چونکہ پاکستان اور امریکا کے درمیان تعلقات اس وقت گرم جوش نہیں ہیں اس لیے پاکستان پابندی کے شکار ممالک میں شامل ہوسکتا ہے۔ یہ مدِنظر رکھتے ہوئے کہ امریکی سپریم کورٹ نے کچھ اقوام پر سفری پابندیاں برقرار رکھنے کی اجازت دی ہے، اس لیے امریکا کی راہ میں کسی بھی ایسے ملک پر یا اس کے شہریوں پر پابندی عائد کرنے کی دھمکی دینے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں ہے اور ہم جانتے ہی ہیں کہ دھمکیاں دینا صدر ٹرمپ کا پسندیدہ کام ہے۔
وہ پاکستانی جو امریکا اور پاکستان کے درمیان باقاعدگی سے سفر کرتے ہیں یا پھر طویل عرصے سے گرین کارڈ کے حامل ہیں، ان کے لیے یہ احتیاط کا وقت ہے۔ اگر وہ نیچرلائزیشن کے اہل ہیں اور شہری بننے کی درخواست دے رہے ہیں تو انہیں اس میں دیر نہیں کرنی چاہیے۔ اگر کوئی ایسے بچے بیرونِ ملک ہیں جو اپنے والدین کو اسپانسر کرنا چاہتے ہیں تو انہیں بغیر کسی تاخیر کے پٹیشن فائل کرنی چاہیے کیونکہ ان پٹیشنز کا مستقبل بھی مشکوک ہے، اس لیے ضوابط میں تبدیلی سے پہلے پٹیشن فائل ہونا بہتر ہے بجائے اس کے کہ کوئی پٹیشن نہ ہو۔
اگر امریکا کی گزشتہ دہائی بیرونی جنگوں کی دہائی تھی تو یہ دہائی امریکا کے ایک ایسے قلعے میں تبدیل ہونے کی دہائی ہے جس کا صدر ایک خود ساختہ سفید فام قوم پرست ہوگا۔ یہ سچ ہے کہ ٹرمپ کا دور ہمیشہ باقی نہیں رہے گا مگر اس بات کا بہت امکان ہے کہ یہ معصوم تارکینِ وطن یا پھر مستقبل میں تارکینِ وطن بننے والوں کی زندگیوں میں مزید افراتفری اور بھونچال پیدا کرے گا۔
پاکستان اور پاکستانی جن کے لیے امریکی صدر کافی نفرت رکھتے ہیں، وہ ممکنہ طور پر ان نتائج کا سامنا کریں گے کیونکہ ویزا اور گرین کارڈ کے خواہشمند افراد آگے بڑھ کر کارروائی نہیں کرسکتے؛ مگر وہ دفاعی حکمتِ عملی تیار کرکے یہ ضرور جان سکتے ہیں کہ شمالی امریکا میں رہنے والے تارکینِ وطن یا ان جیسا بننے کے خواہشمندوں کی زندگیوں پر کیا چیز اثرات مرتب کرے گی۔
یہ مضمون ڈان اخبار میں 14 نومبر 2018 کو شائع ہوا۔
انگلش میں پڑھیں۔