جو ضعیف و علیل ہوتا ہے
عشق میں بھی ذلیل ہوتا ہے

کارزارِعشق میں طاقت و توانائی کا تقاضا کرتا شعر شاعرِ انقلاب جوش ملیح آبادی کا ہے۔ جوش قادرالکلام ہی نہیں بلکہ نادرالکلام شاعر بھی تھے۔ نادرالکلام اس رعایت سے کہ موصوف کلام میں گراں بار الفاظ لاتے اور گاہے نامانوس الفاظ سے روشناس کرواتے، نتیجتاً کلام میں آہنگ و فرہنگ کا فرق اٹھ جاتا۔ اس صورتحال میں فراق گورکھپوری نے کچھ غلط تو نہیں کہا تھا، ’الفاظ جوش کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے رہتے ہیں‘۔

بقولِ اسعد بدایونی،

ہاتھ باندھے ہوئے الفاظ کھڑے رہتے ہیں
اور مضمون تو چوکھٹ پہ پڑے رہتے ہیں

مضمون چوکھٹ پرپڑے رہتے تھے یا نہیں، اس بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا، تاہم اس سے انکار ممکن نہیں کہ جوش ذخیرہ الفاظ پر قدرت کے اظہار میں گاہے ادنیٰ مضامین بھی بھاری بھرکم الفاظ میں باندھتے، یوں شعر و معنی دونوں کو بوجھل بنا دیتے۔ ایسے میں ناصر کاظمی کی پھبتی لاجواب تبصرے کا حکم رکھتی ہے، ’جوشؔ صاحب باجے تاشے کے ساتھ ہاتھی پر توپ لے کر شکار کو جاتے ہیں اور پدّی مار کر لاتے ہیں‘۔

اس سب کے باوجود کم از کم شعر بالا میں برتے گئے ’ضعیف، علیل، عشق اور ذلیل‘ کے الفاظ اصل میں عربی زبان کے ہونے کے باوجود اردو میں عام فہم ہیں۔ چونکہ ’عشق‘ پر پہلے بھی بات ہوچکی ہے اس لیے اس سے درگزر کرتے ہیں اور لفظ ’ضعیف، علیل اور ذلیل‘ کی عقدہ کشائی کرتے ہیں۔

’ضعیف‘ کا لفظ ’ضَّعْفُ‘ سے مشتق ہے جبکہ ’ضَّعْفُ‘ کے معنی کمزور کے ہیں، یوں یہ ’قُوَّتُ‘ کی ضد ہے۔ ’ضَّعْفُ‘ کا اطلاق بدن، حالت اور رائے کی کمزوری پر ہوتا ہے، تاہم عربی زبان و بیان کے ایک بڑے عالم کے مطابق ’ضَّعْفُ‘ بدنی کمزوری کو اور ’ضَّعِیف‘ عقل و رائے کی کمزوری کو کہتے ہیں۔

عربی میں ’ضَّعْفُ‘ اور اس سے مشتق الفاظ کے معنوی اطلاقات میں خاصی وسعت پائی جاتی ہے، جس کی تفصیل کا یہاں موقع نہیں۔ لہٰذا اس باب میں اختصار برتتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں۔

’ضعیف‘ کا لفظ ’ضَّعْفُ‘ سے مشتق ہے جبکہ ’ضَّعْفُ‘ کے معنی کمزور کے ہیں
’ضعیف‘ کا لفظ ’ضَّعْفُ‘ سے مشتق ہے جبکہ ’ضَّعْفُ‘ کے معنی کمزور کے ہیں

اعراب کی خفیف سی تبدیلی کے ساتھ اس ’ضَّعْفُ‘ کی ایک صورت ’ضِعْف‘ ہے اور معنی دُگنا اور دُوہرا (ڈبل) ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم جسے ’ڈبل روٹی‘ کہتے ہیں وہ عربی میں ’خُبْزُ مُضَاعَف‘ کہلاتی ہے۔

مکرر عرض ہے کہ ’ضعف‘ ہی سے ’ضعیف‘ بھی ہے، اور بزرگوں کو’ضعیف’ کہنے کی وجہ بھی یہی ہے کہ کبرسنی کے سبب طاقت بتدریج ناتوانی میں ڈھلتی اور کمردوہری کرتی ہے۔ ایسے میں اگرکوئی استاد قمرجلالوی جیسے بزرگ سے اس خمیدہ پُشت کا سبب پوچھ بیٹھے، تو جواب ملتا ہے،

پیری سے خم کمر میں نہیں ہے یہ اے قمر
میں جھک کے ڈھونڈتا ہوں جوانی کدھر گئی

برسبیل تذکرہ عرض ہے کہ اردو میں لفظ ’بزرگ‘ کا اطلاق عموماً بڑی عمر کے افراد پر ہوتا ہے، مگر فارسی میں اطلاق کے اس دائرے میں سن رسیدہ کے علاوہ ’جلیل، شریف، محترم، رئیس، سرپرست، توانا اور مضبوط‘ وغیرہ بھی داخل ہیں۔

لفظ ’بزرگ‘ کے معنی کے باب میں بلبلِ شیراز مصلح الدین سعدی شیرازی کا کہا قولِ فیصل کا حکم رکھتا ہے، ’توانگری بہ دل است نہ بہ مال و بزرگی بہ عقل است نہ بہ سال‘ یعنی مالداری دل کے غنی ہونے سے اور بزرگی دانائی سے عبارت ہے۔

اب جبکہ ’بزرگ‘ کا ذکر ہوا ہے تو لازم ہے کہ کچھ بیان بچوں کا بھی ہوجائے کہ بقولِ مختار مسعود ’آج کا بچہ آنے والے کل کا والی اور والد ہوتا ہے‘۔

اردو میں کم عمر کے لیے ’بال، طفل اور بچہ‘ کے سے الفاظ عام برتے جاتے ہیں۔ ان میں ’بال‘ ہندی، ’طفل‘ عربی اور ’بچہ‘ فارسی زبان سے متعلق ہے۔

اب آگے بڑھنے سے قبل ضروری بات سمجھ لیں اور وہ یہ کہ ہندی اور فارسی میں اسم تصغیر بنانے کے کئی طریقوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اسم کے آخر میں ’کاف/ک‘ کا اضافہ کردیا جاتا ہے۔

پہلے اسم تصغیر کو سمجھیں، مثلاً عربی لفظ طفل (بچہ) اور طائر (پرندہ) اپنے اصل معنی کے ساتھ فارسی میں بھی رائج ہیں۔ اہل فارس نے ان دونوں اسما کی تصغیر بنانے کے لیے ان میں ’کاف/ک‘ بڑھا کر ’طفلک‘ اور ’طائرک‘ کے الفاظ وضع کرلیے۔ ان دونوں الفاظ کے بالترتیب معنی ’چھوٹا بچہ‘ اور’چھوٹا پرندہ’ کے ہیں۔ آخر الذکر ’طائرک‘ کو اقبال کے اس شعر میں بھی دیکھا جاسکتا ہے،

گرچہ ہے دل کشا بہت حسن فرنگ کی بہار
طائرک بلند بام دانہ و دام سے گزر

’طائرک‘ کے معنیٰ چھوٹے پرندے کے ہیں
’طائرک‘ کے معنیٰ چھوٹے پرندے کے ہیں

فارسی کی طرح یہی اصول سنسکرت (اور اس کے زیر اثر ہندی) میں بھی کارفرما ہے، چنانچہ ہندی میں ’بال‘ کی تصغیر ’بالک‘ اور ’ڈھول‘ کی تصغیر ’ڈھولک‘ ہے۔

فارسی میں بچے کو ’کودک‘ بھی کہا جاتا ہے، کیوں کہا جاتا ہے اس پربعد میں بات کریں گے، پہلے اس ’کودک‘ سے مرکب لفظ ’کودکستان‘ کی بات ہوجائے۔

آپ یقیناً تدریسی اصطلاح ’KG‘ سے واقف ہوں گے۔ یہ Kindergarten (کنٹرگارٹن) کا مخفف ہے۔ جرمن زبان سے متعلق اس اصطلاح میں (گارٹن) وہی ہے جو انگریزی میں garden (گارڈن) ہے۔ یہ ایسا طریقہِ تدریس ہے جس میں ابتدائی جماعتوں کے باقاعدہ آغاز سے قبل ننھے منّے بچوں کو کھیل کود، گانے بجانے اور ڈرائنگ وغیرہ کے ’بہانے‘ اسکول آشنا کیا جاتا ہے۔ اسی رعایت سے اس طریقہ تدریس کو Kindergarten (کنٹرگارٹن) یعنی ’بچوں کا باغ‘ کا نام دیا گیا ہے۔

کنٹرگارٹن کی تعلیمی اصطلاح فارسی میں ’کودکستان‘ اور عربی میں ’روضة الأطفال‘ کی صورت میں رائج ہے اور ہر دو کے معنی ’بچوں کا باغ‘ ہے۔

اب واپس ’کودک‘ پر آتے اور اس کے لفظی معنی و اطلاق پر بات کرتے ہیں لیکن اس سے قبل ایک اور اصول سمجھ لیں اور وہ یہ کہ اسما کے آخر میں حرف ’کاف/ف‘ بڑھانے سے فقط ’اسم تصغیر‘ ہی نہیں بناتا بلکہ ’اسم نسبت‘ بھی ظہور میں آتا ہے۔ ’اسم نسبت‘ بنانے کا یہ طریقہ فارسی اور سنسکرت تک محدود نہیں بلکہ بیشتر ہند آریائی زبانوں میں یہ فارمولہ موجود ہے۔

ہندی میں اس ’کاف/ف‘ کو ٹھنڈ سے ٹھنڈک، بیٹھ سے بیٹھک’ اور گنجل سے گنجلک، جبکہ فارسی میں عین (آنکھ) سے عینک اور نم سے نمک میں دیکھا جاسکتا ہے۔ بات یہیں تمام نہیں ہوتی، اس لیے کہ انگریزی میں بھی اکثر اسما (nouns) کے آخر میں ’ic‘ بڑھا کر صفت، نسبت یا تشبیہ بنائی جاتی ہے مثلاً pan سے panic (پینک)، class سے Classic (کلاسک) اور Base سے Basic (بیسک) وغیرہ۔ پھر انگریزی میں یہی کام دیگر عربی اسما کے ساتھ بھی ہوا جیسے Islam سے Islamic (اسلامک) اور Quran سے Quranic (قرآن) وغیرہ۔

اگر اسم نسبت بنانے میں ’کاف/ک‘ کی کارفرمائی سے آگاہ ہوگئے ہیں تو یہ بھی سمجھیں کہ یہی کچھ ’کود‘ کے ساتھ ہوا اوراس میں ’کاف/ف‘ بڑھا کر ’کودک‘ کا لفظ وضع کرلیا گیا جبکہ اس کا اطلاق بچوں پر کیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ ’کود‘ میں ایسا کیا تھا کہ اس کا اطلاق بڑوں پر نہیں ہوا اور اس کے لیے بچوں کو موزوں سمجھا گیا؟

دراصل ’کود‘ کے دیگر معنی میں سے ایک ’غلاظت/فضلہ‘ بھی ہے، یہی سبب ہے کہ خاکروب یا جاروب کش کو ’کَود کَش‘ بھی کہا جاتا ہے۔ اب چونکہ بچے کہیں بھی فضلہ کردینے میں بے اختیار ہوتے ہیں، لہٰذا ’کود‘ کی نسبت سے لفظ ’کودک‘ بنا اور بچوں پر صادق آیا۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ فارسی میں اس معنی کے ساتھ ’کود‘ کی اصل اوستائی زبان ’کوث‘ اور سنسکرت کا ’کوثہ‘ ہیں اور معنی انسانی فضلہ یا غلاظت کے ہیں۔

کنٹرگارٹن کی تعلیمی اصطلاح فارسی میں ’کودکستان‘ کہلاتی ہے
کنٹرگارٹن کی تعلیمی اصطلاح فارسی میں ’کودکستان‘ کہلاتی ہے

خیر جب ’کود‘ سے ’کودک‘ بنا تو اس سے نوبنو تراکیب وجود میں آئیں جن میں سے بہت سی اردو میں بھی برتی جاتی ہیں، مثلاً جسے ہم بچگانہ (نہ کہ بچکانہ) اور طفلانہ کہتے ہیں اسی کی دوسری صورت ’کودکانہ‘ ہے۔ ایسے ہی تراکیب ’کودک مزاج، کودک طبع اور کودکِ ناداں‘ بھی ہیں۔ اب زیربحث لفظ کی رعایت سے میرانیس کے مرثیے کا ایک شعر ملاحظہ کریں،

بولے دکھا کے بچے کو شاہ فلک سریر
مرتا ہے پیاس سے یہ مرا کودک صغیر

زبانوں کے باب میں ایک دلچسپ پہلو حرف کا حسب موقع دوسرے حرف سے بدل جانا ہے۔ اس پر پہلے بھی بات ہو چکی ہے، سردست یہ سمجھ لیں کہ حرف ’دال/د‘ جن حروف سے بدلتا ہے ان میں حرف ’چے/چ‘ بھی شامل ہے۔ یوں اس ’کودک‘ کی دوسری صورت ’کوچک‘ ہے۔

واضح رہے کہ ’کودک‘ سے ’کوچک‘ بن جانے پر اس کے معنی میں وسعت پیدا ہوجاتی ہے یوں ’بچہ‘ کے علاوہ ’تنگ، محقر، خُردسال،کم جثہ، پست، حقیر اور قلیل‘ وغیرہ ’کودک‘ کے مترادفات میں شامل ہوجاتے ہیں۔

بچہ سے ’بچپن‘ اور لڑک (لڑکا/لڑکی) سے ’لڑکپن‘ کے الفاظ بنے ہیں۔ جب یہ زمانہ بھی گزر جائے تو دبے قدموں در آنے والا زمانہ ’نوجوانی‘ کہلاتا ہے۔ نوجوان کو انگریزی میں young (ینگ) کہا جاتا ہے۔ اس ینگ کو جانگ (زانو) سے کیا نسبت ہے؟ اس کا ذکر کسی اور وقت کے لیے اٹھا رکھتے ہیں کہ ابھی ’علیل اور ذلیل‘ کا بیان بھی باقی ہے۔ تب تک ’ذلیل‘ کی رعایت سے احمد مشتاق کے شعر سے حظ اٹھائیں،

اہل ہوس تو خیر ہوس میں ہوئے ذلیل
وہ بھی ہوئے خراب، محبت جنہوں نے کی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں