یہ وائرس کسی متاثرہ فرد کے منہ اور ناک سے خارج ہونے والے ذرات میں موجود ہوتا ہے اور ان کا حجم مختلف ہوسکتا ہے، بڑے حجم کے ذرات سطح پر تیزی سے گرتے ہیں اور انگلیوں پر آسکتے ہیں جہاں سے وہ آنکھوں، ناک یا منہ کو چھونے پر جسم میں چلے جاتے ہیں، چھوٹے ذرات ہوا میں دیر تک موجود رہتے ہیں اور سانس کے ذریعے پھیپھڑوں کی گہرائی میں پہنچ جاتے ہیں۔
سائنسدانوں نے اپنے خط میں لکھا 'ایسا واضح امکان ہے کہ انتہائی ننھے ذرات مختصر سے درمیان فاصلے تک پھیل جاتے ہوں اور ہم ہوا سے پھیلاؤ کی روک تھام کے لیے حفاظتی تدابیر پر زور دیتے ہیں'۔
انہوں نے کہا 'متعدد تحقیقی رپورٹس دریافت کیا گیا ہے کہ بات کرنے، کھانسی اور سانس لینے کے دوران خاراج ہونے والے انتہائی ننھے ذرات ہوا میں تیرتے رہتے ہیں اور ایک سے 2 میٹر سے دور بھی کسی کو متاثر کرسکتے ہیں'۔
ان سائنسدانوں نے تحفظ کے لیے چند تجاوز بھی فراہم کیں یعنی سماجی دوری اور فیس ماسک کے استعمال کے ساتھ ساتھ عوامی عمارات میں ہوا کی آمد و رفت کو بہتر بنانے پر توجہ دی جائے۔
زیادہ لوگوں کے اجتماع خصوصاً پبلک ٹرانسپورٹ اور عوامی عمارات سے گریز۔
گھروں میں کھڑکیاں اور دروازے کھلے رکھنے کو ترجیح دی جائے۔