کورونا وائرس بہت تیزی سے کیوں پھیلا؟ ممکنہ جواب مل گیا

01 جولائ 2020
یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی — شٹر اسٹاک فوٹو
یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی — شٹر اسٹاک فوٹو

دنیا بھر میں نئے کورونا وائرس کے 50 ہزار جینوم اپ لوڈ کیے جاچکے ہیں اور ان میں سے 70 فیصد میں طبی ماہرین نے جینیاتی تبدیلیوں یا میوٹیشن کو دریافت کیا۔

امریکا کی نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی کے محققین کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس میں آنے والی تبدیلیوں نے اسے زیادہ متعدی بنادیا۔

تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کورونا وائرس میں آنے والی جینیاتی تبدیلیاں بڑھ رہی ہیں اور ان تبدیلیوں کا مقام بہت اہم ہے کیونکہ اس وجہ سے وائرس کی لوگوں کو متاثر کرنے کی صلاحیت بڑھ گئی۔

وائرس کی نئی قسم میں جینیاتی تبدیلیوں سے ایک امینو ایسڈ ڈی (aspartic acid) نے جی (glycine) سے جگہ بدل لی۔

محققین نے امریکی مریضوں میں وائرس کے نمونوں میں جینیاتی ساخت کا معانہ کرتے ہوئے تبدیلیوں کا مشاہدہ بار بار کیا۔

درحقیقت کم از کم 4 لیبارٹری تجربات میں وائرس کی نئی اقسام پہلے زیادہ سے متعدی ہونے کا عندیہ دیا گیا، تاہم ان میں سے کوئی بھی تحقیق کسی طبی جریدے میں شائع نہیں ہوئی۔

ایسی ایک تحقیق میں شامل اسکریپر ریسرچ انسٹیٹوٹ کے وائرلوجسٹ ہائریون چوئی نے بتایا کہ ماہرین کی تحقیق اور ہمارے ڈیٹا کو اکتھا کرنے سے وضاحت ہوتی ہے کہ کورونا وائرس کی جی قسم کس طرح اتنی تیزی سے یورپ اور امریکا میں پھیلا، یہ حادثاتی نہیں تھا۔

میساچوسٹس یونیورسٹی میڈیکل اسکول کے وائرلوجسٹ جرمی لیوبان کا کہنا تھا کہ اہم بات یہ ہے کہ ابھی ہم نے کچھ ایسا نہیں دیکھا جو حتمی ہو۔

کووڈ 19 کا باعث بننے والا نوول کورونا وائرس اپنے آب زندہ یا اپنی تعداد نہیں بڑھا سکتا، تو یہ انسانی خلیات میں تقسیم ہوتا ہے اور اپنی حیاتیاتی مشینری سے اپنی ہزاروں نقول بنالیتا ہے۔

نقول بنانے کا یہ عمل کافی پیچیدہ ہوتا ہے جس کے دوران کورونا وائرسز اکثر غلطیاں یا اپنی نئی اقسام بنالیتے ہیں۔

چونکہ اس وائرس کا اولین سیکونس جنوری میں بن چکا تھا تو سائنسدانوں کے لیے اس میں آنے والی تبدیلیاں کافی معنی رکھتی ہیں۔

نیویارک جینوم سینٹر اور نیویارک یونیورسٹی کے جینیاتی ماہر نیویلی سنجنا یہ جاننے کی کوشش کررہے ہیں کہ کونسے جینز نئے کورونا وائرس کو انسانی خلیات متاثر کرنے کی صلاحیت دیتے ہیں۔

لیکن ووہان میں ایک ابتدائی کیس کے جینیاتی سیکونس پر تجربات کے دوران انہیں یہ جاننے میں مشکلات کا سامنا ہوا کہ وائرس کی کونسی قسم خلیات کو متاثر کرتی ہے۔

جس کے بعد ٹیم نے اپنی توجہ اس وائرس کی جی قسم پر مرکوز کی۔

انہوں نے بتایا 'ہم شاک رہ گئے،درحقیقت اس کے نتیجے میں یہ وائرس تیزی سے پھیلا، ہم نے اس تجربے کو مختلف اقسام کے خلیات پر دہرایا اور ہر بار یہ قسم پہلے سے زیادہ متعدی ثابت ہوئی'۔

سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ کورونا وائرس میں آنے والی تبدیلیوں کی شناخت سے اس کے پھیلاؤ کو ٹریک کیا جاسکتا ہے۔

ہارورڈ یونیورسٹی اور براڈ انسٹیٹوٹ کے بائیولوجسٹ پیڈریز سیبتی کا کہنا تھا کہ وائرس کے پھیلاؤ کو سمجھنا کوئی جادوئی گولی نہیں، مگر ا سے ہمیں اپنے ردعمل کو بہتر کرنے میں مدد ملے گی، یہ وقت کے خلاف دوڑ ہے۔

اس سے قبل رواں ماہ اسکریپرز ریسرچ انسٹیٹوٹ کی تحقیق میں بتایا گیا کہ نئے کورونا وائرس کے جینیاتی نظام میں اس طرح تبدیلیاں آئی ہیں جس سے وہ مزید طاقتور ہوگیا ہے۔

محققین کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے مزید تحقیق کی ضرورت ہے کہ کورونا وائرس میں کس قسم کی تبدیلیاں آچکی ہیں، مگر یہ تبدیلیاں ممکنہ طور پر وضاحت کرسکتی ہیں کہ وائرس سے دنیا بھر میں اب بھی اتنے زیادہ لوگ متاثر کیوں ہورہے ہیں۔

تحقیق میں بتایا گیا کہ وائرس کے اسپائیک پروٹین میں جینیاتی تبدیلیاں آئی ہیں، یہ وائرس کی وہ اوپری ساخت ہے جس کو وہ انسانی خلیات میں داخل ہونے کے لیے استعمال کرتا ہے۔

اگر نتائج ثابت ہوگئے تو یہ پہلی بار ہوگا کہ جب کسی نے اس وبا کے دوران وائرس میں تبدیلیاں ثابت کی ہیں۔

محققین نے کہا کہ جینیاتی تبدیلیوں کے بعد وائرسز زیادہ متعدی ہوجاتے ہیں۔

یہ تحقیق اس وقت سامنے آئی ہے جب رواں ہفتے ہی عالمی ادارہ صحت نے کہا تھا کہ نئے کورونا وائرس میں جو تبدیلیاں اب تک دیکھی گئی ہیں وہ اس وقت تیار ہونے والی ویکسینز کی افادیت کو متاثر نہیں کریں گی۔

گزشتہ ہفتے عالمی ادارے نے کہا تھا کہ وائرس کی اقسام بننے سے وہ زیادہ آسانی سے پھیلے گا نہیں اور نہ ہی لوگوں کو سنگین حد تک بیمار کرسکے گا۔

اس نئی تحقیق میں محققین نے لیبارٹری میں تجربات کے دوران ثابت کیا کہ ڈی 614 جی نامی میوٹیشن سے وائرس میں اسپائیک یا کانٹے بڑھ گئے اور یہ زیادہ مستحکم بھی ہیں، جس سے اس کے لیے خلیات میں داخل ہونا زیادہ آسان ہوگیا ہے۔

اس تحقیق کو ابھی کسی طبی جریدے میں شائع نہیں کیا گیا بلکہ پری پرنٹ سرور BioRxiv میں شائع کیا گیا یعنی ابھی اس پر دیگر ماہرین نے نظرثانی نہیں کی۔

تاہم محققین کا کہنا تھا کہ نتائج سے وضاحت ہوتی ہے کہ امریکا اور لاطینی امریکی ممالک میں یہ وائرس اتنی آسانی اور تیزی سے کیوں پھیل رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ بہت اہم ہے کیونکہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وائرس تبدیل ہورہا ہے اور تبدیلیوں کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کررہا ہے، اس نے انسانی کلچر میں مطابقت کے لیے کافی زبردست کام کیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ جنوری کے وسط میں ایک تبدیلی آئی جس نے وائرس کو مزید متعدی بنایا، مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ زیادہ جان لیوا ہے، مگر یہ پہلے کے مقابلے میں 10 گنا زیادہ متعدی ہوچکا ہے۔

دیگر تحقیقی رپورٹس میں بھی ایسا خیال پیش کیا گیا تھا اور لاس آلموس لیبارٹری کی اپریل میں سامےن آنے والی ایک تحقیق میں اس میوٹیشن کو ڈی 614 جی کا نام دیتے ہوئے تشویش کا باعث قرارا دیا تھا کیونکہ یہ یورپ اور امریکا میں سب سے عام قسم بن گیا تھا۔

تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ یہ فروری کے آغاز میں یورپ میں پھیلنا شروع ہوا اور جب نئے خطوں میں پہنچا تو بہت تیزی سے بالادست قسم بن گیا۔

مگر محققین نے اس وقت کہا تھا کہ مزید تحقیق کی ضرورت ہے تاکہ ثابت کیا جاسکے کہ وائرس میں یہ تبدیلی کسی حادثے کے باعث سب سے عام قسم نہیں بن گئی۔

اب نئی تحقیق میں تحقیقی ٹیم نے 3 مختلف تجربات میں اسے ثابت کیا۔

انہوں نے دریافت کیا کہ اس تبدیلی سے وائرس کو نہ صرف زیادہ آسانی سے خلیات پر قبضہ جمانے کا موقع ملا بلکہ یہ زیادہ آساننی سے داخل بھی ہونے لگا۔

جب وائرسز کسی کو متاثر کرتے ہیں تو وہ متاثرہ فرد کے خلیات پر اپنا قبضہ کرکے انہیں وائرل فیکٹریوں میں بدل دیتے ہیں اور اپنی نقول بنانے لگتے ہیں۔

دوسری جانب امریکا کی لاس آلموس نیشنل لیبارٹری کی ایک تحقیق میں کہا گیا ہے کہ اس وائرس کی ایک قسم سب سے زیادہ متعدی ہے۔

محققین کا کہنا تھا کہ اس مخصوص قسم میں کچھ خاص ہے جو بہت تیزی سے پھیل رہی ہے مگر اس کے نتائج ابھی واضح نہیں۔

گلاسگو یونیورسٹی کی ایک تحقیق میں بھی وائرس کی اقسام کا تجزیہ کیا گیا تھا اور دریافت کیا کہ اس وقت صرف ایک قسم کا وائرس ہی گردش کررہا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں