اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ بھارت میں بچیوں کی کم عمر میں جبراً شادی میں نمایاں کمی کی وجہ سے دنیا بھر میں بچوں کی شادیوں میں کمی آئی ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ’اے ایف پی‘ کے مطابق اقوام متحدہ کے ادارے ’یونیسیف‘ کی رپورٹ میں کہا گیا کہ گزشتہ ایک دہائی کے عرصے میں بچوں کی 2 کروڑ 50 لاکھ شادیاں روکی گئیں، جن میں سب سے زیادہ کمی بھارت اور دیگر جنوبی ایشیائی ممالک میں آئی، جہاں بچیوں کی 8 سال کی عمر میں زبردستی شادی کردی جاتی ہے۔

ادارے نے کہا کہ ’دنیا کے دیگر حصوں کے مقابلے میں جنوبی ایشیا میں گزشتہ 10 سال کے دوران بچوں کی شادی میں سب سے زیادہ کمی دیکھی گئی، جس میں سب سے بڑا حصہ بھارت کا ہے۔‘

رپورٹ میں کہا گیا کہ ’موجودہ وقت میں بھارت میں تقریباً 15 لاکھ یعنی 27 فیصد لڑکیوں کی 18 سال سے کم عمر میں شادی کردی جاتی ہے، جبکہ ایک دہائی قبل یہ تناسب 47 فیصد تھا۔‘

یہ بھی پڑھیں: 'ذہنی بلوغت تک بچوں کی شادی نہ کی جائے'

جنوبی ایشیا میں 18 سال سے کم عمر لڑکیوں کی زبردستی شادی کا رجحان 50 فیصد سے کم ہو کر 30 فیصد ہوگیا ہے۔

یونیسیف نے اس مثبت تبدیلی کی وجہ لڑکیوں کی تعلیم، حکومتی اقدامات اور مضبوط آگاہی پروگرامز کو قرار دیا۔

رپورٹ کے مطابق بچیوں کی کم عمر میں شادی کے رجحان میں افریقی ممالک جیسا کہ ایتھوپیا میں بھی کمی آئی ہے۔

واضح رہے کہ بھارت میں لڑکیوں کی شادی کی قانونی عمر 18 سال ہے، تاہم لاکھوں بچوں، بالخصوص غریب دیہی علاقوں سے تعلق رکھنے والے بچوں کو کم عمر میں ہی جبراً اس بندھن میں باندھ دیا جاتا ہے۔

بیشتر والدین اپنی مالی حالات بہتر کرنے کی امید میں اپنے بچوں کی شادیاں کردیتے ہیں۔

مزید پڑھیں: 'کم عمری کی شادی خواتین میں صحت کے مسائل پیدا کرتی ہے'

گزشتہ سال ایک تاریخی فیصلے میں بھارت کی سپریم کورٹ نے کم عمر بیوی سے جنسی تعلق قائم کرنے کو ’ریپ‘ کے مترادف قرار دیا تھا، جس کی سماجی کارکنوں کی پذیرائی کی تھی۔

یونیسیف کے جنس سے متعلق مشیر اَنجو ملہوترا نے خبردار کیا تھا کہ اقوام متحدہ کے 2030 تک بچوں کی شادی ختم کرنے کا ہدف حاصل کرنے کے لیے ابھی بہت کام کرنے کی ضرورت ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں