سعودی-ایران تعلقات: آیت اللہ علی خامنہ ای نے تعلقات کی بحالی کیلئے ایرانی حکام پر دباؤ ڈالا

اپ ڈیٹ 17 مارچ 2023
خیال رہے کہ دونوں ممالک نے 2016 میں سفارتی تعلقات منقطع کردیے تھے — فائل فوٹو: شٹراسٹاک
خیال رہے کہ دونوں ممالک نے 2016 میں سفارتی تعلقات منقطع کردیے تھے — فائل فوٹو: شٹراسٹاک

ایران خود پر عائد معاشی اور سیاسی دباؤ کو ختم کرنے کے پیش نظر گزشتہ دو برسوں سے عرب دنیا کے طاقتور ملک سعودی عرب سے تعلقات بحال کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔

ڈان اخبار میں شائع غیرملکی خبر رساں ایجنسی ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق ایرانی حکام کا کہنا ہے کہ گزشتہ برس ستمبر میں ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے دوطرفہ بات چیت میں تاخیر پر اپنی ٹیم کو طلب کرکے بات چیت کے عمل کو تیز کرنے پر دباؤ ڈالا تھا، جہاں اس عمل کو آگے بڑھانے کے لیے چین کو مداخلت کرنا پڑی۔

دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی بحالی کے لیے چین کے خاموش کردار نے گزشتہ ہفتے مشرق وسطیٰ میں ایک نئی بحث شروع کردی ہے جہاں کئی دہائیوں تک امریکا ایک اہم ثالثی کے طور پر رہا ہے۔

دونوں ممالک کے درمیان ہونے والے مذاکرات میں شامل ایک ایرانی سفارت کار نے کہا کہ عراق اور عُمان میں ہونے والے مذاکرات کے دوران چین نے دونوں ممالک کو دوریاں کم کرنے اور غیر حل شدہ مسائل پر قابو پانے کے لیے دلچسپی دکھائی۔

خیال رہے کہ دونوں ممالک کے درمیان 7 برس قبل سفارتی تعلقات میں تناؤ آیا تھا، سعودی عرب کا کہنا ہے کہ تعلقات کی بحالی سے سیکیورٹی کو مزید بہتر کیا جاسکتا ہے، تاہم اس سے قبل سعودی عرب نے ایران پر آئل تنصیبات پر حملہ کرنے کا الزام عائد کیا تھا جس کی وجہ سے سپلائی میں خلل پیدا ہوا تھا۔

بعد ازاں ایران نے اس حملے میں ملوث ہونے کی تردید کی تھی جبکہ یمن کے حوثی باغیوں نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔

اب اس نئی پیش رفت کے بعد سعودی عرب کے وزیر خزانہ محمد ال جدان نے کہا کہ ایران میں سعودی عرب کی طرف سے جلد ہی سرمایہ کاری کا امکان ہے۔

خیال رہے کہ 2016 میں تعلقات کشیدہ ہونے کے بعد مشرقی وسطیٰ کا استحکام شدید متاثر ہوگیا تھا جس کی وجہ سے یمن، شام اور لبنان میں علاقائی تنازعات میں اضافہ ہوا تھا کیونکہ دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے خلاف مختلف حربوں کا استعمال شروع کردیا تھا۔

مذاکرات میں شامل ایک چینی سفارت کار نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی بحالی ایک ایسا عمل تھا جس کی توقع نہیں تھی کہ تمام مسائل راتوں رات حل ہو جائیں گے۔

چینی سفارت کار نے کہا کہ دونوں ممالک کے لیے اہم چیز یہ تھی کہ دونوں ہی تعلقات کو بہتر بنانے میں سنجیدہ تھے۔

حکام کا کہنا ہے کہ رواں برس فروری میں ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے چین کا دورہ کیا تھا جس کے بعد چین نے ریاض کی پیش کش فراہم کی تھی جو کہ ایران نے قبول کرلی تھی۔

ایک ایرانی عہدیدار کا کہنا کہ دونوں ممالک کے درمیان ہونے والے معاہدے میں مختلف معاملات بشمول سیکیورٹی، معیشت اور سیاسی معاملات شامل ہیں۔

حکام نے کہا کہ ’دونوں ممالک نے اس بات پر اتفاق کیا کہ کوئی بھی ملک کسی دوسرے کے لیے عدم استحکام کا سبب نہیں بنے گا، ایران، سعودی عرب کو سیکیورٹی میں مدد کرنے کے لیے اس خطے بالخصوص یمن میں اپنا اثر و رسوخ استعمال کرے گا۔

واضح رہے کہ سعودی عرب کی قیادت میں ایک اتحاد گزشتہ 8 برس سے یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف کارروائیاں کرتا رہا ہے۔

تاحال اس بات کا مکمل تعین نہیں ہو سکا کہ ایران، یمن کے حوثی باغیوں کی کتنی مدد کرتا ہے، تاہم خلیجی ریاستوں نے ایران پر فرقہ ورانہ اثر و رسوخ قائم کرکے کا الزام عائد کیا ہے جو کہ ایران نے مسترد کردیا ہے۔

آیت اللہ خامنہ ای کے حلقے سے تعلق رکھنے والے ذرائع نے بتایا کہ ایران نے اپنے سینئر قومی سلامتی کے اہلکار علی شمخانی کو مذاکرات کی قیادت کے لیے چنا کیونکہ وہ نسلی طور پر عرب ہیں۔

ایک ایرانی اہلکار نے مذاکرات کے بارے میں بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ بیجنگ کے سعودی عرب اور ایران کے ساتھ دوستانہ تعلقات اور واشنگٹن پر ایران کے عدم اعتماد کو دیکھتے ہوئے چین بہترین آپشن تھا، نہ صرف یہ بلکہ چین اپنی توانائی کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے پرامن مشرق وسطیٰ سے بھی فائدہ اٹھائے گا۔

ایران کے عہدیدار نے کہا کہ کئی دہائیوں کے عدم اعتماد کے بعد تعلقات کی بحالی کو حیرت کی نگاہ سے نہیں دیکھنا چاہیے، اس معاہدے کا مطلب یہ نہیں کہ ایران اور سعودی کے درمیان کوئی مسئلہ یا تنازع نہیں ہوگا لیکن اس کا مطلب یہ ہے کہ مستقبل میں جو بھی ہوگا وہ ’کنٹرولڈ‘ طریقے سے ہوگا۔

تبصرے (0) بند ہیں