Dawn News Television

اپ ڈیٹ 16 مئ 2019 01:57pm

سپریم کورٹ کی سرحدی علاقوں کو بفر زون قرار دینے کی ہدایت

سپریم کورٹ نے متعلقہ حکام کو ہدایت کی ہے کہ پاکستانی حدود کے اندر پاک- بھارت سرحد سے متصل علاقوں کو بفرزون قرار دیں تاکہ یہاں زمین کی خریداری کی حوصلہ شکنی ہو۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق قائم مقام چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے بارڈر ایریا سیکیورٹی کمیٹی کی اپیلوں اور سرحدی علاقوں میں پلاٹ کی الاٹمنٹ منسوخ ہونے سے متعلق کیس کی سماعت کی۔

سماعت کے دوران قائم مقام چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ بھارت میں سرحد سے 20 میل تک کا علاقہ کسی عام شہری کو الاٹ نہیں کیا جاتا لیکن پاکستان میں لوگ بارڈر کے قریب جا کر کاشتکاری کرتے ہیں۔

انہوں نے مزید ریمارکس دیے کہ سرحد سے متصل علاقہ ہمیشہ حساس ہی ہوتا ہے اور یہاں پر لوگوں کو رہنے کی اجازت دینے سے ملکی سلامتی کو خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔

مزید پڑھیں: پاکستان کے کرتارپور سرحد کھولنے کے فیصلے پر بھارت کی توثیق

واضح رہے کہ یہ متنازع پلاٹس سرحد کے 5 میل کے نصف قطر کے اندر ہیں اور ان سے متعلق اسکیموں کو 1961 میں حکومت پاکستان نے متعارف کروایا تھا۔

جسٹس گلزار احمد نے اٹارنی جنرل انور منصور کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو اپنی سرحد کے اندر ایک سو 2 کلومیٹر تک کے علاقے کو بفر زون قرار دینا چاہیے۔

اٹارنی جنرل نے عدالت کو یقین دلایا کہ وہ اس معاملے میں متعلقہ حکام سے بات چیت کریں گے۔

جسٹس گلزار احمد نے واضح کیا کہ سرحدی علاقے میں رہنے کا حق کسی کے پاس نہیں، سپریم کورٹ کسی بھی وقت اس زمین کو خالی کرواسکتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ کی کوئی گنجائش نہیں، پاک فوج

جسٹس گلزار احمد نے درخواست گزاروں سے استفسار کیا کہ اگر پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ چھڑ جاتی ہے تو وہ اس صورت میں کیا کریں گے جس پر بارڈر ایریا کے ایک رہائشی نے عدالت کو بتایا کہ وہ بھارت سے مقابلہ کریں گے، انہوں نے بتایا کہ 1965 اور 1971 کی جنگوں کے دوران بھی اس علاقے میں موجود تھے۔

عدالت نے استفسار کیا کہ آپ بھارت سے کیسے لڑیں گے جس پر رہائشی کا کہنا تھا کہ ہم اپنی حفاظت کے لیے لڑیں گے جس پر جسٹس گلزار نے ریمارکس دیے کہ دشمن سے سرحد پر لڑنا عام لوگوں کا نہیں بلکہ مسلح افواج کا کام ہے۔

عدالت نے ہدایت جاری کی کہ بارڈر ایریا کمیٹی (بی اے سی) سرحدی علاقے کو مزید محفوظ بنانے کے لیے ازسر نو جائزہ لے اور مزید اقدامات کرے۔

علاوہ ازیں عدالت نے یہ بھی ہدایت جاری کی کہ ایک سال میں کمیٹی این او سی کے حوالے سے تمام معاملات حل کروائے اور غیر متعلقہ افراد بشمول اراکین کمیٹی کو کی گئیں الاٹمینٹس منسوخ کی جائیں۔

Read Comments