Dawn News Television

شائع 15 ستمبر 2022 05:51pm

عمران خان کی تقریر کے الفاظ غلط تھے لیکن دہشتگردی کی دفعہ نہیں بنتی، جسٹس اطہر من اللہ

اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق وزیر اعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کے خلاف خاتون ایڈیشنل سیشن جج کو دھمکانے پر درج دہشت گردی کا مقدمہ خارج کرنے کی درخواست پر جے آئی ٹی سے پیر تک رپورٹ طلب کرلی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس ثمن رفعت پر مشتمل بینچ نے عمران خان کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ خارج کرنے کی درخواست پر سماعت کی۔

مزید پڑھیں: پولیس، مجسٹریٹ کو دھمکیاں دینے پر عمران خان کےخلاف مقدمہ درج، دہشت گردی کی دفعہ شامل

دوران سماعت عدالت نے کہا کہ آئندہ سماعت پر بتائیں کہ مقدمے میں دہشت گردی کی دفعات کیوں لگائی گئیں؟

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ خاتون جج کے تحفظ کے لیے ہم یہاں موجود ہیں اور اس معاملے پر باقاعدہ توہین عدالت کی کارروائی چل رہی ہے، عمران خان کی تقریر بہت غلط اور نامناسب الفاظ تھے مگر دہشت گردی کی دفعہ تو نہیں بنتی، دہشت گردی کے جرم کو اتنی چھوٹی سطح پر مت لائیں۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان کو شامل تفتیش ہونے اور تفتیشی افسر کو بتانے کا کہا تھا کہ دہشت گردی کی دفعات بنتی ہیں یا نہیں، کیا درخواست گزار شامل تفتیش ہوا؟

اسپیشل پراسیکیوٹر راجا رضوان عباسی نے کہا کہ وہ عدالتی حکم کے بعد تاخیر سے گزشتہ روز شامل تفتیش ہوئے ہیں، جے آئی ٹی کا اجلاس ہونا ہے اس میں وہ طے کریں گے۔

یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد ہائیکورٹ: عمران خان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کا فیصلہ

انہوں نے عدالتی استفسار پر عمران خان کی تقریر کے متنازع جملے بھی پڑھ کر سنائے۔

اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ بتائیں کہ اس پر دہشت گردی کی دفعہ کیسے بنتی ہے، کیا ان کی تقریر کے علاوہ کچھ ہے؟

عدالت نے کہا کہ یہ بہت سنجیدہ نوعیت کا الزام ہوتا ہے، سپریم کورٹ کا فیصلہ موجود ہے، دہشت گردی کے جرم کو اتنے چھوٹے لیول پر مت لائیں۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ چیزوں کو کنفیوژ نہ کریں، ایک توہین عدالت کی کارروائی ہے جو الگ چل رہی ہے، کوئی آئی جی اتنا کمزور نہیں ہونا چاہیے کہ تقریر سے ڈر جائے یا گھبرا جائے۔

اسپیشل پراسیکیوٹر نے کہا کہ اگر ایک سابق وزیر اعظم یا مستقبل کے بھی ممکنہ وزیر اعظم ہوں تو فرق پڑتا ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اس کے بعد عمران خان پولیس کے سامنے ہی پیش اور شامل تفتیش ہوئے تو کیا اس دوران کوئی حملہ کیا گیا، آپ دہشت گردی کے معاملے کو ایسا نہ بنائیں۔

مزید پڑھیں: دہشت گردی کے مقدمے میں عمران خان کی عبوری ضمانت میں 12 ستمبر تک توسیع

عدالت نے کہا کہ دہشت گردی کے واقعات میں بہت پولیس اہلکار شہید ہوئے۔

عدالت نے جے آئی ٹی کا اجلاس کرکے پیر تک عدالت کو آگاہ کرنے کا حکم دیتے ہوئے سماعت 19 ستمبر تک ملتوی کردی۔

خیال رہے کہ 21 اگست کو سابق وزیر اعظم و چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کے خلاف اعلیٰ سرکاری افسران کو دھمکیاں دینے کے خلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت اسلام آباد میں مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

پولیس ایف آئی آر کے مطابق گزشتہ روز اسلام آباد کے علاقے صدر کے مجسٹریٹ علی جاوید کی مدعیت میں عمران خان کے خلاف اسلام آباد کے تھانہ مرگلہ میں انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

ایف آئی آر کے مطابق 20 اگست کو پاکستان تحریک انصاف رہنما شہباز گِل کی گرفتاری کے خلاف عمران خان کی قیادت میں احتجاجی ریلی نکالی گئی جس کا راستہ زیرو پوائنٹ سے ایف 9 پارک تک تھا، اس دوران عمران خان کی تقریر شروع ہوئی جس میں انہوں نے اسلام آباد پولیس کے اعلیٰ ترین افسران اور ایک معزز خاتون ایڈیشنل جج صاحبہ کو ڈرانا اور دھمکانا شروع کیا تھا۔

Read Comments