اخراج کی شرح 2019 کے اسی عرصے کے مقابلے میں 17 فیصد تک کم ہوگئی ہے۔

گلوبل کاربن پراجیکٹ کے سربراہ اور تحقیقی ٹیم میں شامل پیپ کیناڈیل نے بتایا کہ یہ کمی 18.7 ملین ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ کے برابر سمجھی جاسکتی ہے۔

اس تحقیق میں 69 ممالک میں توانائی، سرگرمی اور پالیسی ڈیٹا کو اکٹھا کیا گیا جن میں سب سے زیادہ گیس خارج کرنے والے ممالک جیسے چین، امریکا، یورپ اور بھارت شامل تھے۔

تحقیقی ٹیم نے پھر جائزہ لیا کہ کورونا وائرس کی وبا کے حوالے سے کیے جانے والے اقدامات جیسے لاک ڈاؤن یا دیگر سے کاربن خارج کرنے والے معاشی اداروں پر کیا اثرات مرتب ہوئے۔

اس تجزیے میں دنیا بھر میں نقل و حمل اور ٹریفک کے ڈیٹا کو بھی شامل کییا گیا اور نتائج سے معلوم ہوا کہ درحقیقت گاڑیوں کی کمی سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں سب سے زیادہ کمی دیکھنے میں آئی جو کہ 36 فیصد یا 8.3 ٹن روزانہ کے برابر ہے۔

تحقیقی ٹیم کا کہنا تھا کہ وبا کے نتیجے میں زہریلی گیسوں کے اخراج کی شرح 2006 کی سطح پر پہنچ گئی اور اندازہ ہے کہ اس سال ان گیسوں کا اخراج گزشتہ سال کے مقابلے میں 4 سے ساڑھے 7 فیصد تک اس صورت میں کم رہے گا، اگر کچھ پابندیاں سال کے آخر تک برقرار رہیں۔

زہریلی گیس کے اخراج میں کمی کی شرح پیرس میں موسمیاتی اہداف کے قریب ہے مگر محققین کا کہنا تھا کہ یہ تبدیلیاں عارضی ہوں گی کیونکہ معیشت، ٹرانسپورٹ یا توانائی کے نظام میں بنیادی تبدیلیاں نہیں کی گئی بلکہ یہ وبا کی روک تھام کا نتیجہ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جب تک ہم سب اگلی دہائی تک گھروں میں رہنے کا عزم نہیں کرتے، اس وقت تک پیرس موسمیاتی اہداف کا حصول ممکن نہیں۔

سائنسدانوں کا کہنا تھا کہ گیسوں کے اخراج میں کمی نمایاں ہے مگر اس سے پیرس معاہدے کے اہداف کے حصول کے چیلنج کا اظہار بھی ہوتا ہے، ہمیں نظام میں سبز توانائی اور الیکٹرک گاڑیوں جیسی تبدیلیوں کی ضرورت ہے، عارضی طور پر زبردستی کی پابندیوں کی نہیں۔

اس سے قبل انٹرنیشنل انرجی ایجنسی نے اپنی رپورٹ میں بتایا تھا کہ مختلف ممالک میں لاک ڈاؤن اور دیگر بندشوں کے نتیجے میں عالمی سطح پر زہریلی گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں رواں سال لگ بھگ 8 فیصد کمی آنے کا امکان ہے جو تاریخ میں سب سے بڑی کمی بھی ہے۔

رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں کورونا وائرس کی روک تھام کے لیے لاک ڈاؤنز کے نتیجے میں روایتی ایندھن کے استعمال میں 'بے نظیر' کمی آئی ہے۔

انٹرنیشنل انرجی ایجنسی کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر فیتھ بیرول نے کہا 'زہریلی گیسوں کے اخراج میں تاریخی کمی وبا کا نتیجہ ہے، یعنی لوگ مررہے ہیں اور ممالک معاشی دھچکوں کا سامنا کررہے ہیں، درحقیقت گیسوں کے اخراج میں مستحکم کمی تکلیف دہ لاک ڈاؤن سے نہیں بلکہ درست توانائی اور موسمیاتی پالیسیوں سے ہی ممکن ہے'۔

انٹرنیشنل انرجی ایجنسی کے مطابق اپریل کے وسط میں متعدد ممالک میں ایندھن کا استعمال گزشتہ سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں 17 سے 25 فیصد تک کم تھا جس کی وجہ کارخانے بند ہونا، لوگوں کو دفاتر نہ جانا اور ہوائی پروازیں معطل ہونا تھی۔

ایجنسی کے مطابق متعدد حکومتیں اب ان پابندیوں کو نرم کرنے والی ہیں، چین میں پہلے ہی ایسا ہوچکا ہے جبکہ امریکا میں بھی کچھ ریاستیں کاروبار کھولنے والی ہیں، تاہم اس کے باوجود اس سال عالمی سطح پر کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج 2.6 ارب ٹن رہنے کا امکان ہے جو کہ 2019 کے مقابلے میں 8 فیصد کم ہے۔

درحقیقت 2010 آخری سال تھا جب اتنی مقدار میں زہریلی گیسوں کا اخراج ہوا تھا اس کے بعد ایک دہائی تک یہ سطح کافی زیادہ رہی تھی اور کورونا وائرس کے نتیجے میں جو کمی آئی ہے وہ 2009 کے معاشی بحران سے 6 گنا زیادہ ہے جبکہ دوسری جنگ عظیم میں بھی اتنی کمی دیکھنے میں نہیں آئی تھی۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ ماضی میں جیسے 2009 کے معاشی بحران کے بعد جب معاشی سرگرمیاں تیز ہوئیں تو زہریلی گیسوں کا اخراج بھی بہت زیادہ بڑھ گیا تھا۔

خیال رہے کہ فروری کے آخر میں سب سے پہلے لاک ڈائون کا اثر چین کی فضائی آلودگی میں دیکھنے میں آیا تھا اور سیٹلائیٹ تصاویر میں دکھایا گیا تھا کہ چین میں کس طرح ڈرامائی حد تک نائٹروجن آکسائیڈ کے اخراج میں کمی آئی، جو گاڑیوں سے خارج ہونے والی گیس ہے جس کی فضا میں زیادہ مقدار صحت کے لیے نقصان دہ ہوتی ہے۔

فوٹو بشکریہ ناسا
فوٹو بشکریہ ناسا

یورپین اسپیس ایجنسی کی سیٹلائیٹ تصاویر میں یہ اثر شمالی اٹلی میں بھی دیکھنے میں آیا جہاں لاک ڈائون کو کئی ہفتے گزر چکے تھے، ویڈیو میں دیکھا جاسکا ہے کہ کس ڈرامائی حد تک یکم جنوری سے 11 مارچ کے دوران نائٹروجن ڈی آکسائیڈ کے اخراج میں کمی آئی۔

یورپی ایجنسی کے مطابق اس اخراج میں کمی کی وجہ لاک ڈائون کے دوران ٹریفک اور انسانی سرگرمیوں میں کمی آنا ہے۔

درحقیقت سب سے بڑا اثر جو دیکھا اور محسوس کیا جاسکتا ہے وہ اٹلی کے مشہور شہر وینس کا ہے جس کی نہریں سیاحوں کے رش بہت زیادہ دھندلی اور غلیظ ہوچکی تھیں۔

مگر کئی ہفتے کے لاک ڈائون کے بعد وہ اتنی شفاف ہوگئی ہیں کہ متعدد اقسام کی مچھلیاں یہاں تک کہ جیلی فش کو بھی ان میں تیرتے دیکھا جاسکتا ہے۔

اسی طرح اپریل 2019 اور اپریل 2020 کی سیٹلائیٹ تصاویر میں وینس کی نہروں کا موازنہ کیا گیا اور اندازہ ہوتا ہے کہ اب پانی کی رنگت پہلے سے زیادہ خوبصورت اور شفاف ہوگئی ہے۔

پاکستان میں لاک ڈائون سے فضائی آلودگی میں کمی کے حوالے سے کوئی ڈیٹا تو اب تک سامنے نہیں آیا مگر کراچی کی چند تصاویر سے عندیہ ملتا ہے کہ وہاں کی فضا اب کتنی صاف ہوگئی، جو عموماً گرد اور دھویں کی وجہ سے دھندلی نظر آتی تھی۔

بھارتی دارالحکومت نئی دہلی کو دنیا کا آلودہ ترین شہر سمجھا جاتا ہے مگر وہاں بھی لاک ڈائون سے نمایاں فرق دیکھنے میں آیا ہے۔

اے پی فائل فوٹو
اے پی فائل فوٹو

اور ایسا لگتا ہے کہ ایسے ڈرامائی تبدیلیاں ابھی کچھ عرصہ مزید دیکھنے میں آئیں گی کیونکہ فی الحال دنیا بھر میں لاک ڈائون میں نرمی تو کی جارہی ہے مگر زندگی کی معمول پر واپسی کب تک ہوگی، یہ ابھی کوئی بھی نہیں کہہ سکتا۔

ماہرین کے مطابق ویکسین کی دستیابی سے قبل اس طرح کی پابندیاں کسی حد تک برقرار رہیں گی۔

تبصرے (0) بند ہیں