Dawn News Television

اپ ڈیٹ 18 مارچ 2021 06:27pm

ایک ہزار میں سے ایک میں کورونا وائرس ویکسین کا معمولی ردعمل سامنے آیا

اسلام آباد میں جہاں 19 ہزار سے زائد افراد کو کورونا ویکسین لگائی گئی ہے ان میں سے ایک ہزار میں سے صرف ایک میں حفاظتی ٹیکے لگنے کے بعد معمولی رد عمل سامنے آئے تاہم اموات یا ہسپتال میں داخل ہونے کا ایک بھی کیس رپورٹ نہیں ہوا۔

مزید یہ کہ مختلف وجوہات کی بنا پر ویکسین کے تقریباً 160 ڈوزز ضائع ہوچکے ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ ویکسین پورے شہر میں 14 بالغوں کے ویکسینیشن مراکز (اے وی سی) میں دی جارہی ہے۔

مائیکرو بائیوولوجسٹ پروفیسر ڈاکٹر جاوید عثمان نے کہا کہ طبی اصطلاح میں ویکسین اور دوا کے رد عمل کو 'انافیلیکٹک ری ایکشن’ کہا جاتا ہے اور ہزار میں سے ایک کیس معمول کی بات ہے۔

مزید پڑھیں: کیا کورونا ویکسین کے استعمال کے بعد بھی فیس ماسک پہننا ضروری ہوگا؟

ڈان کے پاس دستیاب دستاویزات کے مطابق وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں 19 ہزار 625 ہیلتھ کیئر ورکرز (ایچ سی ڈبلیوز) اور سینئر شہریوں کو کورونا ویکسین لگائی گئی ہے۔

وزیر اعظم عمران خان نے 2 فروری کو حفاظتی ٹیکے لگانے کی مہم کا آغاز کیا تھا اور اس کے اگلے روز سے ہی ملک بھر میں فرنٹ لائن ہیلتھ ورکرز کی ویکسینیشن کا آغاز کردیا گیا تھا۔

مارچ کے پہلے ہفتے میں ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (ڈریپ) نے 60 سال سے زائد عمر کے افراد کے لیے پاکستان میں دستیاب واحد ویکسین سائنوفارم کے استعمال کی اجازت دی تھی اور 10 مارچ سے اسے لگانے کا کام شروع کردیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: 'ویکسین کے سائیڈ ایفیکٹس ہوتے ہیں، ہر شخص اپنی ذمہ داری پر لگوائے گا'

نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی) نے 15 مارچ کو فیصلہ کیا کہ 70 سال یا اس سے زائد عمر کے لوگوں کو، جنہوں نے ہیلپ لائن 1166 پر اپنا اندراج کرایا ہے، کو ٹیکے لگانے کے لیے کسی بھی مرکز میں جانے کی اجازت دی جائے گی۔

دستاویزات سے معلوم ہوا ہے کہ 2 مارچ کو اسلام آباد میں منفی رد عمل کا پہلا واقعہ دیکھنے میں آیا تھا اور اس کے بعد کم از کم ایک مرکز سے روزانہ اس طرح کے واقعات کی اطلاع ملی ہے اور مجموعی طور پر 18 افراد میں اثرات مرتب ہوئے ہیں۔

پروفیسر ڈاکٹر جاوید عثمان نے ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حفاظتی ٹیکے لگنے کے بعد 18 افراد پر اثرات مرتب ہوئے جو معمول کی بات ہے۔

انہوں نے کہا کہ 'لوگوں کو حفاظتی ٹیکوں کے مراکز پر رکھنے کی پالیسی کا آغاز امریکا میں کیا گیا تھا کیونکہ عام طور پر اس کا اثر ویکسینیشن کے بعد ظاہر ہوتا ہے اور لوگوں کو ویکسینیشن سینٹرز میں رکھنے سے الرجی اور اسٹرائیڈز کی دوائیوں کے ذریعے ان پر قابو پانا ممکن ہوجاتا ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'تاہم اس بات کو دھیان میں رکھنا چاہیے کہ بعض اوقات بے چینی کی وجہ سے دل کی دھڑکن تیز ہوجاتی ہے کیونکہ لوگ ویکسینیشن کے دوران یہ سوچتے رہتے ہیں کہ ویکسین لگوانے کا ان کا فیصلہ صحیح تھا یا غلط'۔

مزید پڑھیں: کراچی: 100 سالہ شہری نے بھی کورونا وائرس کی ویکسین لگوالی

وزارت نیشنل ہیلتھ سروسز (این ایچ ایس) کے ایک عہدیدار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ زیادہ تر ایسے افراد جن میں معمولی اثرات سامنے آتے ہیں، کی دل کی دھڑکن 120 فی منٹ تک بڑھ جاتی ہیں۔

سرکاری عہدیدار نے کہا کہ ایک ہزار میں سے ایک کیس بالکل معمول کی بات ہے اور اسے سنجیدگی سے نہیں لیا جانا چاہیے۔

جب ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر ڈاکٹر زعیم ضیا سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ ویکسینیشن کے بعد اموات یا ہسپتال میں داخل ہونے کا کوئی کیس سامنے نہیں آیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ تمام افراد پر ویکسین کے معمولی اثرات سامنے آئے ہیں۔

Read Comments