کیا میرؔ شراب تونے پی ہے
بیہودہ یہ گفتگو جو کی ہے

میرؔ بھی کیا سادہ ہیں کہ بیہودہ گوئی کے یقین کے باوجود یہ تعین نہیں کرسکے کہ بدکلامی بسببِ بادہ نوشی ہے یا بے وجہ ہی مقطع میں آ پڑی سخن گسترانہ بات۔ اس قضیے میں خود خدائے سخن کس نتیجے پر پہنچے اس کا ذکر انہوں نے نہیں کیا، البتہ جس بات کا ذکر ہمیں مطلوب ہے وہ زیرِ بحث شعر میں وارد الفاظ ’میر اور شراب‘ ہیں۔

لفظ ’میر‘ کی بات کریں تو آپ اسے پاک و ہند ہی نہیں ایران و توران میں بھی اکثر ناموں کا جُز پائیں گے اور اگر گردشِ ایام کو پیچھے کی طرف دوڑائیں گے تو عہد اسلامی کے ہندوستان میں چھوٹے بڑے کتنے ہی سرکاری مناصب ’میر‘ سے مزّین نظر آئیں گے۔

اس لفظ کے نام یا منصب میں استعمال کی وجہ جاننے سے قبل یہ سمجھ لیں کہ ’میر‘ دراصل لفظ ’امیر‘ کی تخفیف ہے۔ عربی الاصل ’امیر‘ کے معنی میں بادشاہ و حکام کی رعایت سے صاحب اقتدار و اختیار داخل ہیں۔ جبکہ اس ’امیر‘ کی جمع ’امرا‘ ہے اور جس کا امر (حکم) ان ’امرا‘ پر بھی چلتا ہو اسے ’امیرالامرا‘ کہا جاتا ہے جبکہ یہی ’امیرالامرا‘ بالفاظ دیگر ’میرمیراں‘ کہلاتا ہے۔ یوں اس کا معنوی پہلو شاہِ شاہان (شہنشاہ)، ملک الملوک اور خانِ خانان سے جا ملتا ہے۔

یوں تو ’میر‘ ایک کثیرالمعنی لفظ ہے، تاہم سردست اس لفظ کا جائزہ شخصی اسما اور مختلف مناصب کا جُز ہونے کی حیثیت سے لیا جائے گا۔ اس وضاحت کے ساتھ اول یہ سمجھ لیں کہ لفظ ’امیر‘ کی تخفیف ہونے کی رعایت سے ’میر‘ میں وہ تمام تلازمے، استعارے اور مفاہیم سمائے ہوئے ہیں جو ’امیر‘ سے وابستہ ہیں۔ چونکہ ’میر‘ کے معنی میں بادشاہ، سلطان، حاکم اور خلیفہ داخل ہیں سو اس رعایت سے سربراہ قوم اور سردار قبیلہ بھی ’میر‘ کہلاتے ہیں۔

نام کے ساتھ ’میر‘ کی وابستگی کا ایک پہلو یہی نہیں ہے کہ یہ ’امیر‘ کی تخفیف ہے بلکہ غالب صورتوں میں یہ ’امیرزادہ‘ یعنی اولادِ امیر کی تخفیفی صورت بھی ہے۔ وہ یوں کہ اول ’امیرزادہ‘ کثرت استعمال سے میرزا ہوا (جسے مرزا بھی لکھا جاتا ہے) پھر مزید سمٹ کر ’میر‘ رہ گیا۔

پرانے زمانے میں بادشاہ، حاکم، سلطان بھی میر کہلاتے تھے
پرانے زمانے میں بادشاہ، حاکم، سلطان بھی میر کہلاتے تھے

’میر‘ سادات کا اعزازی لقب بھی ہے، یہی سبب ہے کہ کتنے ہی سادات نام کے ساتھ بجائے ’سید‘ کے ’میر‘ لکھتے ہیں مثلاً علامہ اقبال کے استاد ’مولوی میر حسن‘ کہ جن کی اعلیٰ نسبی اور اُن سے اپنے تعلق خاطر کا اظہار شاعر مشرق نے ان الفاظ میں کیا ہے۔

وہ شمع بارگہِ خاندانِ مرتضوی
رہے گا مثلِ حرم، جس کا آستاں مجھ کو
نفس سے جس کے کھلی میری آرزو کی کلی
بنایا جس کی مروت نے نکتہ داں مجھ کو

دوسری جانب ’ترکان تیموری‘ اپنے جدِامجد امیر تیمور کی نسبت سے امیرزادہ کہلاتے اور نام کے ساتھ ’میرزا اور میر‘ لکھتے ہیں۔

اگر بلوچ اور سندھی قبائلیوں کے ناموں پر غور کریں تو آپ ’میر ہزار خان‘ سے ’میر مرتضیٰ‘ تک کتنے ہی ناموں میں ’میر‘ موجود پائیں گے، یہی وجہ ہے کہ نام کے ساتھ ’میر‘ لکھنے والے سربراہ قوم یا سردار قبیلہ کی نسبت سے یہ لقب اختیار کیے ہوئے ہیں۔

صدرِ مجلس اور محفل میں مسند نشین کو بھی ’میر‘ کہا جاتا ہے۔ چونکہ ’میر‘ کے معنی میں برتری کا پہلو نمایاں ہے سو اس رعایت سے’امام، پیشوا، ہادی، رہنما اور پیشوائے دین بھی ’میر‘ کی تعریف میں داخل ہے۔ دیکھیں علامہ اقبال کیا کہہ رہے ہیں،

سالارِ کارواں ہے میرِ حجازؐ اپنا
اس نام سے ہے باقی آرامِ جاں ہمارا

چونکہ ’میر‘ اپنے مفہوم میں اختیار و اقتدار کا مفہوم لیے ہوئے ہے، سو اس رعایت ہر سطح کے عہدیدار کے منصب کے ساتھ ’میر‘ کا سابقہ اس کے دائرہِ اختیار کا اعلان کررہا ہوتا ہے۔

ہندوستان میں مغل سلطنت اور اس سے ماقبل قائم ہونے والی مسلم حکومتوں میں ہر طرح کے چھوٹے بڑے عہدوں اور مناصب کے لیے جو اصطلاحات وضع کی گئیں ان میں ’میر‘ کا سابقہ عام نظر آتا ہے۔ اس حوالے سے اگر صرف فوج اور اس کے متعلقات پر نظر ڈالیں تو درج ذیل دلچسپ تراکیب سے سامنا ہوتا ہے۔

سپہ سالار اگر ’مِیر لَشکَر، مِیرِ عَسْکَر، مِیر سِپاہ اور مِیر تُزَُک‘ ہے تو اس سپہ میں دس ہزار سپاہیوں کا افسر’مِیر تُمَن’، ایک ہزار سپاہیوں کا سردار ’مِیرہَزارَہ‘، سو آدمیوں کا افسر ’مِیرِ صَد‘ اور دس سپاہیوں کا سردار’مِیردَہ/دَھ’ کہلاتا ہے۔

مسلم حکومتوں میں سپہ سالاروں کے نام کے ساتھ میر میں بطور سابقہ نظر آتا تھا
مسلم حکومتوں میں سپہ سالاروں کے نام کے ساتھ میر میں بطور سابقہ نظر آتا تھا

تلوار کے دھنی کو ’مِیر سَیّاف، بہادر کو‘مِیر مَیدان’ اور اسلحہ خانے کے داروغہ یا توپ خانے کے افسر کو ’مِیر آتَِش‘ کہا جاتا ہے جبکہ اس فوج میں تنخواہ کی تقسیم پر مامور افسر ’مِیر بَخشی‘ کہلاتا ہے۔

پھر قافلے یا کارواں کا سردار اگر ’مِیر قافِلَہ‘ اور ’مِیر کارواں‘ ہے تو قافلے یا لشکرکے آگے چلنے اور اگلی پڑاؤ کا انتظام کرنے والا ’مِیر مَنزِل‘ ہے۔ نیز شاہی علم بردار ’مِیرِعَلَم‘ اور ’مِیر لِوا‘ ہے تو رات کو گشت کرنے والی فوج کا افسر ’مِیرِ طَلایَہ‘ ہے۔ جب کہ شاہی اصطبل اور چراگاہ کا نگران ’مِیر آخُور‘ کہلاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ فوج کے قیام و طعام کا انتظام بھی ضروری ہے، سو اس انتظام کا ذمہ دار ’مِیر مَطبَخ، مِیر سامان، مِیر خانساماں اور مِیر بَُکاوَُل‘ کے سے القاب سے یاد کیا جاتا ہے۔

’میر‘ کے اس طولانی تذکرے کے بعد اب ’شراب‘ کی بات کرتے کہ چُھٹتی نہیں ہے منہ سے کافر لگی ہوئی۔

اہلِ فارس فارمیسی کو کیا کہتے ہیں؟
اہلِ فارس فارمیسی کو کیا کہتے ہیں؟

لفظی معنی کے اعتبار سے ہر وہ چیز جو پی جائے ’شراب‘ کی تعریف میں داخل ہے۔ تاہم اہل ایران نے نشہ آور محلول کو ’پینے کی چیز‘ یعنی ’شراب‘ کا نام دےکر اس کی قباحت پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی۔ نیز اسے ’دارو‘ پکارنا بھی اسی کوشش کو تسلسل ہے، جب کہ فارسی میں ’دارو‘ کے لفظی معنی ’دوا‘ کے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اہل فارس فارمیسی (Pharmacy) کو ’داروکدہ‘ اور ’دارو خانہ‘ پکارتے ہیں اور اسی رعایت اردو میں ’دوا دارو‘ کی ترکیب عام رائج ہے۔ علامہ اقبال نے بھی اس لفظ کو اس کے ٹھیٹھ معنی میں برتا ہے،

لا دینی و لاطینی، کس پیچ میں اُلجھا تُو
داَرو ہے ضعیفوں کا ’لَاغَالِبَ اِلّاَ ھُوْ‘

اہلِ ایران شراب کو ’بادہ‘ بھی کہتے ہیں۔ ’بادہ نوش، بادہ خوار اور بادہ پرست‘ کی سی تراکیب اسی جانب اشارہ کرتی ہیں۔ شراب یا مے کو ’بادہ‘ پکارنے کی وجہ یہ ہے کہ اسے منہ لگانے والا اپنے آپ میں نہیں رہتا گویا اس کے دماغ میں باد (ہوا) سما جاتی ہے اور وہ ہواؤں میں اڑنے لگتا ہے، (اسی اڑنے اڑانے کی نسبت سے پنجابی میں ’نشئی‘ کو ’جہاز‘ کہتے ہیں کہ یہاں وہاں ڈولتا پھرتا ہے) اسی ’باد‘ کی رعایت سے شراب کو ’بادہ‘ کہا گیا ہے۔ دیکھیں میرزا غالب کیا کہہ رہے ہیں۔

یہ مسائل تصوف یہ ترا بیان غالبؔ
تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں