صدیوں سے آباد سندھ کا بہمن آباد، جو اب آباد نہیں
سندھ کا بہمن آباد، جو اب آباد نہیں
وقت جو کسی کا بھی نہیں ہے اور وقت جو سب کا ہے۔ پانی کا کوئی رنگ نہیں مگر پانی کے سوا کوئی رنگ نہیں۔ اگر دیکھا جائے تو زندگی دن رات کے محدود دائرے میں سانس لیتی ہے۔
مگر یہ بھی ہے کہ اس کی قدامت لاکھوں کروڑوں برسوں پر کسی ایسی رنگین چادر کی طرح بچھی ہوئی ہے جس میں غم، خوشی اور بے بسی کے سارے رنگ بسے ہوئے ہیں اور ہم زندگی کی اس چادر کی چھاؤں سے کبھی الگ ہونا نہیں چاہتے۔ ہم سب کے دل و دماغ کے کسی کونے میں اس چادر سے جڑے رہنے کی ایک چھوٹی سی پود اگتی ہے جس کی جڑیں لاکھوں برسوں تک پھیلی ہوئی ہیں۔
اپنے گزرے ہوئے وقت سے کوئی رشتہ توڑنا نہیں چاہتا بلکہ وقت کے ساتھ گزرے شب و روز پر پُراسراریت کا ایک جنگل سا اگ آتا ہے اور ہم سب اسراروں سے بھرے ہوئے اس جنگل میں جانا چاہتے ہیں اور اس میں چھپے اسراروں کو جاننے کے لیے ہمارے دل و دماغ میں تجسس کی ایک فصل اگتی ہے اور ہم اس کو جلد سے جلد کاٹنا چاہتے ہیں۔
چلیے ڈھائی ہزار برس پر محیط ایک انتہائی قدیم سفر کے لیے نکل پڑتے ہیں۔ جہاں پانی سے بھرے خوبصورت دریا ہیں جن میں بادبانوں والی خوبصورت کشتیاں چلتی ہیں، گھنے جنگل ہیں جن میں ہاتھی چنگھاڑتے ہیں اور کسی کسی وقت ہدہد اور کوئل کی کوک بھی سنائی دیتی ہے۔ باغات ہیں جن میں کھٹے اور میٹھے رنگین پھلوں کی بہار ہے، قلعے ہیں جو بن رہے ہیں اور گر رہے ہیں۔ تیر اور تلواریں ہیں جن کو بڑے احتیاط اور کاریگری سے بنایا جا رہا ہے، کہ وہ انسانوں کے سروں کی کھیتی کو اچھے طریقے سے کاٹ سکے۔ بادشاہ اپنے خاندانوں کے خون کے پیاسے ہیں کہ تخت رشتوں سے اہم اور متبرک جو ٹھہرا۔
ان حقائق کو جاننے کے لیے تاریخ پر لکھی ہوئی کتابوں کی ایک دنیا ہے جو بولتی ہے اور اتنا شور ہے کہ کانوں کو آواز سنائی نہیں دیتی۔ جنگ کے میدان ہر وقت آباد ہیں اور گھوڑوں کے ٹاپوں سے زمین دُھنتی جاتی ہے اور مٹی کے بگولے آسمان سے باتیں کرتے نظر آتے ہیں۔
اگر آپ ’شہدادپور‘ سے مشرق کی طرف نکلیں تو 8 کلومیٹر کے سفر کے بعد ’بہمن آباد‘ پہنچ جائیں گے۔ اگر آپ حیدرآباد سے آنا چاہتے ہیں تو نیشنل ہائی وے لے کر کھیبر سے مشرق کی طرف ٹنڈو آدم والا روڈ لیں اور اُڈیرو لال اور ٹنڈوآدم سے ہوتے ہوئے آپ دلُور موری آجائیں اور مغرب کی طرف مُڑ جائیں تو سامنے منصورہ کے آثار ہیں۔