تحقیقی رپورٹس میں دریافت کیا گیا تھا کہ ریمیڈیسیور کورونا وائرس کے مریضوں کی جلد صحتیابی میں مدد کرتی ہے۔
اس دوا کو ایک امریکی کمپنی گیلاڈ سائنسز کی جانب سے ایبولا کے خلاف تیار کیا گیا تھا، مگر یہ کورونا وائرس کے حوالے سے بھی موثر ثابت ہوئی۔
امریکا نے ستمبر تک کے لیے اس کے 5 لاکھ سے زائد کورسز کو خرید لیا ہے۔
جولائی کے لیے گیلاڈ کی مجوزہ پروڈکشن کا سو فیصد حصہ امریکا کو دیا جائے گا جبکہ اگست اور ستمبر کی پروڈکشن کا 90 فیصد حصہ بھی امریکا کے پاس جائے گا۔
اس انکشاف کے بعد مختلف حلقوں کی جانب سے امریکا پر الزام عائد کیا جارہا ہے کہ وہ کورونا وائرس کی وبا کے خلاف جنگ میں عالمی کوششوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کررہا ہے۔
امریکا کے ہیلتھ اینڈ ہیومین سروسز سیکرٹری ایلکس ازر نے اپنے ایک بیان میں کہا 'صدر ٹرمپ نے زبردست معاہدہ کرکے کووڈ 19 کے لیے پہلی منظور کردہ دوا تک امریکی شہریوں کی رسائی کو یقینی بنایا ہے'۔
ان کا کہنا تھا 'ٹرمپ انتظامیہ کے بس میں جو کچھ ہے، وہ سب کووڈ 19 سے زندگی بچانے والی ادویات کے بارے میں جاننے اور امریکی عوام تک ان کی رسائی کے لیے کیا جارہا ہے'۔
اس دوا کے جینرک متبادل موجود ہیں مگر پیٹنٹ قوانین کے باعث صرف غریب اور متوسط آمدنی والے ممالک اسے اپنے طور پر تیار کرسکیں گے۔
گیلاڈ سائنسز کی جانب سے 127 ممالک کی کمپنیوں کو یہ دوا تیار کرنے کے لائسنس جاری کیے گئے ہیں جن میں پاکستان کی فیروز سنز بھی شامل ہے۔
گیلاڈ نے امیر ممالک کے لیے فی مریض اس دوا کی قیمت 2340 ڈالرز رکھی ہے۔
اور یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ فی الحال کورونا وائرس کے خلاف مؤثر چند ادویات میں سے ایک ہونے کی وجہ سے اس کی مانگ بہت زیادہ ہونے کی توقع ہے۔
اس کے علاوہ برطانیہ میں ڈیکسا میتھازون کو بھی کورونا وائرس کے حوالے سے موثر دریافت کیا گیا ہے۔
ویکسین کی انسانی آزمائش کے تیسرے مرحلے کے لیے 8 ہزار رضاکاروں کی خدمات حاصل کی جاچکی ہیں۔
نئے کورونا وائرس کے 50 ہزار جینوم اپ لوڈ کیے جاچکے ہیں اور ان میں سے 70 فیصد میں طبی ماہرین نے جینیاتی تبدیلیوں کو دریافت کیا۔