گورنر خیبرپختونخوا حاجی غلام علی نے انتخابات سے قبل سیکیورٹی خدشات، معاشی مسائل اور اضافی سیکیورٹی کی عدم موجودگی کے معاملات حل کرنے کے لیے الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کو خط لکھ دیا۔

گورنر خیبرپختونخوا حاجی غلام علی نے صوبے میں عام انتخابات کی تاریخ دینے کے بعد اب سیکیورٹی، معاشی اور دیگر مسائل سے متعلق الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کو خط لکھا ہے کہ صوبائی اور وفاقی محکموں سے مشاورت کے بعد یہ اخذ کیا گیا ہے کہ صوبے میں اس وقت سیکیورٹی خطرات کے ساتھ ساتھ معاشی مشکلات کا بھی سامنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ اور سیکیورٹی مرکزی پالیسیوں کے پیش نظر صوبہ خیبرپختونخوا دہشت گردی کا مرکز رہا ہے جبکہ افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے بعد کی صورت حال سے خیبرپختونخوا کو اندرونی سیکیورٹی چیلنجز کا سامنا ہے۔

گورنر نے خط میں لکھا ہے کہ اس صورت حال میں درپیش سنگین خطرات بشمول آئی ای ڈی حملے، خودکش دھماکے، سرحد پار حملے، ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری، اغوا، غیرقانونی سرگرمیاں، نسلی و مذہبی تفریق، ریاست مخالف اور سماجی دباؤ کا باعث بننے والے گروپس کی موجودگی اور مسلح افواج کے خلاف مہم سے صوبے میں سیکیورٹی کے خدشات پیدا ہوگئے ہیں۔

الیکشن کمیشن کو لکھے گئے خط میں ان کا کہنا ہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان ( ٹی ٹی پی) نے اپنی بحالی اور متحرک ہونے کے بعد حکومت سے جنگ بندی ختم کرنے کا اعلان کیا اور اس کے بعد خیبرپختونخوا میں دہشت گردی کے حملے شروع کیے گئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کالعدم ٹی ٹی پی نے متعدد بار بالخصوص قبائلی علاقوں میں پولیو مہم نہ چلانے، الیکشن کے لیے ہونے والی مردم شماری روکنے اور دیگر ترقیاتی کام نہ کرنے کی تنبیہ کی ہے اور موجودہ حالات میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔

خط میں لکھا گیا ہے کہ پہلی بار ضم شدہ اور آباد اضلاع میں صوبائی اسمبلی کے عام انتخابات ہو رہے ہیں اور سرحد پار دہشت گردوں کے داخلے سے ان اضلاع میں سیکیورٹی کی صورت حال خراب ہے لہٰذا ایسی صورت حال میں سیاست دانوں اور پولنگ عملے کی آزادانہ نقل و حرکت ناممکن ہے۔

گورنر نے لکھا کہ مختلف سیاسی جماعتوں نے ضم شدہ اضلاع اور آباد اضلاع میں دہشت گردی کے خطرات کے حوالے سے خدشات کا اظہار کیا ہے کیونکہ دہشت گرد گروہ وہاں تمام سیاسی جماعتوں کو نشانہ بناتے ہیں جبکہ ماضی میں ایسی مثالیں بھی موجود ہیں جہاں سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔

خط میں لکھا گیا ہے کہ میری معلومات کے مطابق صوبے بھر میں بڑے دہشت گرد گروپ سرگرم ہیں جن میں ٹی ٹی پی، تحریک طالبان سوات، تحریک طالبان باجوڑ، تحریک طالبان مہمند، تحریک طالبان طارق گروپ، داعش کے پی، جماعت الاحرار، حزب الاحرار، لشکرِ اسلامی، القاعدہ، لشکرِ جھنگوی اور حافظ گل بہادر گروپ شامل ہیں۔

گورنر نے خط میں مزید لکھا ہے کہ ٹی ٹی پی کی جانب سے بالخصوص صوبے کی کاروباری برادری سے بھتے بھی لیے جاتے ہیں جہاں محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) میں درج ایف آئی آرز کے مطابق صوبے بھر سے ایک ارب 60 کروڑ روپے کا بھتہ طلب کیا گیا ہے۔

خط میں مزید کہا گیا ہے کہ صوبے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارروائیوں کے باوجود بھی دہشت گردی میں اضافہ ہو رہا ہے جہاں جنوری 2021 سے فروری 2023 تک 835 واقعات پیش آئے جبکہ گزشتہ 6 ماہ میں 319 واقعات پیش آچکے ہیں۔

گورنر نے لکھا کہ اکتوبر 2022 سے فروری 2023 تک دہشت گردی کے 217 حملے ہوئے، جس میں 5 خود کش حملے بھی شامل ہیں اور اس کے نتیجے میں 179 اہلکار شہید ہوگئے، جن میں مختلف قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار بھی شامل ہیں۔

گورنر خیبرپختونخوا نے اپنے خط میں لکھا کہ سیکیورٹی خدشات، اضافی سیکیورٹی کی عدم موجودگی، معاشی حالات کی تنگی حد بندیوں اور مردم شماری سے پیدا ہونے والے آئینی مسائل جیسے معاملات حل کرنے کے بعد ہی عام انتخابات کے مرحلے میں داخل ہونا چاہیے۔

خط میں لکھا گیا ہے کہ انتخابات سے قبل دہشت گردی کے پیش نظر تمام اسٹیک ہولڈرز بشمول وزارت داخلہ اور وزارت دفاع کو اعتماد میں لیا جائے۔

واضح رہے کہ 14 مارچ کو گورنر خیبرپختونخوا غلام علی نے صوبے میں عام انتخابات کے لیے 28 مئی کی تاریخ دی تھی۔

چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کی زیر صدارت الیکشن کمیشن کا اجلاس ہوا تھا جس میں گورنر خیبر پختونخوا حاجی غلام علی نے بھی شرکت کی تھی۔

اجلاس کے دوران گورنر نے صوبے کی سیکیورٹی کی صورت حال پر کمیشن کو بریفنگ دینے کے ساتھ صوبے میں 28 مئی کو پولنگ کرانے کی تجویز دی تھی۔

اجلاس کے بعد الیکشن کمیشن کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے گورنر کے پی نے کہا تھا کہ میرا کام ہے صوبے میں الیکشن کے لیے تاریخ دینا، وہ میں نے دے دی ہے، اب الیکشن کرانا الیکشن کمیشن کاکام ہے، میں نے 28 مئی کو خیبر پختونخوا میں الیکشن کی تاریخ دی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں