طالبان کا امریکا پر افغانستان کے منجمد اثاثے ہتھیانے اور ہڑپ کرنے کا الزام

16 ستمبر 2022
ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ امریکا ان اثاثوں کا مالک نہیں ہے—فائل فوٹو: اے ایف پی
ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ امریکا ان اثاثوں کا مالک نہیں ہے—فائل فوٹو: اے ایف پی

امریکا کی جانب سے ایک نئے سوئس ٹرسٹ فنڈ کے ذریعے افغانستان کے مرکزی بینک کے منجمد 3.5 ارب ڈالر منتقل کرنے کے اعلان پر رد عمل دیتے ہوئے طالبان حکام نے امریکا پر افغان اثاثوں کوہتھیانے اور ہڑپ کرنے کا الزام لگادیا۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال اگست میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد امریکا نے مرکزی بینک کے 7 ارب ڈالر کے اثاثے منجمد کر دیے تھے جس سے حکومت کے خاتمے اور غیر ملکی امداد کی معطلی کی وجہ سے بحران زدہ ملک میں غربت میں مزید اضافہ ہوا۔

رواں برس فروری میں امریکی صدر جو بائیڈن نے افغانسان کے عوام کو سہولیات دینے کے لیے 3.5 ارب ڈالر نئے ٹرسٹ فنڈ میں منتقل کرنے کا اعلان کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا کا افغان مرکزی بینک کے منجمد 3.5 ارب ڈالر ٹرسٹ کے ذریعے منتقل کرنے کا اعلان

افغانستان کے دیگر 3.5 ارب ڈالر 11 ستمبر 2001 کو امریکا پر حملوں کے حوالے طالبان کے خلاف جاری مقدمات پر خرچ کیے جا رہے ہیں جب کہ بقیہ رقم پر عدالت فیصلہ دے سکتی ہے جس کے بعد وہ نئے فنڈ میں منتقل کردیے جائیں گے۔

اثاثے منجمد کیے جانے کے بعد سے کابل کے نئے رہنما واشنگٹن سے امدادی رقم بحال کرانے کی کوشش کر رہے ہیں جب کہ افغانستان موسم سرما میں خوراک کے بحران، معاشی عدم استحکام اور تباہ کن زلزلے کی زد میں ہے۔

لیکن بدھ کے روز امریکا نے کہا کہ 3 ارب 50 کروڑ ڈالر پیشہ ورانہ بنیادوں پر چلائے جانے والے فنڈ میں جمع کیے جائیں گے کیونکہ اسے ملک کی رقم کے استعمال کے حوالے سے طالبان کی قیادت پر اعتماد نہیں ہے۔

افغان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ افغانستان کے عوام کے اثاثے امریکا نے ہتھیالیے ہیں۔

مزید پڑھیں: امریکا اور افغانستان کے درمیان اختلافات کے باوجود منجمد اثاثے جاری کرنے پر اہم پیش رفت

انہوں نے مزید کہا کہ ہم امریکا کے اس اقدام کو افغان عوام کی املاک پر حملہ اور قبضہ سمجھتے ہیں، امریکا ان اثاثوں کا مالک نہیں ہے۔

ذبیح اللہ مجاہد نے مطالبہ کیا کہ فنڈز کسی شرط اور پابندی کے بغیر جاری کیے جائیں۔

ٹرسٹیز بورڈ کے ماتحت افغان فنڈ سے ملک بجلی جیسی اہم درآمدات کی ادائیگی کر سکتا ہے، اس کے علاوہ عالمی اقتصادی اداروں کو قرض کی ادائیگی، ترقیاتی امداد کے لیے افغانستان کی اہلیت کا دفاع اور نئی کرنسی کی پرنٹنگ کے لیے بھی فنڈز فراہم کر سکتا ہے۔

20 سالہ فوجی مداخلت کے خاتمے کے بعد سے امریکا اور دیگر ممالک اس بات کی کوشش کر رہے ہیں کہ فنڈز طالبان کے حوالے کیے بغیر افغانستان کو امداد کیسے پہنچائی جائے۔

یہ بھی پڑھیں: منجمد افغان اثاثوں کی 9/11متاثرین میں تقسیم افغان عوام پر ظلم ہے، حامد کرزئی

امریکی ڈپٹی سیکریٹری برائے خزانہ ویلے ایڈیمو نے بدھ کے روز ملک کے مرکزی دا افغانستان بینک (ڈی اے بی) کو لکھے گئے خط میں کہا کہ افغانستان میں فی الحال کوئی ایسا ادارہ نہیں ہے جو اس بات کی ضمانت دے سکے کہ یہ رقوم صرف افغانستان کے لوگوں کے فائدے کے لیے استعمال ہوں گی۔

انہوں نے کہا کہ جب تک یہ شرائط پوری نہیں ہو جاتیں، ڈی اے بی کو اثاثے منتقل کرنے سے وہ ناقابل قبول خطرے میں پڑ جائیں گے۔ ڈی اے بی نے بھی سوئٹزرلینڈ میں اپنے اثاثے منتقل کرنے کے منصوبے پر تنقید کی۔

ڈی اے بی نے کہا کہ یہ ادارے کے لیے ناقابل قبول ہو گا کہ وہ ان اثاثوں کو قانونی معاشی سرگرمیوں جیسے کہ کرنسی مارکیٹ کو مستحکم کرنے اور تجارتی سرگرمیوں میں سہولت فراہم کرنے کے علاوہ کسی اور مقصد کے لیے استعمال کرے۔

تبصرے (0) بند ہیں