تم اچھے مسیحا ہو دوا کیوں نہیں دیتے
بے نور جو ہے شمع بجھا کیوں نہیں دیتے

احسان جعفری کا یہ شعر کم، قومی منظر نامے کی تصویر زیادہ ہے کیونکہ اتحادی حکومت کے جانے اور نگرانوں کے آنے پر جو سُکھ کا سانس آیا تھا وہ سینے میں کہیں گُھٹ کر رہ گیا ہے۔ آنے والے سنگین حالات کی دھمک فضا میں ان الفاظ کے ساتھ سنائی دے رہی ہے:

شکستہ پا کو مژدہ، خستگان راہ کو مژدہ
کہ رہبر کو سراغ جادۂ منزل نہیں ملتا

بات یہ کہ جہاں دُور کی کوڑی اور قنوطیت باہم ہوتے ہیں، وہاں سے دیکھنے والے کو ’انوارالحق‘ میں ’ضیا الحق‘ کی شبیہ دکھائی دے رہی ہے۔ وہ ’انوار‘ اور ’ضیا‘ کے مشترکہ مفہوم ’روشنی‘ کو اس ’حق‘ کے ساتھ دیکھ رہا ہے جو ’90 روز میں انتخابات‘ کے نام پر برسرِاقتدار آتا ہے اور پھر واپسی کا راستہ بھول جاتا ہے۔ بقول کیفی اعظمی:

راستہ بھول گیا، یا یہی منزل ہے مری
کوئی لایا ہے کہ خود آیا ہوں معلوم نہیں

بات سیاسی نہ ہوجائے سو اس سے پہلو تہی کرتے ہوئے لفظ ’نگران‘ کی گرہ کشائی کرتے ہیں۔ فارسی زبان سے متعلق لفظ ’نگران‘ کے لفظی معنی ’دیکھنے والا‘، جبکہ اصطلاحی و مجازی معنی میں نگہدار، نگہبان، پاسبان، محافظ، منتظر، سربراہ، حاکم، افسرِ اعلیٰ وغیرہ داخل ہیں۔ آسان الفاظ میں کہیں تو’نگران’ کی تعریف میں ہر وہ شخص داخل ہے جسے ذرا بھی اختیار و اقتدار حاصل ہے۔ رہے عوام تو ان کا حال ساغر خیامی کے شعر سے عیاں ہے:

صحن چمن میں کچھ پس دیوار ہیں کھڑے
یعنی عوام جان سے بیزار ہیں کھڑے

فارسی کے زیرِ اثر اردو میں راہ پانے والے لفظ ’بیزار‘ کے معنیٰ و مفہوم ’متنفر، اکتایا ہوا، خفا، ناخوش، آزردہ، دُور اور جُدا‘ہیں۔ تاہم اردو میں معاملہ ’بیزار‘ پر مشتمل تراکیب نہ ہونے کے برابر ہے جبکہ فارسی میں یہ ’بیزار‘ کئی تراکیب کا حصہ ہے مثلاً دل تنگ ہونا یا مایوس ہونا ’بیزار شدن‘ ہے تو پرے ہٹنا، دور جانا اور جدا یا الگ ہونا ’بیزار کردن اور بیزار گشتن‘ ہے۔

اس سلسلے میں دو تراکیب زیادہ لائق توجہ ہیں۔ اول ’خانہ بیزار‘ ہے کہ جس کے معنیٰ میں وہ شخص داخل ہوتا ہے جسے گھر بار کی پروا نہ ہو۔ دوسری ترکیب ’خویشتن بیزار‘ ہے جس کے معنیٰ ’خود بیزاری‘ یعنی اپنے آپ سے وحشت کے ہیں۔ اب اس ’بیزار‘ کی رعایت سے حسرت شادانی کا شعر ملاحظہ کریں:

بیزار خود نہ ہوتے اگر زندگی سے ہم
اے ضبط غم فریب نہ کھاتے کسی سے ہم

جیسا کہ اوپر بتایا جا چکا ہے کہ ’بیزار‘ کے مترادفات میں لفظ ’متنفر‘ بھی شامل ہے اور یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ ’متنفر‘ کو ’نفرت‘ سے ربط ہے۔ اس وضاحت کے ساتھ اب زیربحث لفظ کو نفرت کے معنیٰ میں فارس قدیم کے افسانوی شہرت کے حامل بادشاہ انوشیروان (نوشیروان عادل) کے اس جواب میں ملاحظہ کریں جو اس نے رومی حکمران کو دیا تھا۔

انوشیروان نے لکھا کہ ’از صلح بیزارم و جنگ را آراستہ باش‘ یعنی مجھے صلح (امن) سے نفرت ہے اور میں جنگ کے لیے تیار ہوں۔

اس سے پہلے کہ ہم مزید آگے بڑھیں اس لڑائی جھگڑے اور صلح صفائی کی رعایت سے افتخار عارف کا ایک خوبصورت شعر ملاحظہ کریں:

زمانہ ہوگیا خود سے مجھے لڑتے جھگڑتے
میں اپنے آپ سے اب صلح کرنا چاہتا ہوں

افتخار عارف سے یاد آیا کہ گزشتہ دنوں ہمارے بزرگ شاعر بیمار تھے۔ یوں تو اب وہ روبہ صحت ہیں مگر پیرانہ سالی خود ایک آزار ہے۔ اس ’آزار‘ کا ذکر کسی اور نشست کے لیے اٹھا رکھتے ہیں فی الوقت ’بیمار‘ کی بات کرتے ہیں۔

فارسی سے اردو میں آنے اور رچ بس جانے والا لفظ ’بیمار‘ درحقیقت دو الفاظ کا مرکب ہے۔ ’فرہنگِ نظام‘ کے مؤلف سید محمد علی کی رائے پیش نظر رکھی جائے تو اس لفظ کا جُز اول ’بے‘ قرار پاتا ہے جو اکثر تراکیب میں کلمۂ نفی کے طور پر برتا جاتا ہے جیسے ’بے اثر، بے تحاشا، بے وقت‘ وغیرہ۔ جبکہ جُز ثانی ’مار‘ کا مطلب ’صحت و شِفا‘ کے ہیں۔ یوں ’بیمار‘ کے معنیٰ ناتندرست، علیل و مریض قرار پاتے ہیں۔

’بیمار‘ کے باب میں یوں تو ’فرہنگ نظام‘ کی بات وزنی معلوم ہوتی ہے مگر ’لغت نامہ دہخدا‘ کے مؤلف علی اکبر دہخدا نے ’بیمار‘ کے حوالے سے ایک دوسری رائے بھی پیش کی ہے جو لائق التفات ہے۔

دہخدا نے ’بہارعجم‘ کے حوالے سے جو کچھ درج کیا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ’بیمار‘ جن دو الفاظ کا مرکب ہے وہ بالتریب ’بیم‘ اور ’آر‘ ہیں۔ اس میں ’بیم‘ کے معنیٰ ’خوف اور ڈر‘ کے ہیں اسے تراکیب ’بیم و رجا‘ اور ’امید و بیم‘ میں دیکھا جا سکتا ہے۔ جبکہ ’آر‘ کلمہ نسبتی ہے جسے آپ خریدار (خرید-آر) میں بھی دیکھ سکتے ہیں۔ یوں جس طرح خریدار کے معنیٰ ’خریدنے والا‘ کے ہیں ایسے ہی ’بیمار‘ اس شخص کو کہتے ہیں جسے ’خوف لاحق‘ ہو۔

یہاں سوال کیا جاسکتا ہے کہ ’علیل‘ شخص کو ایسا کیا خوف ہوتا کہ اسے ’بیمار‘ کا نام دیا گیا ہے؟ تو عرض ہے کہ ’خوفزدہ‘ کے معنیٰ کے ساتھ لفظ ’بیمار‘ اپنے قدیم تر ہونے کا پتا دیتا ہے۔ وہ یوں کہ آج کے زمانے سے ہزاروں سال قبل جب علاج معالجہ کی سہولیات محدود و مفقود تھیں، کسی کو مرض لاحق ہونے کا دوسرا مطلب یقینی موت ہوتا تھا۔ ایسے میں جو شخص علیل ہوتا اسے موت کا ڈر کھائے جاتا اور یوں وہ اپنی اس کیفیت کی رعایت سے ’بیمار‘ کہلاتا۔ اب زیرِ بحث لفظ کی نسبت سے ساحر لدھیانوی کا شعر ملاحظہ کریں:

اس رینگتی حیات کا کب تک اٹھائیں بار
بیمار اب الجھنے لگے ہیں طبیب سے

اگر شعر مذکور میں ’بیمار‘ و ’طبیب‘ کو استعارہ سمجھا جائے تو بات ایک بار پھر قومی منظر تک پہنچ جاتی ہے جہاں ملک، معیشت اور معاشرت بیماری سے نڈھال ہیں اور طبیب، بیمار کے حق میں حبیب کے بجائے رقیب ثابت ہو رہا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں