خیبرپختونخوا کے ضلع بٹگرام کی تحصیل الائی میں پاشتو کے مقام پر کیبل کار کی رسی ٹوٹنے کے بعد پھنسنے والے بچوں سمیت تمام آٹھوں افراد کو پاک فوج نے کئی گھنٹوں پر محیط آپریشن کے بعد ریسکیو کر لیا۔

آپریشن کی کامیاب تکمیل کی تصدیق کرتے ہوئے پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ(آئی ایس پی آر) نے بیان میں کہا کہ پاک فوج نے بٹگرام میں انتہائی پیچیدہ اور مشکل ریسکیو آپریشن کامیابی سے مکمل کر لیا ہے۔

بیان میں کہا گیا کہ جی او سی ایس ایس جی نے اس ریسکیو آپریشن کی قیادت کی اور پاک فوج کے اسپیشل سروسز گروپ کی سلنگ ٹیم نے 600 فٹ بلندی پر کیبل کار میں پھنسے افراد کو بحفاظت ریسکیو کر لیا۔

ان کا کہنا تھا کہ کیبل کار میں پھنسے تمام افراد کو بحفاظت نکال کر محفوظ مقام پر منتقل کر دیا گیا ہے۔

بیان میں کہا گیا کہ آرمی چیف کی خصوصی ہدایت پر آرمی ایوی ایشن اور ایس ایس جی کی باصلاحیت ٹیم نے ریسکیو آپریشن کا تیزی سے آغاز کیا اور بعد ازاں پاک فوج کی اسپیشل سروسز گروپ کی سلنگ ٹیم اور پاکستان ائیر فورس کا ہیلی کاپٹر بھی آپریشن کا حصہ بنا۔

ان کا کہنا تھا کہ پاک فوج کے اسپیشل سروسز گروپ کی سلنگ ٹیم کو آرمی ایوی ایشن نے مکمل تکنیکی مدد فراہم کی جس کے باعث آپریشن کی کامیابی ممکن ہوسکی جبکہ آپریشن کے دوران پاک فوج اور پاک فضائیہ کے پائلٹس نے بے مثال مہارت اور کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔

آئی ایس پی آر نے کہا کہ ریسکیو آپریشن کامیابی سے پایہ تکمیل تک پہنچانے میں لوکل کیبل ایکسپرٹ کی بھی خدمات حاصل کی گئیں اور اس آپریشن میں سول انتظامیہ اور مقامی شہریوں نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔

انہوں نے کہا کہ یہ ایک انتہائی مشکل اور کٹھن آپریشن تھا لیکن پاک فوج اور پاک فضائیہ کے ہیلی کاپٹرز نے بروقت جائے وقوع پر پہنچ کر امدادی آپریشن کا آغاز کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ پاک فوج کے اسپیشل سروسز گروپ کی سلنگ ٹیم، پاک فضائیہ، لوکل انتظامیہ، اور کیبل ایکسپرٹس کی مدد سے پاکستانی تاریخ کے اس منفردآپریشن کو سرانجام دے کر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ نے کہا کہ افواجِ پاکستان نے ہمیشہ ہر مشکل وقت میں عوام کی آواز پر لبیک کہا ہے اور مشکل کی ہر گھڑی میں عوام کے ساتھ کھڑی رہی ہیں اور رہیں گی۔

نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے بھی آپریشن کی کامیابی کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ میں انتہائی مطمئن ہوں کہ تمام بچوں کو کامیابی کے ساتھ بحفاظت طریقے سے ریسکیو کر لیا گیا ہے۔

انہوں نے اس ریسکیو آپریشن کی کامیابی پر فوجی، ریسکیو اداروں، ضلعی انتظامیہ کے ساتھ ساتھ مقامی لوگوں کی کاوشوں کو بھی سراہا۔

ضلع بٹگرام کے علاقے الائی میں کیبل کار کی رسی ٹوٹنے کا واقعہ صبح 7 سے 8 بجے کے درمیان پیش آیا جب مقامی زبان میں ڈولی کہے جانے والی کیبل کار کے ذریعے طلبہ اسکول جارہے تھے، اس دوران 2 رسیاں ٹوٹنے سے کیبل کار فضا میں کئی فٹ بلندی پر پھنس گئی۔

اس حوالے سے واضح نہیں ہوا کہ کیبل کار کتنی بلندی پر پھنسی ہوئی تھی البتہ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی(این ڈی ایم اے) کے مطابق یہ کیبل کار ایک ہزار سے 2 ہزار فٹ کی بلندی پر پھنسی ہوئی تھی۔

کیبل کار جھانگری ندی کے اوپر محض ایک تار کے سہارے ہوا میں معلق تھی، جہاں اطراف میں بلند و بالا پہاڑ اور پتھریلی زمین ہے۔

فضائی آپریشن بند

اس سے قبل کئی گھنٹوں پر محیط اس ریسکیو آپریشن کا آغاز صبح ہوا تھا اور شام تک کئی گھنٹے گزرنے کے باوجود بھی کسی کو ریسکیو نہ کیا جا سکا۔

تاہم اس سے قبل علاقے میں اندھیرا پھیلتا، پاک فوج نے اپنے ریسکیو آپریشن کے دوران دو بچوں کو ریسکیو کر لیا تھا۔

سرکاری نشریاتی ادارے پی ٹی وی کے مطابق اندھیرے اور موسمی حالات کے سبب فضائی آپریشن بندکردیا گیا تھا تاہم دیگر طریقوں سے ریسکیو کی کوششیں جاری رکھی گئیں۔

موقع پر موجود ڈان ڈاٹ کام کے نمائندے نے بتایا کہ مقامی افراد زمین سے ریسکیو آپریشن شروع کرنے کی تیاریوں میں ہیں لیکن ریسکیو کا یہ طریقہ انتہائی خطرناک ہے کیونکہ اس میں ریسکیو کرنے والا شخص ایک رسی پر سلائیڈ کرتے ہوئے کیبل کار تک رسائی کی کوشش کرتا ہے۔

قبل ازیں اسسٹنٹ کمشنر جواد حسین نے ڈان ڈاٹ کام کو پہلے بچے کو ریسکیو کیے جانے کی تصدیق کی تھی۔

اسسٹنٹ کمشنر نے بتایا تھا کہ بچے کو پاک فوج کے جوانوں نے ریسکیو تھا جس میں بیلٹس کیبل کار میں موجود مسافروں کی جانب پھینکی گئی تھیں، بچے کو رسی کی مدد سے ریسکیو کیا گیا جس کو اس بیلٹ سے منسلک کردیا گیا تھا جو بچے نے پہنی ہوئی تھی۔

دوسری جانب وادی الائی تحصیل کے چیئرمین مفتی غلام اللہ نے کہا تھا کہ فوجی ہیلی کاپٹرز غروب آفتاب کے بعد واپس لوٹ گئے تھے اور آپریشن روک دیا گیا ہے۔

جائے وقوع پر موجود ڈان نیوز کے نمائندے نے بتایا تھا کہ اسپیشل سروسز گروپ نے کہا کہ کمانڈو نے ریسکیو مشن انجام دیا اور بچے کو ایک عبوری ہیلی پیڈ پر اتار دیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ اس ریسکیو آپریشن میں تین ہیلی کاپٹرز حصہ لے رہے تھے جس میں سے دو پاک فوج اور ایک پاک فضائیہ کا تھا۔

نمائندے نے مزید بتایا کہ علاقے میں تاریکی پھیل چکی تھی اسی لیے ریسکیو کی کوششوں میں لائٹنگ اور دیگر آلات کا استعمال کیا گیا۔

فوج کی ریپڈ رسپانس فورس کے دستے زمین پر موجود

اس سے قبل الائی کے اسسٹنٹ کمشنر جواد حسین نے ڈان ڈاٹ کام سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا تھا کہ فوج کی ریپڈ رسپانس فورس کے دستے زمین پر موجود ہیں اور پاک فوج اور پاک فضائیہ کے 2 ہیلی کاپٹروں کے ذریعے مسلح افواج کا خصوصی یونٹ کر رہا ہے۔

بٹگرام کیبل کار واقعے سے متعلق پولیس کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق کیبل کار میں 7 طالب علم اور ایک مقامی شخص گورنمنٹ ہائی اسکول بٹنگی جانے کے لیے سوار ہوئے۔

انہوں نے کہا کہ صبح 7بجکر 45 منٹ کے قریب کیبل کار کا ایک کیبل ٹوٹ گیا جس سے کیبل دو ہزار فٹ کی بلندی پر بیچ راستے میں فضا میں معلق ہو گئی۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ کیبل کار میں ابرار، عرفان، اسامہ، رضوان اللّٰہ، عطااللّٰہ، نیاز محمد، شیر نواز اور گلفراز سوار ہیں۔

اطلاع ملنے پر ڈپٹی کمشنر بٹگرام نے کمشنر ہزارہ سے رابطہ کیا اور ڈپٹی کمشنر نے کمشنر ہزارہ کو ہیلی کاپٹر کا انتظام کرنے کی درخواست کی۔

تازہ ٹی وی فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایس ایس جی کمانڈو کو ہیلی کاپٹر سے نیچے اتار کر اس کو ہوا میں معلق کیبل کار کے بالکل مقابل لے جایا گیا۔

پاک فوج اور پاک فضائیہ کے 2 ہیلی کاپٹر امدادی کارروائی کے لیے جائے وقوع پر موجود ہیں جنہوں نے کیبل کار کے قریب جانے کی 2 بار کوششیں کیں۔

ایک ہیلی کاپٹر کیبل کار کے اوپر پرواز کررہا تھا جب کہ دوسرا بیک اپ کے طور پر کچھ فاصلے پر موجود تھا، ایک کمانڈو نے ہیلی کاپٹر سے کیبل کار کی جانب اترنے کی 2 بار کوشش کی، تاہم بعدازاں ہیلی کاپٹر پیچھے ہٹ گیا۔

’ریسکیو مشن پیچیدہ ہے‘

جواد حسین کے مطابق ایک فوجی ہیلی کاپٹر نے 15 منٹ تک علاقے کا سروے کیا، اس دوران ریسکیو 1122 کی ٹیمیں کیبل کار کے نیچے جال پھیلانے کی کوشش کر رہی ہیں۔

ریسکیو اہلکار شارق ریاض خٹک نے غیر ملکی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کو بتایا کہ علاقے میں تیز ہواؤں کی وجہ سے ریسکیو مشن انتہائی پیچیدہ ہے، اصل میں اندیشہ یہ ہے کہ ہیلی کاپٹر کے روٹر بلیڈ کیبل کار کو مزید غیر مستحکم کرنے کا باعث بن سکتے ہیں، علاقے میں غروب آفتاب شام 6 بجکر 48 منٹ پر متوقع ہے جس کے بعد اندھیرا چھا جائے گا۔

جائے وقوع پر موجود شہری جاوید نے تصدیق کی کہ کچھ دیر بعد دوسرا فوجی ہیلی کاپٹر بھی ریسکیو آپریشن کے لیے وہاں پہنچ گیا۔

جواد حسین نے کہا کہ اگر دوسرا ہیلی کاپٹر مسافروں کو ریسکیو کرنے میں ناکام رہا تو ریسکیو 1122 کی ٹیمیں اسنارکل کے ذریعے زمین سے ریسکیو کی کوششیں کریں گی۔

کیبل کار میں پھنسے افراد کو ہیلی کاپٹر سے نکالنے کے لیے ریسکیو آپریشن جاری ہے— فوٹو: اے ایف پی
کیبل کار میں پھنسے افراد کو ہیلی کاپٹر سے نکالنے کے لیے ریسکیو آپریشن جاری ہے— فوٹو: اے ایف پی

انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے شانگلہ بیشام سے مقامی لوگوں کو بھی بلایا ہے جو دیامر بھاشا ڈیم کے قریب اسی طرح کے ریسکیو آپریشنز کرنے کا تجربہ رکھتے ہیں۔

تحصیل چیئرمین نے بتایا کہ کیبل کار علاقے میں نجی طور پر مقامی لوگوں کو دریا کے پار لے جانے کے لیے چلائی جاتی ہے کیونکہ علاقے میں کوئی سڑک اور پل نہیں ہے۔

بچوں کی جانیں خطرے میں ہیں، مفتی غلام اللہ

جواد حسین نے بتایا کہ ریسکیو 1122 کی ٹیم اور مقامی انتظامیہ موقع پر پہنچ چکی ہیں لیکن وہاں صرف ایک رسی تھی جس پر کیبل کار لٹکی ہوئی ہے اور رسی ٹوٹنے کی صورت میں کیبل کار نیچے گر سکتی ہے۔

مفتی غلام اللہ نے کہا کہ بچوں کی جانیں بہت زیادہ خطرے میں ہیں، وہ کیبل کار میں رو رہے ہیں اور اپنی جان بچانے کی اپیل کر رہے ہیں۔

وادی الائی کے چیئرمین غلام اللہ نے جیو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہر بار ہیلی کاپٹر جیسے ہی ریسکیو کرنے والوں کو کیبل کار کے قریب لے کر جاتا ہے تو ہیلی کاپٹر کی پنکھوں کی تیز ہوا سے کیبل کار جھول کر توازن کھونے لگتی ہے اور خوف سے بچے چیخنے لگتے ہیں۔

دریں اثنا بچوں کے اہل خانہ بھی جائے وقوع پر پہنچے اور حکومت سے ہیلی کاپٹر بھیج کر بچوں کو محفوظ طریقے سے بچانے کی اپیل کی تھی۔

ڈپٹی کمشنر تنویر الرحمٰن نے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ حساس آپریشن ہے جس کے لیے حد درجہ درستی درکار ہے، ہیلی کاپٹر کیبل کار کے قریب نہیں جا سکتا کیونکہ اس کے نتیجے میں پڑنے والے ہوا کے دباؤ کے سبب کیبل کار کو سپورٹ کرنے والی چین ٹوٹ سکتی ہے۔

سابق پائلٹ جواد احمد نے بھی نجی ٹی وی سے گفتگو کے دوران تنویر الرحمٰن کے موقف کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ٹیلی ویژن فوٹیج میں واضح دیکھا جا سکتا ہے کہ ہیلی کاپٹر کو تیز ہواؤں کے پیش نظر اپنی پوزیشن برقرار رکھنے میں جدوجہد کا سامنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ تیز ہوائیں کمانڈو آپریشن کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں، ایسے آپریشن عمومی طور پر شام پانچ بجکر 40 منٹ تک کیے جا سکتے ہیں اور غیرمعمولی حالات میں اس کو 6بجکر 40 منٹ تک توسیع دی جا سکتی ہے۔

انہوں نے قیاس ظاہر کیا کہ ایک چھوڑا ہیلی کاپٹر یہ آپریشن زیادہ موثر طریقے سے انجام دے سکے گا۔

دریں اثنا ٹیلی ویژن پر نشر کی جانے والی فوٹیجز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کیبل کار میں پھنسے افراد کو ریسکیو کرنے کے لیے ہیلی کاپٹر پہنچ چکا ہے، ’جیو نیوز‘ سے گفتگو کرتے ہوئے مقامی ٹیچر ظفر اقبال نے بھی ہیلی کاپٹر پہنچنے کی تصدیق کی ہے۔

کیبل کار پر سوار طلبہ کی میڈیا سے گفتگو

کیبل کار میں پھنسے مسافروں میں سے ایک گلفراز نے ’جیو نیوز‘ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ کیبل کار میں سوار ایک طالب علم گزشتہ 3 گھنٹوں سے بے ہوش ہے، بلندی پر پھنسے طلبہ کی عمریں 10 سے 15 سال کے درمیان ہیں۔

20 سالہ گلفراز نے ریاستی حکام پر زور دیا کہ انسانی ہمدردی کو مدنظر رکھتے ہوئے ہماری مدد کے لیے فوری کارروائی کی جائے، ہمارے علاقے کے لوگ یہاں کھڑے ہیں اور رو رہے ہیں۔

طلبہ کے پاس کھانے پینے کے لیے کچھ موجود ہونے سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ان کے پاس پینے کا پانی تک نہیں ہے، کھانے کی چیزیں کہاں سے آئیں گی؟ پینے کے پانی کی بہت ضرورت ہے، میرے موبائل کی بیٹری بھی کم رہ گئی ہے جبکہ باقی سب کے پاس سادہ موبائل فون ہے۔

وزیر اعظم کی ریسکیو آپریشن کیلئے تمام وسائل بروئے کار لانے کی ہدایت

دریں اثنا نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے حکام کو ہدایت کی ہے کہ کیبل کار میں پھنسے تمام افراد کو بحفاظت ریسکیو کیا جائے۔

انہوں نے قومی اور صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ حکام کو تمام دستیاب وسائل کو بروئے کار لانے اور پہاڑی علاقوں میں کیبل کاروں کے لیے حفاظتی اقدامات کو یقینی بنانے کی ہدایات جاری کی ہیں۔

علاوہ ازیں نگران وزیراعظم نے پہاڑی علاقوں میں کیبل کاروں کے حوالے سے حفاظتی اقدامات یقینی بنانے کی ہدایت کردی۔

انہوں نے حکام کو خستہ حال اور حفاظتی معیار پر پورا نہ اترنے والی کیبل کاروں کے حوالے سے سخت اقدامات اٹھانے کی ہدایات بھی جاری کر دیں۔

’ریڈیو پاکستان‘ کے مطابق این ڈی ایم اے نے پی ڈی ایم اے کو بلندی پر پھنسے افراد کو ریسکیو کرنے کے لیے کوآرڈینیشن سپورٹ فراہم کی ہے۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ این ڈی ایم اے نے تمام پی ڈی ایم ایز سے ان کے متعلقہ علاقوں میں سیاحتی انفرااسٹرکچر پر سیفٹی آڈٹ کا مطالبہ کیا ہے۔

نگران وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا محمد اعظم خان نے بھی واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے ہدایت کی ہے کہ بلندی پر پھنسے ہوئے افراد کو بحفاظت ریسکیو کرنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات اٹھائے جائیں۔

دریں اثنا نگران وزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی نے بتایا کہ بٹگرام میں ریسکیو آپریشن جاری ہے۔

سڑکوں کی کمی

اسکول ٹیچر ظفر اقبال نے مزید بتایا کہ بچے گزشتہ 4 سے 5 گھنٹوں سے کیبل کار میں پھنسے ہوئے ہیں، علاقے میں سڑکوں کی کمی کی وجہ سے روزانہ کم از کم 150 طلبہ کیبل کار کے ذریعے اسکول جانے کے لیے یہ خطرناک سفر کرتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ پھنسے ہوئے بچوں کے پاس موبائل فون ہے اور ہمیں پتا چلا ہے کہ ایک طالب علم خوف سے بیہوش ہو گیا۔

دوسری جانب ڈی پی او سونیا شمروز نے علاقے میں کیبل کاروں اور چیئر لفٹ کے کثرت سے استعمال کی وجہ سے ان کی مناسب دیکھ بھال کی ضرورت پر توجہ دلائی۔

تبصرے (0) بند ہیں