افغانستان میں موجود تمام امریکی فوجی کرسمس تک اپنے گھروں پر ہونے چاہئیں، ٹرمپ

اپ ڈیٹ 09 اکتوبر 2020
امریکی فوج سال 2001 سے افغانستان میں ہے—فائل فوٹو: اے ایف پی
امریکی فوج سال 2001 سے افغانستان میں ہے—فائل فوٹو: اے ایف پی

واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکا کی سب سے طویل جنگ کو اختتام پذیر کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ افغانستان میں موجود تمام امریکی فوجی کرسمس تک اپنے گھروں پر ہونے چاہئیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق امریکی صدر کے جاری کردہ اس بیان کو طالبان کی جانب سے سراہا گیا اور کہا گیا کہ یہ امریکا-طالبان امن معاہدے کے نفاذ کی طرف ایک ’بہت مثبت قدم‘ ہے۔

نائب صدر کے مباحثے سے کچھ دیر قبل ڈونلڈ ٹرمپ نے ٹوئٹ کی، جس میں اعلان کیا گیا کہ ’ہمارے کچھ بہادر مرد اور خواتین افغانستان میں خدمات انجام دے رہے ہیں انہیں کرسمس تک اپنے گھروں پر ہونا چاہیے‘۔

مزید یہ کہ کچھ گھنٹوں بعد ہی امریکی صدر کے ٹوئٹ پر طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے ردعمل دیا گیا، جس میں کہا گیا کہ ’صدر ٹرمپ نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں اعلان کیا ہے کہ اس سال کے آخر تک تمام امریکی فوجی دستوں کو افغانستان سے واپس بلا لیا جائے گا، امارات اسلامی اس اقدام کا خیر مقدم کرتی ہے اور اس عمل کو امریکا اور امارات اسلامی کے درمیان ہونے والے امن معاہدے کے نفاذ میں ایک بہت مثبت قدم سمجھتی ہے‘۔

یہ بھی پڑھیں: افغان امن معاہدہ ٹوٹنے کے قریب ہے، طالبان کا امریکا کو انتباہ

طالبان کے ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ ’امارات اسلامی معاہدے کے مواد کی پابند ہے اور امریکا سمیت دوسرے تمام ممالک کے ساتھ اچھے اور مثبت تعلقات قائم کرنے کی اُمید رکھتی ہے‘۔

اگرچہ امریکا اور اس کے اتحادیوں نے امارات اسلامی کو تسلیم نہیں کیا لیکن اس لیٹرہیڈ کاعنوان تھا ’امارات اسلامی افغانستان، دفتر ترجمان، کمیشن برائے ثقافتی امور‘۔

یہ امریکا کی جانب سے امارات اسلامی کی بحالی کو روکنے کی خواہش کی مکمل مخالفت کا اظہار ہے جو افغانستان میں امریکا کے حملے سے قبل موجود تھی۔

یہ بھی پڑھیں: افغان امن معاہدے کے اہم نکات

دوسری جانب امارات اسلامی کے حوالے سے کچھ امریکی میڈیا کی جانب سے زور دیا گیا جبکہ امریکی فوج کے افغانستان سے مکمل انخلا سے امریکا اور طالبان کے معاہدے اور دو دہائیوں تک جاری رہنے والی لڑائی کے خاتمے کو خطرے میں ڈلنے کا خدشہ ظاہر کیا۔

واضح رہے کہ افغانستان میں جاری جنگ میں2001 سے 2020 کے درمیان 3 ہزار 500 اتحادی مارے گئے، جن میں سے 2 ہزار 400 امریکی اور باقی نیٹو میں موجود دیگر اقوام کے افراد تھے، مزید یہ کہ تقریباً 20 ہزار سے زائد امریکی اس 19 سال کی طویل جنگ میں زخمی ہوئے۔

اس کے علاوہ افغانستان میں جنگ جاری رکھنے کے لیے امریکا نے مجموعی طور پر 975 ارب ڈالر خرچ کیے۔

مزید یہ کہ طوالت اور نقصانات کی وجہ سے یہ جنگ امریکا کی تاریخ کی غیر مقبول ترین جنگ بن گئی ہے اور 2008 کے بعد سے ہر صدارتی امیدوار اس تنازع کو جلد از جلد ختم کرنے کا وعدہ کرتا رہا ہے۔

صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بارہا کئی مواقع پر یہ تجویز دی کہ وہ چاہتے ہیں کہ امریکی فوجیں جنگ زدہ ملک سے جلد از جلد واپس آجائیں۔

امریکی ویب سائٹ ایکسی اوز کو اگست میں دیے جانے والے ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا تھا کہ وہ 3 نومبر کے انتخابات تک افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد کم کرکے 5 ہزار تک کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

ادھر امریکی قومی سلامتی کے مشیر رابرٹ اوبراؤن نے نیواڈا میں ایک تقریب کے دوران کہا تھا کہ 2020 کے ابتدا میں امریکی فوج کی تعداد کم کرکے 2 ہزار 500 تک آدھی کردی جائے گی، جس کے کچھ گھنٹوں بعد صدر ٹرمپ نے ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے تمام امریکی فوجی دستوں کی واپسی کا اعلان کردیا۔

تاہم امریکی محکمہ دفاع کی جانب سے اب تک کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے مزید یہ کہ امریکی سینٹرل کمانڈ اور پینٹاگون سے اس بارے میں پوچھا تو انہوں نے یہ سوالات وائٹ ہاؤس سے پوچھنے کا کہہ دیا۔

یاد رہے کہ امریکا اور طالبان کے درمیان امن معاہدہ قطر کے شہر دوحہ میں ہوا تھا، جس میں یہ طے پایا تھا کہ سیکیورٹی ضمانت، افغان حکومت کے ساتھ عسکریت پسندوں کی مکمل جنگ بندی کے بدلے مئی 2021 تک تمام غیر ملکی فوجیں افغانستان سے نکل جائیں گی۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا اور افغان طالبان کے درمیان امن معاہدہ ہوگیا،14 ماہ میں غیر ملکی افواج کا انخلا ہوگا

امریکی میڈیا کے مبصرین نے خبردار کیا کہ صدر ٹرمپ کے اس منصوبے سے بین الاقوامی مذاکرات میں کابل کی پوزیشن کمزور جبکہ طالبان کی مضبوط ہوگی جو پہلے ہی اپنی برتری بنائے ہوئے ہیں۔

مبصرین کا مزید کہنا تھا کہ اگر صدر ٹرمپ 3 نومبر کے انتخابات ہار جاتے ہیں تو نئی حکومت ان کے افواج کے انخلا کے منصوبے پر نظر ثانی کرسکتی ہے۔

امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغانستان زلمے خلیل زاد نے ایوان نمائندگان کمیٹی کو بتایا کہ جب افغانستان میں فوجیوں کی تعداد ساڑھے 4 ہزار تک پہنچ جائے گی تب اس وقت وہاں امریکی فوج کی موجودگی کا حتمی جائزہ لیا جائے گا۔


یہ خبر 9 اکتوبر 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں