Dawnnews Television Logo

پاکستان کے اہم واقعات و معاملات جو سال بھر موضوع بحث رہے

سال 2022 کے دوران کئی ہنگامہ خیز واقعات رونما ہوئے اور ملکی سیاسی منظر نامے پر مختلف حالات و واقعات نے گہرے اثرات مرتب کیے۔
اپ ڈیٹ 02 جنوری 2023 02:06pm

سال 2022 کا سورج غروب ہونے کو ہے، یہ سال پاکستان کی سیاست میں کئی حوالوں سے طلاطم خیز رہا، اس دوران کئی ہنگامہ خیز واقعات رونما ہوئے اور ملکی سیاسی منظر نامے پر مختلف حالات و واقعات نے گہرے اثرات مرتب کیے۔

ختم ہونے والے سال میں جہاں ملکی سیاست میں کئی نشیب و فراز آئے وہیں ایسے واقعات بھی سامنے آئے جنہوں نے عوام کو کئی حوالوں سے سوچنے پر مجبور کردیا۔

ایسے ہی 10 بڑے حالات و واقعات کا خلاصہ ذیل میں پیش کیا جارہا ہے۔

ملکی تاریخ میں پہلی بار وزیراعظم کےخلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب

پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی اور عمران خان ملک کی تاریخ میں پہلی بار تحریک اعتماد کے نتیجے میں ایوان سے جانے پر مجبور ہوئے۔

13 جماعتی اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) پر مشتمل اپوزیشن نے مسلم لیگ (ق) اور پی ٹی آئی کے منحرف اراکین کے ساتھ ساتھ ایم کیو ایم (پاکستان) کے اراکین کی حمایت کی بدولت ایوان میں تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے لیے درکار اکثریت حاصل کر لی تھی اور 8 مارچ کو وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرائی تھی اور ساتھ ہی اسمبلی کے اجلاس کی ریکوزیشن بھی دے دی گئی تھی۔

تاہم صورتحال اس وقت ڈرامائی شکل اختیار کر گئی تھی جب اس سلسلے میں 3 اپریل کو پیش کی گئی تحریک عدم اعتماد ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری نے آئین و قانون کے منافی قرار دیتے ہوئے مسترد کردی تھی۔

بعدازاں صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے وزیراعظم عمران خان کی تجویز پر اسمبلی توڑ دی تھی لیکن یہ حکمت عملی اس وقت ناکامی سے دوچار ہوئی جب سپریم کورٹ نے اس معاملے پر ازخود نوٹس کا فیصلہ سناتے ہوئے 0-5 کی اکثریت سے قاسم سوری کی جانب سے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف لائی گئی تحریک عدم اعتماد کو مسترد کرنے کی رولنگ اور صدر مملکت کے قومی اسمبلی تحلیل کرنے کے فیصلے کو غیر آئینی قرار دے دیا تھا۔

اس کے علاوہ عدالت عظمیٰ نے قومی اسمبلی کو بحال کرتے ہوئے اسپیکر کو ایوان زیریں کا اجلاس 9 اپریل بروز ہفتہ صبح ساڑھے 10 بجے تک بلانے اور تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کرانے کی ہدایت کی تھی۔

9 اپریل کو ہنگامہ خیز دن کے بعد رات گئے بالآخر عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد منظور کرلی گئی تھی اور اسپیکر ایاز صادق کی زیر سربراہی اجلاس میں قومی اسمبلی کے 342 میں سے 174 اراکین نے تحریک عدم اعتماد کے حق میں ووٹ دیا تھا۔

12 اپریل کو انہی 174 اراکین کی حمایت سے مسلم لیگ (ن) کے رہنما شہباز شریف پاکستان کے 23ویں وزیراعظم منتخب ہوگئے تھے۔

سائفر: غیرملکی سازش یا من گھڑت کہانی

سال 2022 سے قبل عام قاری اور پاکستان کے عوام ’سائفر‘ کے لفظ سے بالکل انجان تھے لیکن پاکستان کے سیاسی منظر نامے میں 2022 میں یہ لفظ اتنا استعمال ہوا کہ ہر خاص و عام کو ازبر ہوگیا۔

رواں برس مارچ میں ایک جلسے کے دوران اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان نے اپنی جیب سے خط نکال کر دعویٰ کیا تھا کہ ان کے خلاف اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد ان کی خارجہ پالیسی کے سبب ’غیر ملکی سازش‘ کا نتیجہ تھی اور انہیں اقتدار سے ہٹانے کے لیے بیرون ملک سے فنڈز بھیجے گئے۔

یہ معاملہ اس وقت منظر عام پر آیا جب عمران خان نے کامیاب تحریک عدم اعتماد سے تقریباً دو ہفتوں قبل 27 مارچ کو ’امر بالمعروف‘ کے عنوان سے منعقدہ جلسے سے خطاب کرتے ہوئے اپوزیشن کی تحریک کو یکسر مختلف رنگ دیا اور ایک کاغذ لہراتے ہوئے دعویٰ کیا کہ اس خط (سائفر) میں ان کی حکومت کو گرانے کی تحریری طور پر دھمکی دی گئی تھی۔

یہ خط دراصل ایک سفارتی کیبل تھا جو امریکا میں پاکستان کے اُس وقت کے سفیر اسد مجید نے امریکا کے معاون وزیر خارجہ برائے جنوبی اور وسطی ایشیائی امور ڈونلڈ لو سے ملاقات کی بنیاد پر بھیجا تھا۔

ایک سینئر پاکستانی عہدیدار نے ڈان کو بتایا تھا کہ ملاقات میں امریکا کی جانب سے استعمال کی گئی زبان غیر معمولی طور پر سخت تھی۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ جب تک عمران خان دھمکی آمیز مراسلے کے ساتھ منظر عام پر نہیں آئے تھے، اس وقت تک امریکا اور پاکستان کے تعلقات میں ٹوٹ پھوٹ یا نئی کشیدگی کے کوئی آثار نہیں تھے۔

عمران خان نے ابتدائی طور پر دھمکی آمیز خط کے بارے میں کوئی خاص تفصیلات فراہم نہیں کی تھیں اور وہ ملک کا نام لینے سے بھی گریزاں تھے لیکن اس کے بعد ناقدین کی جانب سے ان کے دعوے پر شک کرنے کی وجہ سے تھوڑی تفصیلات دی تھیں، تاہم یہ معاملہ اس وقت مزید پیچیدہ ہو گیا تھا جب امریکا نے عمران خان کے اس دعوے کو یکسر مسترد کردیا تھا۔

بعد ازاں پی ٹی آئی حکومت نے اس سفارتی کیبل کو اپنا اقتدار ختم کرنے کی سازش قرار دیتے ہوئے اس پر قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بھی بلایا تھا۔

اجلاس میں مراسلے کو پاکستان کے معاملات میں ’کھلی مداخلت‘ قرار دیتے ہوئے اس کا سفارتی طور پر جواب دینے کا عزم ظاہر کیا گیا تھا۔

کامیاب تحریک عدم اعتماد کے بعد تحریک انصاف کا مسلسل یہی مؤقف رہا کہ ان کی حکومت کو غیر ملکی سازش اور امریکا کی ایما پر ختم کیا گیا لیکن وہ اس حوالے سے کوئی بھی ٹھوس ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہی۔

حکومت کی تبدیلی کے بعد وزیراعظم شہباز شریف کی سربراہی میں قومی سلامتی کمیٹی کا ایک اور اجلاس ہوا جس کے اعلامیے میں کہا گیا کہ قومی سلامتی کمیٹی کو اعلیٰ ترین سیکیورٹی ایجنسیوں نے دوبارہ مطلع کیا ہے کہ انہیں کسی سازش کا کوئی ثبوت نہیں ملا ہے، اجلاس کے دوران قومی سلامتی کمیٹی نے یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ کوئی غیر ملکی سازش نہیں ہوئی ہے۔

تاہم اس سلسلے میں صورتحال نے اس وقت ڈرامائی موڑ لیا تھا جب چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی ان کے سابق پرنسپل سیکریٹری اعظم خان کے ساتھ مبینہ امریکی سائفر کے حوالے سے گفتگو لیک ہوگئی تھی۔

اس مبینہ آڈیو میں عمران خان کو یہ کہتے سنا جاسکتا ہے کہ سائفر سے صرف کھیلنا ہے اور امریکا کا نام نہیں لینا بلکہ صرف کھیلنا ہے۔

28 ستمبر کو پہلی آڈیو لیک ہونے کے صرف ایک دن بعد 30 ستمبر کو اس حوالے سے دوسری مبینہ آڈیو لیک ہوئی تھی جس میں عمران خان کہتے ہیں کہ ’ہم نے تو امریکیوں کا نام لینا ہی نہیں ہے، کسی صورت میں، اس ایشو کے اوپر پلیز کسی کے منہ سے امریکا کا نام نہ نکلے، یہ بہت اہم ہے آپ سب کے لیے، کس ملک سے لیٹر آیا ہے، میں کسی کے منہ سے اس کا نام نہیں سننا چاہتا‘۔

5 اکتوبر کو حکومت نے سائفر سے متعلق سابق وزیر اعظم عمران خان کی آڈیو لیکس کے معاملے پر تحقیقات کے لیے وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کی انکوائری ٹیم تشکیل دے دی تھی اور اس حوالے سے عدالت میں بھی سماعت جاری ہے۔

اس معاملے کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ملکی تاریخ میں پہلی بار ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ندیم احمد انجم نے پریس کانفرنس سے خطاب کیا اور سائفر کو من گھڑت کہانی قرار دیا۔

ڈی جی آئی ایس آئی اور اس وقت کے ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ سائفر کے حوالے سے حال ہی میں کئی حقائق منظر عام پر آچکے ہیں جس نے اس کھوکھلی اور من گھڑت کہانی کو بے نقاب کر دیا ہے، پاکستانی سفیر کی رائے کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا۔

لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار نے کہا کہ 31 مارچ کے قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی، آئی ایس آئی نے بڑے واضح اور پیشہ ورانہ انداز میں قومی سلامتی کمیٹی کو بتا دیا تھا کہ حکومت کے خلاف کسی بھی قسم کی سازش کے کوئی شواہد نہیں ملے، کمیٹی کو بریفنگ دی گئی کہ یہ پاکستانی سفیر کا ذاتی تجزیہ ہے اور پاکستانی سفیر نے جو لائحہ عمل تجویز کیا تھا وہی لائحہ عمل قومی سلامتی کمیٹی نے دفتر خارجہ کو تجویز کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ آئی ایس آئی کی سائفر سے متعلق تحقیقات میں کسی بھی قسم کی سازش کے شواہد نہیں ملے اور یہ شواہد ریکارڈ کا حصہ ہیں، ہم شواہد کو قوم کے سامنے رکھنا چاہتے تھے تاہم یہ فیصلہ ہم نے اس وقت کی حکومت پر چھوڑ دیا کہ وہ آئی ایس آئی کی جانب سے کی گئی ان تحقیقات کو منظر عام پر لائے، لیکن ایسا نہیں کیا گیا بلکہ مزید افواہیں اور جھوٹی خبریں پھیلائی گئیں جس کا مقصد سیاسی فائدہ حاصل کرنا اور ایک مخصوص بیانیہ تشکیل دینا تھا کہ عدم اعتماد کی تحریک حکومت کے خلاف آئینی، قانونی اور سیاسی معاملے کے بجائے ’رجیم چینج آپریشن‘ کا حصہ تھی۔

انہوں نے کہا تھا کہ پھر اس حوالے سے امریکا کے دنیا بھر میں رجیم چینج آپریشن کے حوالے دیے گئے اور ان کو پاکستان میں حکومت کی تبدیلی سے جوڑ دیا گیا، پاکستان کے اداروں بالخصوص فوج کی قیادت کو نشانہ بنایا گیا اور ہر چیز کو غداری اور رجیم چینج آپریشن سے جوڑ دیا گیا۔

آرمی چیف کا تقرر

پاکستان کی تاریخ میں ہمیشہ سے ہی بری افواج کے سربراہ کا تقرر ایک اہم ترین معاملہ رہا ہے اور ماضی میں پیش آنے والے چند واقعات اس منصب کی اہمیت کا منہ بولتا ثبوت ہیں اور متعدد مواقع پر یہ تقرری کئی تنازعات کی منازل طے کرنے کے بعد ہی انجام کو پہنچی۔

تاہم ملکی تاریخ میں آرمی چیف کے تقرر کا معاملہ شاید کبھی اتنا پیچیدہ اور متنازع نہیں رہا جتنا سابق آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ اور ان کے جانشین کے تقرر کا معاملہ رہا۔

تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں اقتدار سے بے دخلی کے بعد عمران خان نے جہاں نئی اتحادی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا وہیں انہوں نے سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور چند اہم سینئر افسران پر سنگین الزامات بھی عائد کیے۔

چیئرمین پی ٹی آئی نے ابتدائی طور پر ’نیوٹرل‘ اور ’اسٹیبلشمنٹ‘ جیسے الفاظ کا استعمال کیا لیکن پھر وہ سابق آرمی چیف کی مخالفت میں کھل کر سامنے آگئے اور موجودہ حکومت کے اقتدار میں آنے کا سبب بھی انہی کو قرار دینے لگے۔

اس دوران یہ افواہیں گردش کرتی رہیں کہ حکومت، جنرل قمر جاوید باجوہ کو مدت ملازمت میں توسیع دینے پر غور کر رہی ہے اور یہ معاملہ اس حد تک طول پکڑا کہ سابق آرمی چیف کو متعدد مواقع پر خود دوٹوک الفاظ میں یہ واضح کرنا پڑا کہ وہ توسیع نہیں لینا چاہتے اور نومبر 2022 میں عہدے سے ریٹائر ہو جائیں گے۔

ابھی یہ تمام بازگشت جاری ہی تھی کہ سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کے لیے نرم گوشہ رکھنے والے عمران خان نے دعویٰ کردیا کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نئے انتخابات کی مخالفت کر رہے ہیں کیونکہ وہ کرپشن کے مقدمات میں اپنے آپ کو بچانے کے لیے نومبر میں ’اپنی مرضی کا آرمی چیف مقرر‘ کرنا چاہتے ہیں۔

ان تمام تر قیاس آرائیوں کا اختتام بالآخر اس وقت ہوا جب وزیراعظم کو آرمی چیف کے تقرر کے حوالے سے چھ سینئر فوجی افسران کی سمری موصول ہوئی اور 30 نومبر 2022 کو جنرل قمر باجوہ کی ریٹائرمنٹ کے ساتھ ہی سینئر ترین افسر جنرل عاصم منیر نئے آرمی چیف بن گئے۔

توشہ خانہ ریفرنس میں عمران خان نااہل

سال 2022 میں عمران خان کے ستارے مسلسل گردش میں رہے اور وزارت عظمیٰ سے ہٹائے جانے کے چند ماہ بعد ہی انہیں سیاسی بنیادوں پر اس وقت دھچکا لگا جب 21 اکتوبر کو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے توشہ خانہ ریفرنس میں انہیں نااہل قرار دے دیا۔

چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کی سربراہی میں 5 رکنی کمیشن نے متفقہ فیصلہ سناتے ہوئے کہا تھا کہ عمران خان کو جھوٹا بیان جمع کرانے پر آرٹیکل 63 (ون) (پی) کے تحت نااہل قرار دیا گیا ہے جہاں اس آرٹیکل کے مطابق وہ رکن فی الوقت نافذ العمل کسی قانون کے تحت مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) یا کسی صوبائی اسمبلی کا رکن منتخب کیے جانے یا چنے جانے کے لیے اہل نہیں ہوگا۔

الیکشن کمیشن نے اپنے فیصلے میں عمران خان کو عوامی نمائندگی کے لیے بھی نااہل قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ عمران خان نے اپنے مالی اثاثوں سے متعلق حقائق چھپائے اور حقیقت پر پردہ ڈالنے کے لیے جھوٹا بیان جمع کرایا، لہٰذا جھوٹ بولنے پر وہ عوامی نمائندگی کے اہل نہیں رہے۔

الیکشن کمیشن نے اپنے فیصلے میں عمران خان کے خلاف فوجداری کارروائی کرنے کی بھی سفارش کی اور انہیں قومی اسمبلی کی نشست سے ڈی سیٹ بھی کردیا تھا، تاہم عمران خان نے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا تھا۔

یاد رہے کہ سابق وزیراعظم عمران خان کی نااہلی کے لیے دائر کیا گیا توشہ خانہ ریفرنس حکمراں اتحاد کے 5 ارکان قومی اسمبلی کی درخواست پر اسپیکر قومی اسمبلی نے الیکشن کمیشن کو بھجوایا تھا۔

ریفرنس میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ عمران خان نے توشہ خانہ سے حاصل ہونے والے تحائف فروخت کرکے جو آمدن حاصل کی اسے اثاثوں میں ظاہر نہیں کیا۔

اپنے جواب میں عمران خان نے اعتراف کیا تھا کہ انہوں نے بطور وزیر اعظم اپنے دور میں 4 تحائف فروخت کیے تھے اور 2 کروڑ 16 لاکھ روپے کی ادائیگی کے بعد سرکاری خزانے سے تحائف کی فروخت سے تقریباً 5 کروڑ 80 لاکھ روپے حاصل کیے، ان تحائف میں ایک گھڑی، کفلنگز، ایک مہنگا قلم اور ایک انگوٹھی شامل تھی جبکہ دیگر 3 تحائف میں 4 رولیکس گھڑیاں شامل تھیں۔

بعد ازاں الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری تفصیلی فیصلے میں کہا گیا تھا کہ فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ بینک اکاؤنٹ میں موصول رقم تحائف کی متعین قیمت سے مطابقت نہیں رکھتی اور عمران خان نے دانستہ طور پر حقائق چھپائے۔

کمیشن نے تحریری فیصلے میں بتایا تھا کہ عمران خان کے مطابق تحائف 2 کروڑ 15 لاکھ 64 ہزار میں خریدے، جبکہ کابینہ ڈویژن کے مطابق تحائف کی مالیت 10 کروڑ 79 لاکھ 43 ہزار تھی۔

عمران خان کی جانب سے بیرسٹر علی ظفر نے 22 اکتوبر کو درخواست اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر کی جس میں الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی تھی جبکہ اس حوالے سے لاہور ہائی کورٹ میں بھی درخواست دائر کی گئی تھی جس پر عدالت عالیہ نے فل بینچ تشکیل دیا تھا اور ان دونوں مقدمات کا تاحال فیصلہ آنا باقی ہے۔

اس حوالے سے اکتوبر میں ہی اس وقت ایک اہم پیشرفت ہوئی تھی جب دبئی میں مقیم کاروباری شخصیت عمر فاروق ظہور نے دعویٰ کیا تھا کہ پی ٹی آئی حکومت نے سابق وزیر اعظم عمران خان کو سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی جانب سے تحفے میں دی گئی ایک مہنگی گھڑی 20 لاکھ ڈالر میں انہیں فروخت کی جس کی مالیت 2019 میں تقریباً 28 کروڑ روپے تھی۔

عمر فاروق ظہور نے نجی ٹی وی کو دیے گئے انٹرویو میں دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے دبئی میں فرح خان سے ملاقات کی اور ان نایاب اور قیمتی اشیا کی خریداری میں فوری دلچسپی ظاہر کی تھی، پی ٹی آئی اس گھڑی کو 40 سے 50 لاکھ ڈالر میں فروخت کرنا چاہتے تھی لیکن بات چیت کے بعد میں نے اسے 20 لاکھ ڈالر میں خرید لیا اور فرح خان کے اصرار پر ادائیگی نقد میں کی تھی۔

توشہ خانہ کے حوالے سے عمران خان کی سابق اہلیہ بشریٰ بی بی کی دو مبینہ آڈیو لیکس بھی منظر عام پر آئی تھیں جہاں پہلی آڈیو میں انہیں اور پی ٹی آئی رہنما زلفی بخاری کو سابق وزیر اعظم کے پاس موجود گھڑیوں کی فروخت کے بارے میں بات چیت کرتے ہوئے سنا جاسکتا ہے جبکہ دوسری آڈیو میں انہیں توشہ خانہ کے تحائف کی تصاویر لینے پر ملازم کو ڈانٹتے سنا جاسکتا ہے۔

ارشد شریف کا قتل

پاکستانی سیاست میں اتار چڑھاؤ سے بھرپور سال 2022 میں ایک اور اہم سانحہ اس وقت پیش آیا جب سینئر صحافی ارشد شریف کو 24 اکتوبر کو کینیا میں قتل کردیا گیا۔

کینیا کی مقامی نیوز ویب سائٹ ’دی اسٹار‘ کی رپورٹ کے مطابق پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ ارشد شریف اور ان کے ڈرائیور نے ناکہ بندی کی مبینہ خلاف ورزی کی جس پر پولیس کی جانب سے فائرنگ کی گئی اور سر میں گولی لگنے کی وجہ سے ارشد شریف موقع پر ہی جاں بحق ہوگئے جبکہ ان کے ڈرائیور زخمی ہوگئے۔

رپورٹس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ارشد شریف کی ہلاکت کا واقعہ پولیس کی جانب سے شناخت میں ’غلط فہمی‘ کے نتیجے میں پیش آیا۔

ارشد شریف کی بیوہ جویریہ صدیق نے ایک ٹوئٹ میں اپنے شوہر کی موت کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’آج میں نے اپنا دوست، شوہر اور پسندیدہ صحافی کھو دیا، پولیس نے بتایا ہے کہ ارشد شریف کو کینیا میں گولی مار کر قتل کر دیا گیا ہے‘۔

ڈان، پی ٹی وی سمیت متعدد اداروں سے بطور صحافی اور اینکر پرسن وابستہ رہنے والے ارشد شریف کی قتل سے تقریباً دو ماہ قبل نجی ادارے ’اے آر وائی نیوز‘ سے راہیں جدا ہوگئی تھیں جس سے وہ 8 سال تک بطور اینکر وابستہ رہے تھے۔

اس حوالے سے ’اے آر وائی نیوز‘ نے کوئی خاص وجہ کا حوالہ دیے بغیر اعلان کیا تھا کہ انہوں نے ارشد شریف سے ’راستے جدا‘ کرلیے ہیں اور توقع ظاہر کی تھی کہ سوشل میڈیا پر ان کے ملازمین کا رویہ ادارے کے قواعد کے مطابق ہوگا۔

ابتدائی تحقیقات کے مطابق ارشد شریف 20 اگست کو کینیا پہنچے تھے جہاں ان کے میزبانی دو بھائی خرم احمد اور وقار احمد کر رہے تھے جبکہ ارشد شریف کو جب گولیوں کا نشانہ بنایا گیا تو وہ خرم احمد کے ساتھ گاڑی میں موجود تھے۔

وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے کہا تھا کہ ارشد شریف کو ٹارگٹڈ حملے میں قتل کیا گیا جبکہ کئی ٹی وی چینل کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ جائے وقوع پر گاڑی روکنے کے دوران ارشد شریف کو تشدد کا نشانہ بنا کر قتل کیا گیا۔

میڈیا پر چلنے والی تصاویر میں ارشد شریف کی گاڑی میں مبینہ طور پر گولیوں کے نشانات دیکھے جا سکتے تھے جبکہ ارشد شریف کی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں ان کے جسم پر تشدد کے نشانات کا بھی ذکر تھا۔

چیئرمین تحریک انصاف عمران خان اور پی ٹی آئی کے دیگر رہنماؤں نے معروف صحافی کی ٹارگٹ کلنگ کی تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ ارشد شریف کو پہلے پاکستان اور پھر متحدہ عرب امارات بھی چھوڑنے پر مجبور کیا گیا جہاں وہ کینیا جانے سے قبل کچھ وقت کے لیے ٹھہرے تھے تاہم دفتر خارجہ نے ان دعوؤں کو مسترد کر دیا تھا۔

نومبر 2022 میں وزیراعظم شہباز شریف نے اعلان کیا تھا کہ معاملے کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن بنایا جائے گا اور بعد ازاں انہوں نے چیف جسٹس کو بھی اس حوالے سے خط لکھا تھا۔

ارشد شریف کی والدہ نے بھی 2 نومبر کو چیف جسٹس کو ایک خط لکھا تھا جس میں قتل کی تحقیقات کے لیے اعلیٰ اختیارات کے حامل عدالتی کمیشن کی تشکیل کی درخواست کی گئی تھی۔

چیئرمین تحریک انصاف نے سپریم کورٹ کو خط لکھ کر واقعے کا ازخود نوٹس لینے کا مطالبہ کیا تھا جس پر عدالت عظمیٰ نے واقعے کا ازخود نوٹس لیا تھا اور چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی زیر سربراہی لارجر بینچ نے واقعے کا مقدمہ درج کر کے جامع تحقیقات کا حکم دیا تھا۔

عدالت کے حکم پر مقدمہ درج کر لیا گیا تھا اور خصوصی تحقیقاتی ٹیم ان کے قتل کی تحقیقات کر رہی ہے۔

عمران خان کا آزادی مارچ

جب تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں عمران خان کو وزیر اعظم کے عہدے سے برطرف کیا گیا تو انہوں نے اپنی حکومت گرانے کا ذمے دار امریکی سازش کو قرار دیا اور کہا کہ مقامی کٹھ پتلیوں، میر جعفر، میر صادق، ہینڈلرز، نیوٹرلز نے سازش میں کردار ادا کیا۔

انہوں نے پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت کو ماننے سے انکار کرتے ہوئے اپنے حامیوں کو 25 مئی کو اسلام آباد پہنچنے کی کال دی اور انتخابات کی تاریخ کے اعلان تک وفاقی دارالحکومت کے ڈی چوک میں دھرنا دینے کا اعلان کیا۔

25 مئی کو عمران خان اور ان کے حامی اسلام آباد کے لیے روانہ ہوئے اور حکومت کی جانب سے حائل رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے وفاقی دارالحکومت پہنچ گئے، اس دوران قانون نافذ کرنے والے اداروں اور پی ٹی آئی کارکنان کے درمیان تصادم کے واقعات بھی رونما ہوئے، پی ٹی آئی رہنماؤں کی جانب سے دیے گئے اشتعال انگیز بیانات کو جواز بنا کر لانگ مارچ روکنے کے لیے حکومت سپریم کورٹ پہنچ گئی جس پر عمران خان کو اسلام آباد کے ڈی چوک آنے سے روکنے کی درخواست پر سپریم کورٹ نےایچ نائن کے سیکٹر اسلام آباد میں اجتماع کی مشروط اجازت دی۔

’حقیقی آزادی لانگ مارچ‘ اسلام آباد میں ڈی چوک کے قریب پہنچا جہاں عمران خان نے حکومت کے نام پیغام میں 6 روز میں انتخابات کا اعلان کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے لانگ مارچ ختم کردیا اور مطالبہ نہ ماننے کی صورت میں ساری قوم کو لے کر واپس اسلام آباد آنے کا عزم ظاہر کیا۔

بعد ازاں عمران خان نے 28 اکتوبرکو لاہور کے لبرٹی چوک سے اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ شروع کیا، پی ٹی آئی کا قافلہ 3 نومبر کو وزیر آباد پہنچا تو وہاں فائرنگ کی گئی جس میں عمران خان سمیت متعدد رہنما زخمی اور ایک شخص جاں بحق ہوگیا۔

پی ٹی آئی نے حملے کا الزام فوری طور پر وزیراعظم، وزیر داخلہ اور ایک اعلیٰ فوجی افسر پر عائد کرتے ہوئے انہیں ایف آئی آر درج میں نامزد کرنے کا مطالبہ کیا لیکن ان کی اپنی پارٹی کی حمایت سے بننے والے وزیر اعلیٰ کے ماتحت انتظامیہ نے اس مطالبہ کو ماننے سے انکار دیا، بعد ازاں سپریم کورٹ کی ہدایت پر نامعلوم ملزمان پر مقدمہ درج کیا گیا۔

حملے کے بعد بھی پارٹی کا مارچ جاری رہا 26 نومبر کو راولپنڈی میں لانگ مارچ سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے اسمبلیوں سے نکلنے کا اعلان کیا اور پھر 17 دسمبر کو پی ٹی آئی چیئرمین نے کہا کہ 23 دسمبر کو پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیاں تحلیل کر دیں گے۔

اس سے پہلے کہ پی ٹی آئی اسمبلی تحلیل کرتی، پنجاب کی اپوزیشن جماعتوں نے وزیر اعلیٰ کے خلاف تحریک اعتماد عدم جمع کرادی، ساتھ ہی گورنر پنجاب نے ان سے اعتماد کا ووٹ لینے کا کہا اور اس حکم پر عمل درآمد نہ ہونے پر انہیں ڈی نوٹیفائی کردیا جس کے خلاف پرویز الہیٰ نے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کرلیا، جس پر عدالت نے صوبائی اسمبلی تحلیل نہ کرنے کی یقین دہانی پر گورنر کا حکم معطل کرتے ہوئے انہیں وزیر اعلیٰ کے منصب پر بحال کردیا۔ یہ معاملہ زیر سماعت ہے جو آئندہ سال بھی سیاسی سرگرمیوں کا مرکز رہے گا۔

آڈیو لیکس کا معاملہ

گزشتہ مہینوں میں یکے بعد دیگرے کئی آڈیو لیکس منظرِ عام پر آنے کے بعد سے پاکستان کے سیاسی حلقوں میں تہلکہ مچ گیا، وزیر اعظم شہباز شریف، عمران خان، مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی کے اہم رہنماؤں اور دیگر عہدیداروں کی مبینہ طور پر کئی آڈیو ریکارڈنگز سامنے آنے کے بعد قومی سلامتی پر سوالیہ نشان لگ گئے اور مختلف حلقوں کی جانب سے تشویش کا اظہار کیا گیا جب کہ یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔

حالیہ دنوں تک جاری رہنے والے سلسلے کی پہلی آڈیو وزیر اعظم آفس سے منسوب کی گئی جو 24 ستمبر کو سامنے آئی، اس آڈیو میں وزیر اعظم شہباز شریف اور سرکاری عہدیدار کے درمیان سوشل میڈیا پر لیک ہوئی، چند روز بعد ایک اور آڈیو لیک سامنے آئی جس میں شہباز شریف اپنے معاونین خصوصی کی تعیناتیوں کے حوالے سے گفتگو کر رہے ہیں۔

بعد ازاں سابق وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل اور قومی اسمبلی سے پی ٹی آئی کے قانون سازوں کے استعفوں سے متعلق مزید ریکارڈنگز منظر عام پر آئیں، وزیراعظم ہاؤس سے مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کی مبینہ آڈیوز لیک ہونے کے بعد سابق وزیر اعظم و پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کی مبینہ آڈیو بھی لیک ہوگئی۔

لیک آڈیو میں عمران خان کو مبینہ امریکی سائفر کے حوالے سے کہتے سنا گیا کہ ’کسی کے منہ سے ملک کا نام نہ نکلے‘، 28 ستمبر کو عمران خان کی ایک مبینہ آڈیو لیک ہوئی جس میں مبینہ طور پر انہوں نے کہا ’ہم نے بس صرف کھیلنا ہے اس کے اوپر، نام نہیں لینا امریکا کا، اسی طرح کی ایک آڈیو 30 ستمبر کو لیک ہوئی جس میں عمران خان نے کہا کہ ’کسی کے منہ سے ملک کا نام نہ نکلے‘۔

اس کے بعد اکتوبر میں عمران خان کی ایک آڈیو سامنے جس میں وہ قومی اسمبلی میں نمر گیم کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ’فکر نہ کریں یہ غلط ہے یا ٹھیک‘، آپ کی بڑی غلط فہمی ہے جناب نمبر گیم پوری ہوگئی ہے۔

آڈیو لیکس سامنے آنے کے کئی ہفتوں کے بعد ایک اور کلپ منظر عام پر آیا جس میں مبینہ طور پر پی ٹی آئی رہنما زلفی بخاری اور عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو سابق وزیر اعظم کے پاس موجود گھڑیوں کی فروخت کے بارے میں بات چیت کرتے ہوئے سنا گیا۔

آڈیو لیکس کا معاملہ سامنے آنے کے بعد ملک کے مختلف حلقوں کی جانب سے اظہار تشویش کے ساتھ ساتھ اس کی قانونی اور اخلاقی حیثیت کے حوالے سے بھی سوالات اور اعتراضات اٹھائے گئے، اس معاملے پر وزیر اعظم شہباز شریف نے تحقیقات کے لیے اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی تشکیل دی جس میں وفاقی وزرا اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے سربراہان کو شامل کیا گیا، اعلیٰ اختیارات کی حامل کمیٹی نے آڈیو لیکس سے مستقبل میں ہمیشہ کے لیے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے وزیر اعظم ہاؤس کی مکمل جانچ پڑتال کی۔

ملکی تاریخ کا بدترین سیلاب

زمین کے وجود میں آنے کے ساتھ ہی یہاں جغرافیائی تغیراتی اور موسمی تبدیلیاں رونما ہوتی رہی ہیں، زمین کی تاریخ ہولناک قدرتی آفات سے بھری پڑی ہے، کبھی زلزلے، تو کبھی سیلاب، کہیں خشک سالی تو کہیں بدترین بارشیں، ایک طرف منہ زور سمندری طوفان تو دوسری طرف تباہ کن سونامی، کہیں خون جما دینے والی سردی تو کہیں شدید جھلسا دینے والی گرمی، ان قدرتی آفات نے شہر کے شہر صفحہ ہستی سے مٹا کر رکھ دیے، لاکھوں لوگ مارےگئے، کروڑوں متاثر ہوئے۔

اسی طرح کی ایک ہلاکت خیز قدرتی آفت کا سامنا پاکستان نے رواں سال کیا جہاں موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں آنے والے مون سون کے غیر معمولی سیزن میں بدترین بارشوں کے بعد ملک کی تاریخ کے بدترین سیلاب کے باعث 2 ہزار کے قریب شہری جاں بحق اور سینکڑوں زخمی ہوگئے جب کہ 3 کروڑ سے زیادہ افراد اس موسمیاتی تباہی کا شکار بنے۔

اس قدرتی آفت کے باعث 20 لاکھ گھر تباہ ہوئے، ملک کا ایک تہائی حصہ زیر آب آگیا، خدشہ ظاہر کیا گیا کہ سیلاب کے باعث پاکستان کے مزید 60 سے 90 لاکھ شہری خط غربت سے نیچے جاسکتے ہیں جب کہ کئی لاکھ لوگ تاحال بے گھر ہیں اور خیموں میں رہنے پر مجبور ہیں۔

ملکی تاریخ کے تباہ کن آفت سے ملک کے 110 اضلاع متاثر ہوئے ، مونسٹر مون سون نے ملک اور خاص طور پر سندھ کی 45 فیصد فصلوں کو تباہ کردیا جس سے تقریباً 10 ارب ڈالر کا نقصان ہوا، سیلاب کے دوران تقریباً 50 ہزار مربع کلومیٹر یا ملک کی زمین کے کل رقبے کا 6.3 فیصد حصہ پانی میں ڈوب گیا جس میں تقریباً 38 ہزار 289 مربع کلومیٹر زرعی رقبہ یا 16 فیصد زیر آب آگیا۔

پاکستان اس وقت سیلاب کی تباہ کاریوں سے دوچار ہے، ہر شخص حیران ہے کہ 75 سال میں کبھی اتنا تباہ کن سیلاب دیکھنے میں نہیں آیا جس میں ایک تہائی ملک پانی میں ڈوب گیا۔

پاکستان کو سیلاب کی شکل میں موجودہ شدید تباہی کا ایک ایسے وقت میں سامنا ہے جب کہ معاشی حالات کی وجہ سے پاکستانی معیشت پہلے ہی شدید دباؤ کا شکار ہے، آٹا، گھی، تیل، چاول، دالیں، سبزیاں غریب کی قوت خرید سے باہر ہوتی جارہی ہیں۔

جہاں سیلاب نے ملک کو معاشی طور پر ہلا کر رکھ دیا وہیں اس کے ملک کی سیاست پر گہرے اثرات مرتب ہوئے، الیکشن کمیشن نے 8 ستمبر کو اعلان کیا کہ سیلاب کی صورتحال کے باعث قومی اسمبلی کے 10 اور پنجاب اسمبلی کے 3 حلقوں پر 25 ستمبر کو ہونے والے ضمنی انتخابات ملتوی کردیے۔

مہلک سیلاب اور غیر معمولی بدترین بارشوں کے باعث ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی اور صوبہ سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدر آباد میں بلدیاتی انتخابات تین مرتبہ ملتوی کیے گئے، انتخابات کو تیسری مرتبہ 18 اکتوبر کو ملتوی کیا گیا، اس سے قبل، 24 جولائی کو ممکنہ بارشوں کے پیش نظر ملتوی کرکے 28 اگست کو کرانے کا اعلان کیا گیا تاہم بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے 28 اگست کو ہونے والے بلدیاتی انتخابات بھی ملتوی کردیے گئے تھے۔

بلدیاتی انتخابات ملتوی کیے جانے کے بعد پاکستان تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کی جانب سے سندھ ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی گئی گئی جس پر 18 نومبر کو فیصلہ جاری کرتے ہوئے 15 جنوری کو الیکشن کرانے کا اعلان کیا گیا۔

ملک کا سب سے بڑا صوبہ سیاسی بحران کا شکار

سال 2022 کے دوران ملک کے سیاسی منظر نامے پر کئی ایسے واقعات سامنے آئے جو غیر معمولی کہے جاسکتے ہیں، ایسی پیش رفت جن کے باعث ملک کا سب سے زیادہ آبادی والا صوبہ پنجاب سیاسی کشمکش اور سنگین بحران کا شکار رہا، پورے سال کے دوران چند ایسے واقعات ہوئے جنوں نے سیاسی طلاطم تھمنے نہیں دیا، کہیں قانونی دلائل دیے گئے، کہیں دعوے اور قیاس آرائیاں ہوتی رہیں۔

پنجاب کی سیاست میں اہم موڑ اس وقت آیا جب چیئرمین پی ٹی آئی نے تحریک عدم اعتماد کے دوران اپنی وفاقی حکومت بچانے اور مسلم لیگ (ق) کی حمایت حاصل کرنے کے لیے عثمان بزدار سے استعفیٰ لے کر پرویز الہٰی کو اپنی جماعت کی طرف سے پنجاب میں وزارتِ اعلیٰ کا امیدوار بنایا لیکن 16 اپریل کو مسلم لیگ (ن) کے رہنما حمزہ شہباز 197 ووٹ حاصل کرکے پنجاب کے 21ویں وزیر اعلیٰ منتخب ہوگئے، ان کو منتخب ہونے کے لیے مطلوبہ 186 ووٹوں سے 11 ووٹ زیادہ ملے تھے، حمزہ شہباز کو وزارت اعلیٰ کے انتخاب میں ووٹ دینے والوں میں پی ٹی آئی کے 25 منحرف اراکین بھی شامل تھے جنہیں بعد ازاں الیکشن کمیشن نے ڈی سیٹ کردیا تھا۔

ڈی سیٹ ہونے والے اراکین کی سیٹوں پر ضمنی انتخابات ہوئے جن پر پی ٹی آئی نے حیران کن اور شاندار کامیابی حاصل کی۔

صوبے کی سیاست میں ایک اہم پیش رفت وہ عدالتی حکم تھا جس میں لاہور ہائی کورٹ نے ہدایت کی کہ 16 اپریل کو ہونے والے انتخاب میں ڈالے گئے ووٹوں کی دوبارہ گنتی منحرف قانون سازوں کے 25 ووٹوں کو شمار کیے بغیر کی جائے۔

عدالتی حکم پر ہونے والی ووٹنگ میں ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری نے مسلم لیگ (ق) کی طرف سے ڈالے گئے تمام 10 ووٹوں کو مسترد کردیا اور حمزہ شہباز وزیر اعلیٰ کا انتخاب جیت گئے، یہ معاملہ سپریم کورٹ پہنچا تو ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ مسترد کرتے ہوئے چوہدری پرویز الہٰی کو نیا وزیر اعلیٰ قرار دے دیا گیا جس کے بعد صوبے میں سیاسی معاملات میں قدرے ٹھہراؤ محسوس ہوا لیکن یہ دیرپا ثابت نہیں ہوا۔

صوبے کی سیاسی سرگرمیوں میں اس وقت بہت زیادہ تیزی آگئی جب عمران خان نے اعلان کیا کہ وہ 23 دسمبر کو پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیاں تحلیل کر دیں گے، اس سے قبل کہ پی ٹی آئی اسمبلی تحلیل کرتی، پنجاب کی اپوزیشن جماعتوں نے وزیر اعلیٰ کے خلاف تحریک اعتماد عدم جمع کرادی، ساتھ ہی گورنر پنجاب نے ان سے اعتماد کا ووٹ لینے کا کہا اور اس حکم پر عمل درآمد نہ ہونے پر انہیں ڈی نوٹیفائی کردیا جس کے خلاف پرویز الہیٰ نے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کرلیا جس پر عدالت نے صوبائی اسمبلی تحلیل نہ کرنے کی یقین دہانی پر گورنر کا حکم معطل کرتے ہوئے انہیں وزیر اعلیٰ کے منصب پر بحال کردیا۔

سیاسی رہنماؤں کی گرفتاریاں

رواں سال پاکستان تحریک انصاف کے لیے جہاں اس حوالے سے بھاری ثابت ہوا کہ تحریک عدم اعتماد کے باعث ان کی مرکزی حکومت گرائی گئی، وہیں اس کے کئی رہنماؤں کو مختلف مقدمات کے باعث گرفتاریوں، پیشیوں اور قانونی مسائل کا سامنا کرنا پڑا، خاتون جج کو دھمکیاں دینے پر عمران خان کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا، 25 مئی کے لانگ مارچ کے دوران اسلام آباد میں جلاؤ گھراؤ، توڑ پھوڑ اور دفعہ 144 کی خلاف ورزی پر کئی مقدمات درج کیے گئے، توہین عدالت کی کارروائی کی درخواست، توشہ ریفرنس، ممنونہ فنڈنگ کیس میں الیکشن کمیشن کے فیصلے کے باعث ایف آئی اے کی انکوائریاں، آڈیو لیکس سے متعلق تحقیقات سمیت کئی قانونی معاملات پی ٹی آئی رہنماؤں کا پیچھا کرتے رہے۔

12 اکتوبر کو پی ٹی آئی کے سینیٹر اعظم سواتی کو آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے خلاف متنازع ٹوئٹ کرنے پر گرفتار کیا گیا، کئی روز تک پولیس کی تحویل میں رکھے جانے کے بعد انہیں ضمانت پر رہا کردیا گیا۔

ان کی رہائی کو ابھی چند روز ہی گزرے تھے کہ انہیں 27 نومبر کو فوجی افسران کے خلاف ایک اور متنازع ٹوئٹ کرنے پر وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے دوبارہ گرفتار کرلیا، ان پر ملک کے مختلف شہروں میں کئی ایف آئی آرز درج کی گئیں، ان کے خلاف درج ایف آئی آرز میں غلط عزائم اور مذموم مقاصد کے ساتھ ریاستی اداروں، سینئر افسران سمیت جنرل قمر جاوید باجواہ کے خلاف انتہائی جارحانہ انداز میں ٹوئٹر پر مہم چلانے کے الزامات عائد کیے گئے، پولیس کی حراست میں موجود پی ٹی آئی رہنما کو اسلام آباد سے گرفتار کیا گیا، بلوچستان کی جیل منتقل کیا گیا، سندھ پولیس کے حوالے کیا گیا اور ان دنوں بھی وہ پولیس کی تحویل میں ہیں۔

اعظم سواتی کے علاوہ پی ٹی آئی کے ایک اور سینئر رہنما و سابق وزیراعظم عمران خان کے چیف آف اسٹاف شہباز گل کو نجی نیوز چینل ’اے آر وائی‘ پر متنازع بیان دینے کے بعد اسلام آباد پولیس نے بغاوت اور عوام کو ریاستی اداروں کے خلاف اکسانے کے الزام میں 9 اگست کو حراست میں لے کر ان کے خلاف مقدمہ درج کیا۔

بعد ازاں شہباز گل کو اسلام آباد ہائی کورٹ سے ریلیف ملا جس نے کئی روز پولیس کی تحویل میں رکھے جانے کے بعد انہیں ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا، تاہم انہیں تاحال مقدمات کا سامنا ہے۔

پی ٹی آئی رہنماؤں کو درپش یہ مسائل قانونی نوعیت کے تھے لیکن ان کے ملکی سیاست پر بھی گہرے اثرات مرتب ہوئے اور گزشتہ مہینوں کے دوران شہ سرخیوں کی زینت بن کر عوام اور سیاست دانوں کو اپنی جانب متوجہ کرتے رہے۔


مرتب کردہ: اسامہ افتخار اور محمد ارسلان بیگ