Dawn News Television

اپ ڈیٹ 05 اکتوبر 2020 06:09pm

فوج کے خلاف 'ہرزہ سرائی' کیس: کیپٹن (ر) صفدر کی حفاظتی ضمانت منظور

لاہور ہائیکورٹ نے وزیراعظم نواز شریف کے داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کے خلاف بغاوت کے مقدمے میں 10 اکتوبر تک حفاظتی ضمانت منظور کر لی اور پولیس کو گرفتاری سے روک دیا۔

لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس اسجد جاوید گھرال نے کیپٹن (ر) صفدر کی حفاظتی ضمانت کی درخواست پر سماعت کی۔

مزید پڑھیں: فوج کے خلاف 'ہرزہ سرائی': کیپٹن (ر) صفدر کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج

کیپٹن (ر) صفدر نے اپنی درخواست میں مؤقف اختیار کیا کہ گوجرانوالہ میں مسلم لیگ (ن) اور اپوزیشن جماعتوں کا جلسہ ہو رہا ہے اور متعلقہ عدالت سے رجوع کرنے سے قبل پولیس گرفتار کرنا چاہتی ہے لہذا متعلقہ عدالت تک پہنچنے کے لیے حفاظتی عبوری ضمانت دی جائے۔

لاہور ہائیکورٹ نے کیپٹن (ر) صفدر کی 10 اکتوبر تک ضمانت منظور کر لی اور پولیس کو رہنما مسلم لیگ کی گرفتاری سے روک دیا۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز سابق وزیراعظم نواز شریف کے داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کے خلاف ریاست سے بغاوت کا مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

صوبہ پنجاب کے ضلع گوجرانوالہ کے تھانہ سیٹلائٹ ٹاؤن میں اسٹیشن ہاؤس افسر (ایس ایچ او) محمد امجد کی مدعیت میں کیپٹن (ر) صفدر اور رکن صوبائی اسمبلی عمران خالد بٹ کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا۔

تعزیرات پاکستان کی دفعہ 120 بی، 124 اے اور 505 کے تحت درج ہونے والی فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) میں مؤقف اپنایا گیا تھا کہ سیٹلائٹ ٹاؤن میں عمران خالد بٹ کی رہائش گاہ پر مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنما کیپٹن (ر) محمد صفدر کی زیر قیادت ایک اجلاس ہوا، جس میں کیپٹن (ر) صفدر نے صوبائی اور وفاقی حکومت کو بزور احتجاج ختم کرنے اور افواج پاکستان اور اس کے اعلیٰ افسران کے خلاف ہرزہ سرائی کی۔

یہ بھی پڑھیں: پنجاب پولیس نے کیپٹن (ر) صفدر کو گرفتار کرلیا

ایف آئی آر کے مطابق انہوں نے افواج پاکستان کے بارے میں لوگوں کے اندر نفرت کے جذبات ابھارے جس سے لوگوں کے اندر اشتعال پیدا ہوا اور اس کا مقصد امن عامہ کو نقصان پہنچانا تھا۔

پولیس کی مدعیت میں درج ایف آئی آر کے مطابق محمد صفدر نے کہا کہ جس شہر میں گرفتاری ہوگی اس شہر کے کور کمانڈر کے گھر کا محاصرہ/ گھیراؤ کریں گے اور دھرنا دیں گے، اگر گوجرانوالہ میں گرفتاری ہوئی تو وہاں کا کینٹ پاس ہی ہے، ہم وہاں کے کور کمانڈر کے گھر کا گھیراؤ کریں گے۔

ساتھ ہی ایف آئی آر میں لکھا گیا کہ انہوں نے کہا کہ 16 اکتوبر والے جلسے کی انتظامیہ اجازت نہیں دے گی یہ ہمیں زور اور طاقت سے لینی پڑے گی۔

مذکورہ ایف آئی آر میں کہا گیا کہ کیپٹن (ر) صفدر اور عمران خالد بٹ نے دانستہ طور پر وفاقی و صوبائی حکومت کو زبردستی ختم کرنے، افواج پاکستان اور اس کے اعلیٰ افسران، ریاستی اور انتظامی اداروں کے خلاف نفرت، اشتعال اور دھمکی آمیز الفاظ کا استعمال کیا۔

خیال رہے کہ کیپٹن (ر) صفدر نے میڈیا سے دوران گفتگو کہا تھا کہ ہمارے اس وقت قائد مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ہے کہ جس شہر میں گرفتاری ہوگی وہاں کے کور کمانڈر کے گھر کے باہر دھرنا ہوگا اور ہم احتجاج کریں گے اور اپنے قائدین کو باہر نکال کر اٹھیں گے۔

انہوں نے کہا تھا کہ میں نے مولانا سے کہا کہ پہلے زمانے میں گرفتاریوں پر لوگ ڈی چوک جاتے تھے جس پر مولانا نے کہا کہ اس وقت جمہوریت تھی، اس پر میں نے کہا کہ عمران خان کا گھیراؤ نہ کریں تو مولانا نے جواب دیا کہ عمران کی حیثیت کیا ہے، گرفتاری ہو تو کورکمانڈر کے گھر کا گھیراؤ کریں۔

مزیدپڑھیں: عدالت نے پولیس کو کیپٹن (ر) صفدر کی گرفتاری سے روک دیا

خیال رہے کہ یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ کیپٹن (ر) صفدر کے خلاف مقدمہ درج ہوا ہے بلکہ اس سے قبل وہ دیگر معاملات میں گرفتار بھی ہوچکے ہیں جبکہ انہیں عدالت سے کرپشن ریفرنس میں سزا بھی کاٹنی پڑی ہے۔

یاد رہے کہ اکتوبر 2019 میں مبینہ طور پر ریاستی اداروں کے خلاف بات کرنے پر پولیس نے کیپٹن (ر) صفدر کے خلاف مقدمہ درج کیا تھا۔

اس حوالے سے درج ایف آئی آر میں کہا گیا تھا کہ ’کیپٹن (ر) صفدر نے حکومتِ پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کی اور عوام کو اکسایا‘۔

بعد ازاں پنجاب پولیس نے سابق وزیراعظم نواز شریف کے داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کو گرفتار کرلیا تھا، جس کے بعد عدالت نے ان کی عبوری ضمانت منظور کرلی تھی۔

یاد رہے کہ سال 2018 میں کیپٹن (ر) صفدر کو احتساب عدالت نے ایوین فیلڈ ریفرنس میں ایک سال قید کی سزا سنائی تھی۔

ایون فیلڈ یفرنس میں سابق وزیراعظم نوازشریف، مریم نواز، حسن اورحسین نوازکے علاوہ کیپٹن ریٹائرڈ صفدر ملزم نامزد تھے، جبکہ عدالت نے عدم حاضری کی بنا پر نواز شریف کے صاحبزادے حسن اور حسین نواز کو اشتہاری قرار دیا تھا۔

سزا سنائے جانے کے بعد ان کی روپوشی کی اطلاعات سامنے آئی تھیں تاہم 8 جولائی 2018 کو انہوں نے پارٹی رہنماؤں اور کارکنوں کے سامنے قومی احتساب بیورو (نیب) کو گرفتاری دے دی تھی۔

بعدازاں 19 ستمبر 2018 کو ایون فیلڈ ریفرنس میں سابق وزیرِ اعظم اور مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کی سزاؤں کو اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے معطل کیے جانے کے بعد انہیں اڈیالہ جیل سے رہا کردیا گیا تھا۔

Read Comments