Dawn News Television

اپ ڈیٹ 12 جنوری 2019 02:14pm

دولہا کو امریکا لانے کی خواہشمند ہزاروں کم عمر دلہنوں کی درخواستیں منظور

واشنگٹن: پاکستان سمیت دیگر ممالک کے مرد و خواتین کی جانب سے امریکا میں دلہا، بچے اور دلہنوں کو لانے کے لیے گزشتہ دہائی میں متعدد درخواستیں دی گئی تھیں جنہیں منظور کرلیا گیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ میں غیر ملکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس 'اے پی' کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ ایک کیس میں 49 سالہ شخص نے اپنی 15 سالہ دلہن کے لیے درخواست دی تھی۔

ان افراد کا داخلہ قانونی طور پر جائز ہے، امیگریشن اینڈ نیشنل ایکٹ میں کم از کم عمر کی کوئی شرائط نہیں، امریکی شہریت اور امیگریشن سروسز میں صرف یہ دیکھا جاتا ہے کہ گویا یہ شادی قانونی ہے اور جہاں یہ افراد رہیں گے وہاں اسے جائز سمجھا جائے گا یا نہیں۔

مزید پڑھیں: کم عمر بچوں کی شادی:بھارت میں سب سے زیادہ کمی ہوئی،اقوام متحدہ

تاہم اس ڈیٹا نے کئی سوالات اٹھا دیے ہیں کہ کیا امیگریشن سسٹم سے جبری شادیوں میں اضافہ ہوگا اور کیا امریکی قانون کم یا جبری شادی کو روکنے کی کوشش میں مسائل کی وجہ ہیں؟

واضح رہے کہ امریکا میں بالغ شخص کی کم عمر شخص سے شادی عام بات ہے جبکہ کئی امریکی ریاستیں چند شرائط کے ساتھ اس کی اجازت بھی دیتی ہیں۔

سینیٹ ہوم لینڈ سیکیورٹی کمیٹی کی جانب سے 2017 میں طلب کی گئی رپورٹ میں موجود ڈیٹا کے مطابق 5 ہزار سے زائد بالغ افراد نے کم عمر ساتھی کو لانے کی اجازت طلب کی تھی جبکہ 3 ہزار سے زائد کم عمر بچوں نے بالغ افراد کو بلانے کے لیے درخواستیں دی تھیں۔

جبری شادی سے متاثرہ پاکستانی نژاد امریکی خاتون نائلہ امین کا کہنا تھا کہ ’میرے پاسپورٹ نے میری زندگی برباد کردی‘۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں کم عمری کی شادیاں، وجوہات اور اُن کے نقصانات

نائلہ امین، جن کی عمر 29 سال ہے، کی 13 سال کی عمر میں جبری شادی کروائی گئی تھی تاکہ ان کے 26 سالہ شوہر کو امریکا بلایا جاسکے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’لوگ امریکا آنے کے لیے مرتے ہیں اور میں اپنے شوہر کے لیے ایک پاسپورٹ تھی، سب اسے یہاں لانا چاہتے تھے اور راستہ یہی تھا‘۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ امریکی حکومت کو سب سے زیادہ میکسیکو سے ایسی درخواستیں موصول ہوئیں، اس کے بعد پاکستان، اردن، ڈومینیکن ریپبلک اور یمن کا نمبر آتا ہے۔

سب سے زیادہ منظور ہونے والی درخواستوں میں مشرق وسطیٰ کی شرح سب سے زیادہ رہی۔


یہ خبر ڈان اخبار میں 12 جنوری 2018 کو شائع ہوئی

Read Comments