دوستو عشق ہے خطا لیکن
کیا خطا درگزر نہیں ہوتی

عشق کو ’خطا‘ جانتے اور اپنا قصور مانتے شاعر ’ابن انشا‘ ہیں جو احباب سے اس خطا کے قابلِ معافی ہونے سے متعلق جاننا چاہتے ہیں۔ انشاجی کے دوستوں نے انہیں کیا جواب دیا؟ یہ نہیں معلوم، البتہ ہم اتنا جانتے ہیں کہ ’خطا‘ کے قابلِ معافی ہونے یا نہ ہونے کا تعلق ’خطا‘ کی نوعیت سے ہے کہ وہ کس زمرے یا درجے میں داخل ہے۔

یہ بات ہم خاص عربی زبان کے تناظر میں کہہ رہے ہیں کہ جس کے زیرِ اثر خود اردو میں ’خطا‘ کے معنی میں ’سہو‘ سے شروع ہونے والی بات ’جرم‘ پر تمام ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فارسی فرہنگ نگاروں اور اردو لغت نویسوں نے ’خطا‘ کے مفہوم میں ’اشتباہ، نادرست، ناصواب، غلط، خبط، سقیم، لغزش، ذلت، قصور، معصیت، ذنب، اثم، گناہ اور جرم‘ کے ساتھ ساتھ ہر اُس عمل کو شامل کیا ہے جو ’خلافِ مقررات‘ ہو۔

اس سے قبل کہ زیر بحث لفظ کے حوالے سے مختلف مدارج کا ذکر ہو، موضوع کی مناسبت سے مظفر رزمی کا ضرب المثل شعر ملاحظہ کریں،

یہ جبر بھی دیکھا ہے تاریخ کی نظروں نے
لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی

عربی زبان کے ایک بڑے عالم کے نزدیک ’اَلْخَطَأ اور اَلْخَطَأَۃُ کے معنی صحیح جہت سے نافرمانی اور روگردانی کرنے کے ہیں۔ اب اگر آپ کے پیش نظر ’صحیح جہت سے روگردانی‘ ہو تو آپ کو سمجھنے میں دیر نہیں لگے گی کہ ’خطا‘ کے مفہوم میں ’نشانہ چُوکنا‘ کیوں داخل ہے۔

اب اس بات کو اشرف یعقوبی کے الفاظ میں سمجھیں، جن کا کہنا ہے کہ،

چُوک جاتے تھے بات ہے کل کی
اب نشانہ خطا نہیں ہوتا

اگر بات کریں ’خطا‘ کی مختلف صورتوں یا درجات کی تو اس کے پہلے درجہ میں بُرے ارادے سے کیا جانے والا ہر وہ کام داخل ہے جس کا نتیجہ بھی نامناسب ہو۔ گویا خطا کا یہ پہلا درجہ قابل مواخذہ ہے۔ اسی لیے اصطلاح میں اس کو ’خطائے عمد‘ کہتے ہیں۔

’خطا‘ کا دوسرا درجہ وہ ہے جس میں ارادہ تو نیک ہو مگر اس کا انجام بُرا نکل آئے۔ گویا یہ وہی معاملہ ہے جس کا اظہار شاعر جمیل مرصع پوری کے ہاں ان الفاظ میں ہوا ہے،

یہ دور بھی کیا دور ہے اس دور میں یارو
سچ بولنے والوں کا ہی انجام برا ہے

’خطا‘ کا تیسرا درجہ وہ ہے جس میں کسی غیرمستحسن کام کا ارادہ کیا جائے مگر اتفاق سے وہ کام اچھا ہوجائے۔ غالباً ایسی ہی کسی صورت کے متعلق کہنے والے نے کہا تھا ’وقد یحسن الانسان من حیث لایدری‘ یعنی کبھی انسان نادانستہ طور پر بھی اچھا کام کر لیتا ہے۔ اردو میں اس صورت کو ’شر سے خیر برآمد ہونا‘ کہتے ہیں۔ بقولِ انور مسعود صاحب؛

میں اپنے دشمنوں کا کس قدر ممنون ہوں انور
کہ ان کے شر سے کیا کیا خیر کے پہلو نکلتے ہیں

ویسے پنجابی زبان میں اس حوالے سے ایک دلچسپ کہاوت ہے کہ ’کُبے نوں لت پئی تے او دا کُب نکل گیا‘ یعنی کبڑے کی کمر پر لات پڑی تو اس کا کبڑا پن جاتا رہا۔

خیر ذکر تھا ’خطا‘ کا تو عربی کی نسبت اور فارسی کی رعایت سے زیرِ بحث لفظ پر مشتمل دسیوں تراکیب اردو میں راہ پاگئی ہیں۔ مثلاً دھوکا کھانا اگر ’خَطا پانا‘ ہے تو غلط ثابت کرنا ’خَطا بتانا‘ اور غلطی نِکالنا، ’خَطا پکڑنا‘ ہے۔ پھر ان غلطیوں کو چھپانے اور قُصور معاف کرنے والا ’خَطا پوش‘ ہے تو گُناہ بخشنے والا ’خَطا بَخش‘۔ اس آخری الذکر ترکیب کو شیخ سعدی شیرازی کے ہاں بھی دیکھا جا سکتا ہے،

نداریم غیر اَز تو فریاد رس
توئی عاصیاں را خطا بخش و بس

یعنی تیرے سوا ہمارا کوئی فریاد رس نہیں ہے فقط تو ہی گناہ گاروں کی خطا بخشنے والا ہے۔

’خطا‘ کا دوسرا درجہ وہ ہے جس میں ارادہ تو نیک ہو مگر اس کا انجام بُرا نکل آئے
’خطا‘ کا دوسرا درجہ وہ ہے جس میں ارادہ تو نیک ہو مگر اس کا انجام بُرا نکل آئے

بات یہیں تمام نہیں ہوتی کہ اردو کے دامن میں ’خطا‘ پر مشتمل اور بھی تراکیب موجود ہیں، جیسے غلط آمیز یا عیب دار اگر ’خَطا پذیر‘ ہے تو ان عیوب پر انگشت نمائی کرنا والا ’خَطا جُو‘ ہے۔ غلط کار اگر ’خَطا شِعار‘ ہے تو کُھلم کُھلا غلطی یا بہت بڑی غلطی ’خَطائے فاش‘ ہے۔ فارسی کی رعایت سے اردو میں جہاں اس قدر تراکیب راہ یاب ہوئیں وہیں زیر بحث لفظ پر مشتمل ایک ضرب المثل ’خطا بر بزرگان گرفتن خطا ست‘ بھی خاصی مقبول ہے جس کے معنی ہیں ’بزرگوں کی لغزشوں پر گرفت کرنا بجائے خود خطا ہے‘۔

یوں تو اس ضرب المثل میں پوشیدہ سبق سے کسی طور انکار ممکن نہیں، تاہم اجتماعی معاملات سے جڑے یا مفاد عامہ سے وابستہ امور میں اگر کسی بزرگ کے افکار یا افعال میں کوئی کمی یا کجی قابل اصلاح تو ہمارے نزدیک اس لغزش کی شائستہ انداز میں نشاندہی ’خطا‘ میں شامل نہیں۔

اس وضاحت کے ساتھ اب ہم اردو زبان کے قادر الکلام شاعر احمد فراز صاحب کا ذکر کریں گے کہ جن کی شاعری نے اردو کا اعتبار بڑھایا ہے۔

غالباً پہلے بھی لکھ آئے ہیں کہ احمد فراز کے یہاں انسانی رویوں کی ہر جہت اور مزاج کے ہر زاویے کا اظہار موجود ہے۔ پھر ان کے ہاں فقط لب و رخسار کے افسانے اور گُل و بلبل کے ترانے یا محض محبوب کا قصیدہ ہی نہیں بلکہ ان کے ہاں مزاحمت اور بغاوت کا لہجہ بھی موجود ہے۔

اس تمہید کے ساتھ اب جناب احمد فراز کی ایک مشہورغزل کا مطلع ملاحظہ کریں۔

چاہت کے صبح و شام محبت کے رات دن
دل ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن

یوں تو کسی غزل کا اگر کوئی ایک شعر بھی عمدہ ہوجائے تو پوری غزل مراد پا جاتی ہے، مگر فراز صاحب کی مذکورہ غزل کا ہر شعر لاجواب ہے۔ اس پر کمال یہ ہے کہ یہ غزل چالیس سے زیادہ اشعار سے مزّین ہے۔

مسئلہ صرف ایک ہے اور وہ یہ کہ اس غزل کے مطلع کا مصرع ثانی ’دل ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن‘ اصلاً مرزا غالب کی ایک مشہور غزل سے مستعار ہے۔ باالفاظ دیگر فراز صاحب کی یہ غزل غالب کے مصرع کی تضمین ہے۔

ہوا یہ ہے کہ احمد فراز صاحب نے غالب کے مصرعے میں دو جگہ تصرف کیا ہے (ضرورت شعری کے تحت ایسا تصرف کئی دوسرے شعرا کے ہیں بھی موجود ہے)، اول جہاں غالب نے ’جی‘ درج کیا تھا وہاں ’دل‘ آگیا ہے، دوم مرزا نے ’فرصت‘ کے بعد ’کہ‘ باندھا ہے جو احمد فراز کے ہاں ’کے‘ ہوگیا ہے۔ پھر یہ کہ اگر لفظی ترامیم کی وجہ سے مصرع کو واوین میں درج نہیں کیا گیا تو بھی حاشیہ میں بہ ہرحال اس کی وضاحت ضروری تھی۔

اب واپس غالب کے اس شعر پر آتے ہیں جس کا مصرع فراز کے ہاں موجود ہے۔ غالب کا مکمل شعر اس شکل میں ہے،

جی ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کہ رات دن
بیٹھے رہیں تصور جاناں کیے ہوئے

شعر بالا میں موجود ’کہ‘ کو ’کے‘ بنانے میں یقیناً شعری مجبوری رہی ہوگی، اس لیے کہ فراز صاحب کی غزل کا ردیف ہی ’کے رات دن‘ ہے۔ اگر فراز صاحب کا عذر قبول کر بھی لیں تو بھی اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ شعری ذوق رکھنے والے افراد بھی گاہے غالب کے مذکورہ شعر میں موجود ’کہ‘ کو ’کے‘ لکھتے اور پڑھتے ہیں، نتیجے میں بات غالب کے مدعے سے دور جا پڑتی ہے۔

’کہ‘ کو ’کے‘ بنانے میں یقیناً احمد فراز کی کوئی شعری مجبوری رہی ہوگی
’کہ‘ کو ’کے‘ بنانے میں یقیناً احمد فراز کی کوئی شعری مجبوری رہی ہوگی

لفظی تبدیلی یا پیہم غلطی کا یہ رجحان غالب کے درج ذیل شعر میں بھی ملتا ہے،

منظر اک بلندی پر اور ہم بنا سکتے
عرش سے ادھر ہوتا کاشکے مکاں اپنا

اس شعر میں موجود لفظ ’کاشکے‘ کو غلط طور پر ’کاش کے‘ لکھا جاتا ہے۔ غلط طور پر اس لیے کہ اول ’کاشکے‘ فارسی لفظ ہے، دوم یہ کہ مرزا نے خود بھی ’کاشکے‘ ہی باندھا ہے۔ یہاں سوال یہ کیا جاسکتا ہے کہ فارسی ’کاشکے‘ اور اردو ’کاش کے‘ میں کیا فرق ہے؟ تو عرض ہے کہ فارسی ’کاشکے‘ حرف تمنا ہے جو حسبِ موقع کبھی تاسف کے معنی میں برتا جاتا ہے اور گاہے حسرت میں بدل جاتا ہے۔

رہی بات ’کاش کے‘ لکھنے کی تو یہاں ’کاش‘ عملاً فارسی معنی ہی میں موجود ہے مگر اردو قاعدے کے مطابق یہاں ’کاش‘ کے ساتھ ’کے‘ نادرست ہے، اگر اردو میں لکھیں گے تو ’کاش کہ‘ لکھیں گے نہ کہ ’کاش کے‘۔

چونکہ بات کچھ پیچیدہ ہوتی جا رہی ہے سو ہمیں اجازت دیں، مگر اس قبل زیر بحث لفظ کی رعایت سے خدائے سخن میر تقی میر کا ایک خوبصورت شعر ملاحظہ کرلیں۔

عید ہی کاشکے رہے ہر روز
صبح اس کے گلے لگا کریے

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں