Dawn News Television

شائع 17 ستمبر 2018 10:46am

شام: خانہ جنگی کے بعد حکومت کے زیر اثر علاقوں میں پہلے بلدیاتی انتخابات

دمشق: خانہ جنگی کا شکار شام میں حکومت کے زیر اثر علاقوں میں 2011 کے بعد ہونے والے پہلے بلدیاتی انتخابات میں عوام نے ووٹ کا حق استعمال کیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق 7 سال قبل ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے بعد شام میں جاری خانہ جنگی میں 3 لاکھ 60 ہزار افراد ہلاک ہوئے جبکہ لاکھوں کو زبردستی نقل مکانی کرنا پڑی اور ملک کی معیشت تباہ حالی کا شکار ہوگئی۔

تاہم 7 سال کے بعد ان بلدیاتی انتخابات کا انعقاد اس وقت کیا گیا جب شامی حکومت کی جانب سے ملک کے دو تہائی حصے کا کنٹرول دوبارہ حاصل کرنے کا دعویٰ کیا گیا۔

مزید پڑھیں: ادلب میں کارروائی سے مہاجرین کا بحران یورپ تک پہنچے گا، ترکی

شام کے سرکاری میڈیا کے مطابق حکومت کے زیر اثر علاقوں میں صبح 7 بجے سے 6 ہزار 5سو50 ووٹنگ سینٹرز کھول دیے گئے تھے۔

بلدیاتی انتظامی کونسلز کی 18 ہزار 4سو 78 نشستوں کے لیے 40 ہزار سے زائد امیدواروں کے درمیان مقابلہ تھا۔

انتخابات میں کامیابی کے لیے امیدواروں نے دمشق کے پبلک اسکوائر اور پرانے شہر سمیت مختلف مقامات پر انتخابی پوسٹر چسپاں کیے تھے۔

اس بارے میں 42 سالہ سرکاری ملازم محمد قباڈی نے ضلع کے دارالحکومت باب شرقی میں اپنا ووٹ کاسٹ کرتے ہوئے کہا کہ ’ مجھے معلوم ہے کہ میں کسے ووٹ دے رہا ہوں، وہ شخص نوجوان ہے، متحرک ہے اور اس کی جیت علاقے کے رہائشیوں کے لیے اچھی ثابت ہوگی‘۔

بہتری کے لیے تبدیلی

دوسری جانب شام تک حکام کی جانب سے ووٹنگ کا سرکاری ٹرن آؤٹ جاری نہیں کیا گیا تھا لیکن گزشتہ صدارتی یا پارلیمانی انتخابات کے مقابلے میں لوگوں کی کم تعداد نے ووٹ کاسٹ کیا۔

آخری اطلاعات تک شامی حکومت کے زیر اثر کچھ علاقے خاص طور پر مشرقی شہر دیرالزور میں ووٹنگ کا عمل جاری تھا، یہ وہ علاقہ ہے جو گزشتہ برس اکتوبر میںش امی فورسز نے لڑائی کے بعد عسکریت پسند گروپ داعش سے خالی کرایا تھا۔

دیرالزور کے ایک رہائشی 36 سالہ محمد طہٰ کا کہنا تھا کہ ’میں ووٹ ڈال کر بہت خوش ہوں اور پر امید ہوں کہ شہر کے تباہ حال انفرااسٹرکچری میں بہتری آئے گی‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ مجھے امید ہے کہ آنے والی کونسل تباہ حالی کا شکار شہر کو دوبارہ تعمیر کرے گی‘۔

ادھر مشرقی دمشق کے علاقے جسرین میں ایک اسکول کو ووٹنگ سینٹر بنایا گیا، جہاں عوام نے بلدیاتی کونسل کے انتخاب کے لیے ووٹ کاسٹ کیا۔

ووٹ کاسٹ کرنے کے بعد 64 سالہ ایک ووٹ ابو ہیتھم کا کہنا تھا کہ ’ شام میں مسائل کے آغاز کے بعد سے جسرین میں یہ پہلا الیکشن تھا اور ہمیں امید ہے کہ یہ انتخابات بہتری کے لیے تبدیلی کا باعث بنیں گے‘۔

کیوں ووٹ دیں؟

دریں اثناء شامی حکومت کے زیر اثر نہ ہونے والے ادلب صوبے کے شمال مشرقی اور شمال مغربی علاقوں میں ووٹنگ نہیں ہوئی۔

خیال رہے کہ ادلب صوبے کے شمال مشرقی اور مغربی حصے میں 30 لاکھ کے قریب لوگ رہائش پذیر ہیں۔

اس حصے میں زیادہ تر امیدوار باتھ پارٹی کے رکن یا اس سے منسلک ہیں اور جماعت کی جانب سے لوگوں کو کہا گیا تھا کہ وہ ووٹ کاسٹ نہیں کریں۔

یہ بھی پڑھیں: یمن: امن مذاکرات کیلئے اقوامِ متحدہ کے سفیر کی صنعا آمد

اس حوالے سے مزہ ضلع کے مرکزی علاقے میں کام کرنے والے 38 سالہ حمام کا کہنا تھا کہ ’ ہم ووٹ کیوں دیں؟ کیا کوئی چیز تبدیلی ہوگی؟۔

انہوں نے کہا کہ ’ہر کسی کو معلوم ہے کہ نتائج پہلے ہی ایک جماعت کے حق میں سیل ہوچکے ہیں اور اسی کے ارکان انتخابات میں کامیابی حاصل کریں گے‘۔

یاد رہے کہ شام میں آخری بلدیاتی انتخابات خانہ جنگی سے 9 ماہ قبل دسمبر 2011 میں ہوئے تھے جبکہ 2014 میں صدارتی انتخابات اور 2016 میں پارلیمانی انتخابات ہوئے تھے اور بشارالاسد کو 7 برس کےلیے مزید شام کا حکمران مقرر کردیا گیا تھا۔

Read Comments