نیویارک سے تعلق رکھنے والی ایک امیر کاروباری شخصیت ڈونلڈ ٹرمپ نے سابق سیکریٹری آف اسٹیٹ ہیلری کلینٹن کو اپ سیٹ شکست دینے کے بعد 20 جنوری 2017 کو امریکا کے 45 ویں صدر کی حیثیت سے وائٹ ہاؤس میں پہلی مرتبہ اپنا منصب سنبھالا۔

گوکہ انہیں حکومت کا کوئی تجربہ نہیں تھا اور ان برسوں میں مقابلہ حسن اور ٹیلی ویژن میں رئیلٹی شوز میں شریک ہو رہے تھے اور اس کے ساتھ ہی وہ پراپرٹی کا کاروبار کھڑا کرچکے تھے۔

علاوہ ازیں ڈونلڈ ٹرمپ 70 برس کی عمر میں صدارت سنبھال کر امریکا کی تاریخ کے سب سے بڑی عمر کے صدر بن گئے تھے۔

انہوں نے اپنی غیر متوقع عروج کے دوران سیاسی پنڈتوں اور مبصرین کو غلط ثابت کیا۔

ری پبلکن پارٹی کی تمام سینئر قیادت کی مخالفت کے باوجود انہوں نے پارٹی کے اندر درجن بھر مزید بہتر اور زیادہ تجربہ کار حریفوں کو مات دی۔

ٹرمپ نے 2016 کے انتخابات میں ہیلری کلینٹن کو اپ سیٹ شکست دی —فائل/فوٹو: اے ایف پی
ٹرمپ نے 2016 کے انتخابات میں ہیلری کلینٹن کو اپ سیٹ شکست دی —فائل/فوٹو: اے ایف پی

انہوں نے پاپولسٹ لہر کی ناراضی کو پچھاڑتے ہوئے فلوریڈا سے اوہایو تک فیصلہ کن ریاستوں میں اعصاب شکن مقابلے میں ہیلری کلینٹن کو شکست دے کر امریکا اور دنیا کو دنگ کردیا تھا۔

صدر منتخب ہونے کے بعد انہوں نے وعدہ کیا کہ ‘میں تمام امریکیوں کا صدر ہوں گا’ تاہم انہیں ‘بدترین تقسیم کا باعث بننے والا’ قرار دیا جارہا ہے۔

رواں برس کے اوائل میں انہوں نے امریکی سینیٹ میں اپنے خلاف آنے والی عدم اعتماد کی تحریکوں میں کامیابی حاصل کی حالانکہ ٹرائل کا سامنا کرنے والے امریکی تاریخ کے تیسرے صدر بننے کے بہت قریب پہنچ چکے تھے، جس کے بعد شہریوں کے رویوں کا امتحان لیتے ہوئے وائٹ ہاؤس کے لیے 2020 کی دوڑ کو ہنگامہ خیز بنادیا۔

ٹرمپ نے نائب صدر مائیک پینس کو 2020 کے صدارتی انتخاب میں بھی اپنا نائب برقرار رکھا اور کہا کہ ‘یہ میرا آدمی اور میرا دوست ہے’۔

امیگریشن

ٹرمپ کی 2016 کی کامیابی کا مرکزی نکتہ غیرقانونی تارکین وطن کے خلاف کارروائی تھا اور وہ وائٹ ہاؤس تک پہنچنے کے لیے ترتیب دیے گئے اپنے اس ایجنڈے پر بدستور قائم رہے۔

وبا کے دوران امیگریشن کو محدود کردیا: ٹرمپ نے اپریل میں امریکا کے لیے تمام امیگریشن کو معطل کردیا اور کہا کہ وہ امریکی ورک فورس کے تحفظ کے لیے یہ سب کر ر ہے ہیں۔

ڈی اے سی کا خاتمہ: انہوں نے 2017 میں ڈی اے سی اے پروگرام کو ختم کردیا تاہم بغیر دستاویزات کے مقیم ان 7 لاکھ تارکین وطن کو تحفظ دیا جاسکے جنہیں بچپن میں امریکا لایا گیا تھا جبکہ امریکی سپریم کورٹ نے اس معطلی کو مسترد کردیا تھا۔

امریکا-میکسیکو سرحدی دیوار: ٹرمپ نے امریکا-میکسیکو سرحد پر ایک دیوار تعمیر کرنے کی اجازت دی، جس کے بارے میں ان کا مؤقف تھا کہ غیر قانونی طور پر داخل ہونے والے شہریوں کو روکنے کے لیے یہ طریقہ اہم ہے۔

‘زیرو ٹالرینس’ پالیسی: غیر قانونی طور پر سرحد عبور کرنے والے افراد کے خلاف قانونی کارروائی کے لیے ان کی 2018 کی ‘زیرو ٹالرینس’ پالیسی سے ہزاروں بچوں کو جبری طور پر والدین سے جدا کیا گیا اور قانونی سرپرستوں کو میکسکو کی سرحد پر قید میں ڈال دیا گیا۔

سخت ردعمل کے بعد اس پالیسی کے خاتمے کے لیے ٹرمپ کو ایک ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کرنے پڑے تاہم امریکین سول لیبرٹیز یونین (اے سی ایل یو) کا کہنا ہے کہ وکلا اب بھی 545 بچوں کے والدین کی تلاش کی کوششیں کررہے ہیں۔

پاک-امریکا تعلقات

ڈونلڈ ٹرمپ، پاکستان کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے 2018 کے اوائل میں دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی بنیاد ‘جھوٹ اور دھوکے کے سوا کچھ نہیں’ اور دفاعی امداد ختم کرنے سے لے کر رواں برس کے آغاز میں ‘پاکستان کے ساتھ اس طرح کی قربت کبھی نہیں رہی’ جیسے متضاد بیانات دیتے رہے۔

انہوں نے وزیراعظم عمران خان کو اپنا ‘دوست’ بھی قرار دیا، عمران خان کی جانب سے 2018 میں وزارت عظمیٰ سنبھالنے کے بعد دونوں عالمی رہنماؤں کے درمیان 3 ملاقاتیں ہوئیں۔

—فوٹو: فلوٹس آن ٹوئٹر
—فوٹو: فلوٹس آن ٹوئٹر

ٹرمپ نے کورونا وائرس سے پیدا ہونے والے بحران کے دوران پاکستان کو امداد کا یقین دلایا اور کہا کہ امریکا ‘وینٹی لیٹرز اور معاشی امداد’ فراہم کرے گا۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے تاحال پاکستان کا دورہ نہیں کیا حالانکہ رواں برس کے اوائل میں پڑوسی ملک بھارت آئے تھے اور 25 فروری کو بھارتی شہر احمد آباد میں ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ امریکا کے پاکستان کے ساتھ ‘بہت اچھے تعلقات’ ہیں اور اُمید ہے کہ خطے میں کشیدگی کم ہوگی۔

انہوں نے دونوں ممالک کی قیادت سے اچھے تعلقات کا حوالہ دیتے ہوئے ایک مرتبہ پھر کشمیر کے تنازع میں ثالثی کی پیش کش کی تھی۔

اسلاموفوبیا

صدارتی دفتر میں اپنے پہلے مہینے کے دوران جنوری 2017 میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سات مسلم اکثریتی ممالک کے شہریوں پر امریکا میں داخلے پر پابندی عائد کردی تھی، ان پابندیوں کو متعدد بار عدالت میں چیلنج کیا گیا جس کے باعث اس میں تبدیلی کی گئی اور پابندی والے ممالک کی فہرست میں شمالی کوریا اور وینزویلا کو بھی شامل کر لیا گیا۔

امریکی میڈیا نے پابندی کے حکم کو ’مسلمانوں پر پابندی‘ کے طور پر پیش کیا کیونکہ ماضی میں ڈونلڈ ٹرمپ امریکا میں مسلمانوں کے داخلے پر عارضی پابندی کا مطالبہ کر چکے تھے، انہوں نے زور دیا تھا کہ یہ پابندیاں امریکی شہریوں کو مستقبل میں دہشت گرد حملوں سے بچانے کے لیے ضروری ہیں۔

ان کے حریف جو بائیڈن نے ڈونلڈ ٹرمپ پر ان کے الفاظ، پالیسیوں، تعیناتیوں اور اعمال کے ذریعے ملک میں نفرت کی آگ کو ہوا دینے کا الزام عائد کیا اور عزم ظاہر کیا کہ وہ عہدہ سنبھالنے کے پہلے روز ہی ’مسلمانوں پر پابندی‘ کو ختم کر دیں گے۔

افغان جنگ

ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ وہ امریکا کی طویل ترین جنگ کے خاتمے کے لیے افغانستان سے فوجیوں کا مکمل انخلا چاہتے ہیں اور حال ہی میں اعلان کیا تھا کہ کرسمس تک تمام امریکی فوجی واپس ملک میں ہوں گے۔

فروری میں ٹرمپ انتظامیہ نے طالبان کے ساتھ افغانستان سے مرحلہ وار امریکی فوجیوں کے انخلا کا معاہدہ کیا تھا، اگست میں ایک انٹرویو کے دوران ان کا کہنا تھا کہ انہیں اُمید ہے کہ 3 نومبر یعنی انتخاب والے دن تک افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد 5 ہزار سے کم رہ جائے گی۔

انہوں نے مشرق وسطیٰ، بالخصوص 2003 میں عراق میں امریکا کی فوجی مداخلت سے حاصل ہونے والے فوائد سے متعلق بھی سوال اٹھایا، تاہم خطے سے فوجیوں کے انخلا کے بعد ایران کے ساتھ تناؤ بڑھنے کی وجہ سے انہوں نے مزید فوجی دستے بھیج دیے تھے۔

فلسطین۔اسرائیل

ڈونلڈ ٹرمپ نے خود کو تاریخ میں سب سے زیادہ اسرائیل کے حامی صدر کے طور پر پیش کیا۔

2017 میں انہوں نے متنازع شہر یروشلم کو اسرائیل کے دارالحکومت کے طور پر تسلیم کیا اور تل ابیب سے امریکی سفارتخانہ یروشلم منتقل کرنے کا اعلان کیا، رواں سال کے اوائل میں ڈونلڈ ٹرمپ، مشرق وسطیٰ میں امن کے لیے تفصیلی منصوبہ سامنے لائے جس کے مطابق یروشلم، اسرائیل کا غیر منقسم دارالحکومت ہوگا جبکہ فلسطینیوں کا دارالحکومت مشرقی یروشلم میں ہوگا، ان کے دور صدارت کے دوران امریکا نے گولان کی پہاڑیوں کو بھی اسرائیل کے حصے کے طور پر تسلیم کیا اور عالمی سطح پر ایسا کرنے والا پہلا ملک بن گیا۔

— فائل فوٹو / اے ایف پی
— فائل فوٹو / اے ایف پی

امریکی صدر نے اسرائیل اور خلیجی ممالک کے درمیان تعلقات معمول پر لانے کے لیے بھی کوششیں کیں، اگست میں انہوں نے انکشاف کیا کہ اسرائیل اور متحدہ عرب امارات (یو اے اسی) نے امریکا کی ثالثی میں امن معاہدہ کر لیا ہے۔

اگلے ماہ انہوں نے اسرائیل اور بحرین کے درمیان امن معاہدے کا اعلان کیا، دونوں ممالک نے بعد ازاں وائٹ ہاؤس میں ایک تقریب کے دوران اسرائیل کے ساتھ معاہدوں کو باضابطہ شکل دی۔

رواں ماہ کے اوائل میں اسرائیل اور سوڈان نے بھی امریکا کی معاونت سے تعلقات معمول پر لانے پر اتفاق کیا۔

موسمیاتی تبدیلی

اپنے دفتر میں پہلے سال میں ڈونلڈ ٹرمپ نے فضا میں کاربن کے اخراج کو کم کرکے گلوبل وارمنگ اور آلودگی کے خلاف لڑنے کے لیے لگ بھگ 200 ممالک کی جانب سے کیے گئے 2015 کے پیرس معاہدے سے امریکا کو نکالنے کے عمل کا آغاز کیا۔

غیر ملکی خبر ایجنسی ’رائٹر‘ کے مطابق انہوں نے موسم کے حوالے سے سائنس کو رد کرتے ہوئے اپریل میں کہا کہ ’ہماری کاربن، ہمارا ماحول اور ماحولیاتی صفائی سے متعلق اس وقت سب سے بہترین موقع پر ہمارے غلط دعوے ہیں‘۔

— انفوگرام: اسٹیٹسا ڈاٹ کام
— انفوگرام: اسٹیٹسا ڈاٹ کام

انہوں نے اپنی انتخابی مہم سے متعلق ویب سائٹ پر موسم کے حوالے سے منصوبہ بھی نہیں ڈالا لیکن توانائی اور ماحول کے سیکشن میں اوباما دور کے ضوابط کی منسوخی پر روشنی ڈالی، جس میں ان کی انتظامیہ کی طرف سے میتھین، کوئلوں کے پلانٹس سے زہریلے پانی کے اخراج اور کلین کار رولز کے ضوابط شامل ہیں۔

تجارت اور شرح

اپنی 2016 کی صدارتی مہم میں ڈونلڈ ٹرمپ نے ووٹرز کو بتایا تھا کہ وہ مقامی مینوفیکچرنگ کو فروغ دینا چاہتے ہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی ویب سائٹ کے مطابق انہوں نے قومی سلامتی کے تحفظ اور گھریلو صنعتوں کو مستحکم کرنے کے لیے اسٹیل کی درآمد پر 25 فیصد اور عالمی سطح پر ایلومینیم کی درآمدات پر 10 فیصد کا اضافہ کیا۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکا ٹرانس پیسیفک پارٹنرشپ سے دستبردار کرایا جسے انہوں نے 'قاتل جاب' قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی تھی اور کینیڈا اور میکسیکو کے ساتھ شمالی امریکا کے تجارتی معاہدے پر دوبارہ بات چیت کی۔

امریکی صدر اور چینی نائب وزیراعظم نے معاہدے پر دستخط کیے—فوٹو: اے ایف پی
امریکی صدر اور چینی نائب وزیراعظم نے معاہدے پر دستخط کیے—فوٹو: اے ایف پی

ٹرمپ نے دو بڑے تجارتی معاہدوں پر دستخط کرنے پر غور کیا، کینیڈا اور میکسیکو کے ساتھ تازہ معاہدہ اور فیز ون کے تحت چین کے ساتھ معاہدہ اور اس حوالے سے امریکا اور چین نے جنوری میں پہلے مرحلے پر دستخط کیے۔

ٹرمپ کا کہنا تھا کہ اس کے نتیجے میں چین نے امریکی زرعی مصنوعات، توانائی اور دیگر امریکی مصنوعات میں دو برس میں تقریباً 200 ارب ڈالر کی خریداری کی۔

اس کے بدلے میں امریکا نے چینی ساختہ اسمارٹ فونز، کھلونے اور لیپ ٹاپ کمپیوٹرز پر پہلے سے عائد محصولات منسوخ کردیے۔

امریکا نے چین کی دوسری درآمدات میں ٹیرف کی شرح میں 7.5 فیصد کٹوتی کی جو 120 ارب ڈالر بنتی ہے۔

چین اور روس

ٹرمپ انتظامیہ کے دور میں امریکا اور چین کے تعلقات حالیہ تاریخ کی نچلی سطح پر چلے گئے۔

ٹرمپ کا کہنا تھا کہ وہ دہائیوں میں بیجنگ کے ساتھ کھڑے ہونے والے پہلے صدر ہیں اور انہوں نے انتخابی مہم کے دوران اپنے سیاسی حریف جوبائیڈن پر چین کو راضی کرنے کا الزام لگایا تھا جب امریکا میں مینوفیکچرنگ کی ملازمت میں کمی واقع ہوئی تھی۔

- وبا کے خلاف ردعمل

ٹرمپ نے چین کی 'کورونا وائرس پر قابو پانے میں ناکامی' پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ بیجنگ وبا روک سکتا تھا۔

انہوں نے وبا کو 'چینی وائرس' بھی قرار دیا جس کے بعد انہیں نسل پرستانہ ہونے کی وجہ سے تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔

انہوں نے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن پر یہ الزام عائد کرتے ہوئے اس کی امداد کو بھی معطل کردیا تھا کہ وہ 'چین کی مرکزیت' میں ڈوب چکا ہے۔

تجارتی جنگ

ٹرمپ نے جنوری میں فیز ون کے تجارتی معاہدے تک پہنچنے سے پہلے چین کے ساتھ تجارتی جنگ کا آغاز کیا۔

اس کے بعد انہوں نے بیجنگ کے وبائی مرض سے نمٹنے پر ناخوشی کا اظہار کرتے ہوئے فیز 2 مذاکرات کا دروازہ بند کردیا۔

ٹرمپ کی ویب سائٹ کے مطابق ان کی انتظامیہ نے 'تقریبا 250 ارب ڈالر کی مصنوعات پر 25 فیصد ٹیرف لگا رکھے ہیں جن کی تائید چین کی غیر منصفانہ صنعتی پالیسیوں کے ذریعے کی جاتی ہے'۔

ٹرمپ نے اپنی خفیہ ایجنسیوں کی جانب سے 2016 کے امریکی صدارتی انتخابات میں ماسکو کی مداخلت کی تصدیق کے باوجود روسی صدر ولادیمیر پوٹن سے تعلقات برقرار رکھنے کی کوششیں کیں، باوجود اس خفیہ معلومات کے کہ روس نے افغانستان میں امریکی فوجیوں کی ہلاکت کے لیے خفیہ طور پر پیش کی تھی۔

کووڈ 19 پر ردعمل

امریکی صدر ہسپتال سے واپس آنے کے بعد ماسک اتاررہےہیں—فوٹواے ایف پی
امریکی صدر ہسپتال سے واپس آنے کے بعد ماسک اتاررہےہیں—فوٹواے ایف پی

موسم گرما کے دوران ٹرمپ یہ کرتے رہے کہ کورونا وبا 'بہتر ہونے سے پہلے بدتر ہوسکتی ہے' اس کے بعد وہ خود بھی کورونا وائرس کا شکار ہوگئے۔

انہوں نے اعتراف کیا کہ انہوں نے گزشتہ ماہ جاری ہونے والی آڈیو ریکارڈنگ میں وبائی امراض کے آغاز سے ہی کورونا وائرس کے مہلک خطرy کو کم کرنے کی کوشش کی تھی۔

کارنیل یونیورسٹی کے ایک مطالعے سے یہ بھی پتا چلا ہے کہ وبائی امراض کے دوران ٹرمپ، کووڈ 19 سے متعلق غلط معلومات پھیلانے میں دنیا میں سب سے زیادہ معروف رہے۔

انہوں نے وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے سماجی فاصلے سے متعلق ہدایات کو بار بار غلط قرار دیا۔

ٹرمپ نے تقریبات میں ماسک پہننے کے لیے پہلے صدارتی مباحثے کے دوران جوبائیڈن کا بھی مذاق اڑایا۔

آخری صدارتی مباحثے کے دوران ٹرمپ نے زور دے کر کہا کہ ایک ویکسین ممکنہ طور پر 'ہفتوں' بھر کی دوری پر ہے۔

انتظامیہ کے عہدیداروں سمیت زیادہ تر ماہرین نے کہا کہ 2021 کے وسط تک کسی ویکسین کے وسیع پیمانے پر دستیاب ہونے کا امکان نہیں ہے۔