'سائفر سے صرف کھیلنا ہے'، عمران خان کی اعظم خان سے مبینہ گفتگو کی آڈیو لیک

اپ ڈیٹ 28 ستمبر 2022
سابق وزیراعظم اپنے پرنسپل سیکریٹری اعظم خان سے سفارتی کیبل پر گفتگو کرتے ہوئے سنائی دیے— فائل فوٹو: سی این این
سابق وزیراعظم اپنے پرنسپل سیکریٹری اعظم خان سے سفارتی کیبل پر گفتگو کرتے ہوئے سنائی دیے— فائل فوٹو: سی این این

وزیراعظم ہاؤس سے مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کی مبینہ آڈیوز لیک ہونے کے بعد سابق وزیر اعظم اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کی مبینہ آڈیو بھی لیک ہوگئی۔

سابق وزیر اعظم عمران خان کی پرنسپل سیکریٹری اعظم خان کے ساتھ مبینہ امریکی سائفر کے حوالے سے گفتگو میں انہیں اس حوالے سے ہدایات دیتے ہوئے سنا جاسکتا ہے۔

آڈیو کی ابتدا میں مبینہ طور پر عمران خان نے کہا کہ ہم نے بس صرف کھیلنا ہے اس کے اوپر، نام نہیں لینا امریکا کا، صرف کھیلنا ہے کہ یہ تاریخ پہلے سے تھی اس کے اوپر۔

یہ بھی پڑھیں: عمران خان اور اعظم خان کی مبینہ آڈیو لیک میں کیا گفتگو ہوئی؟

گفتگو میں مبینہ طور پر اعظم خان نے کہا کہ میں سوچ رہا تھا کہ یہ جو سائفر ہے میرا خیال ہے ایک میٹنگ اس پر کر لیتے ہیں، دیکھیں آپ کو یاد ہو تو سفیر نے آخر میں لکھا تھا ڈیمارچ کریں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر ڈیمارچ نہیں بھی دینا تو میں نے رات کو اس پر بہت سوچا کہ اس کو کس طرح کور کرنا ہے، ایک میٹنگ کرتے ہیں جس میں شاہ محمود قریشی اور سیکریٹری خارجہ ہوں گے۔

بات کو جاری رکھتے ہوئے آڈیو میں مزید کہا گیا کہ شاہ محمود کو کہیں گے کہ وہ لیٹر پڑھ کر سنائیں، وہ جو بھی پڑھ کر سنائیں گے اسے کاپی میں بدل دیں گے، وہ میں منٹس میں (تبدیل) کردوں گا کہ سیکریٹری خارجہ نے یہ چیز بنادی ہے۔

آڈیو میں مبینہ طور پر اعظم خان نے مزید کہا کہ ’بس اس کا کام یہ ہوگا کہ اس کا تجزیہ ہوگا جو اپنی مرضی کے منٹس میں کردیں گے تاکہ دفتری ریکارڈ میں آجائے اور تجزیہ یہی ہوگا کہ سفارتی روایات کے خلاف دھمکی دی گئی، سفارتی زبان میں اسے دھمکی کہتے ہیں۔‘

مبینہ طور پر اعظم خان بات کو جاری رکھتے ہوئے مزید کہتے ہیں کہ ’(میٹنگ کے) منٹس تو پھر میرے ہاتھ میں ہیں نا وہ پھر (اپنی مرضی سے) ڈرافٹ کرلیں گے‘

مزید پڑھیں: آڈیو لیکس کی مزید اقساط بھی آنے والی ہیں، عمران خان

اس پر عمران خان کو یہ پوچھتے سنا جاسکتا ہے کہ ’تو پھر کس کس کو بلائیں اس میں، شاہ محمود قریشی، آپ (اعظم خان) اور سہیل (سیکریٹری خارجہ)، ٹھیک ہے تو پھر کل ہی کرتے ہیں۔

آگے اعظم خان کو مزید کہتے سنا گیا کہ ’تاکہ چیزیں ریکارڈ پر آجائیں، آپ یہ دیکھیں یہ قونصلیٹ فار اسٹیٹ ہیں، وہ پڑھ کر سنائے گا تو میں کاپی کرلوں گا آرام سے تو آن ریکارڈ آجائے گا کہ یہ چیز ہوئی ہے‘۔

آڈیو میں مبینہ طور پر اعظم خان نے عمران خان سے مزید کہا کہ آپ سیکریٹری خارجہ کو بلائیں تا کہ بیوروکریٹک ریکارڈ پر چلا جائے۔

جس کے بعد عمران خان کی آواز میں کہا گیا کہ ’نہیں تو اسی نے تو لکھا ہے سفیر نے‘۔

یہ بھی پڑھیں: شوکت ترین کی ’آڈیو لیک‘ میں کوئی غلط بات نہیں ہے، اسد عمر

جس پر اعظم خان کو یہ کہتے سنا گیا کہ ’ہمارے پاس تو کاپی نہیں ہے نا۔۔۔۔۔ یہ کس طرح انہوں نے نکال دیا۔‘

اس پر مبینہ طور پر عمران خان نے کہا کہ ’یہ یہاں سے اٹھی ہے، اس نے اٹھائی ہے، لیکن خیر ہے تو غیر ملکی سازش۔

پی ٹی آئی رہنماؤں کا ردِعمل

حالیہ آڈیو لیک پر پی ٹی آئی کے رہنما فواد چوہدری اور حماد اظہر نے ردِعمل ضرور دیا لیکن اس کی تصدیق یا تردید نہیں کی۔

فواد چوہدری نے اس حوالے سے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ ’نئی لیکس سے صرف یہ تصدیق ہوتی ہے کہ امریکی مراسلہ وزیراعظم سے چھپانے کی کوشش کی گئی‘۔

دوسری جانب حماد اظہر نے سائفر کو جاری کرنے کا مطالبہ کیا تاکہ پاکستانی عوام فیصلہ کر سکیں کہ کیا یہ ’سازش تھی یا اس سے بھی زیادہ‘۔

آڈیو کلپ پر عمران خان پر ایک تنقیدی ٹوئٹ کا جواب دیتے ہوئے حماد اظہر نے کہا کہ ’جب عمران خان وزیر اعظم تھے، ان کی حکومت کو بالکل اسی اسکرپٹ کے مطابق ہٹا دیا گیا تھا جو سائفر میں دیا گیا تھا۔‘

انہوں نے کہا کہ ’چلیں اس کی گہرائی میں چلتے ہیں‘۔

امریکی سائفر کا معاملہ

خیال رہے کہ رواں برس مارچ میں ایک جلسے کے دوران اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان نے اپنی جیب سے خط نکال کر دعویٰ کیا تھا کہ ان کے خلاف اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد ان کی بیرونی پالیسی کے سبب ’غیر ملکی سازش‘ کا نتیجہ تھی اور انہیں اقتدار سے ہٹانے کے لیے بیرون ملک سے فنڈز بھیجے گئے۔

مزید پڑھیں: عمران خان کی حکومت کو ہٹانے میں کوئی غیر ملکی سازش ثابت نہیں ہوئی، قومی سلامتی کمیٹی

اگرچہ انہوں نے ابتدائی طور پر دھمکی آمیز خط کے بارے میں کوئی خاص تفصیلات فراہم نہیں کی تھیں لیکن اس کے بعد ناقدین کی جانب سے ان کے دعوے پر شک کرنے کی وجہ سے تھوڑی تفصیلات دیں۔

سابق حکومت نے ابتدائی طور پر اس خط کو چیف جسٹس آف پاکستان کے ساتھ شیئر کرنے کی پیشکش کی، لیکن بعد میں وزیر اعظم نے اپنی کابینہ کے ارکان کو خط کے مندرجات سے بھی آگاہ کیا۔

خفیہ دستاویزات کے افشا ہونے پر قانونی پابندی کے پیش نظر صحافیوں کے ایک گروپ کو وزیراعظم کے ساتھ بات چیت کے دوران کابینہ کے اجلاس کے نکات فراہم کیے گئے تھے۔

اس ملاقات میں کسی غیر ملکی حکومت کا نام نہیں لیا گیا لیکن میڈیا والوں کو بتایا گیا کہ میزبان ملک کے ایک سینئر عہدیدار نے پاکستانی سفیر کو کہا تھا کہ انہیں وزیر اعظم عمران خان کی خارجہ پالیسی، خاص طور پر ان کے دورہ روس اور یوکرین جنگ سے متعلق مؤقف پر مسائل ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: قومی سلامتی کمیٹی کے اعلامیے میں ’سازش‘ کا لفظ شامل نہیں، ڈی جی آئی ایس پی آر

مبینہ طور پر یہ سفارتی کیبل 7 مارچ کو اپوزیشن کی جانب سے تحریک عدم اعتماد پیش کرنے اور اس پر ووٹنگ کے لیے قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کرنے سے ایک روز قبل بھیجی گئی تھی۔

دریں اثنا علیحدہ طور پر یہ بات بھی سامنے آئی تھی کہ یہ سفارتی کیبل امریکا میں پاکستان کے اُس وقت کے سفیر اسد مجید نے کے معاون وزیر خارجہ برائے جنوبی اور وسطی ایشیائی امور، ڈونلڈ لو سے ملاقات کی بنیاد پر بھیجی تھی۔

بعد ازاں پی ٹی آئی حکومت نے اس سفارتی کیبل کو اپنا اقتدار ختم کرنے کی سازش قرار دیتے ہوئے اس پر قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بھی بلایا تھا۔

اجلاس میں مراسلے کو پاکستان کے معاملات میں ’کھلی مداخلت‘ قرار دیتے ہوئے اس کا سفارتی طور پر جواب دینے کا عزم ظاہر کیا گیا تھا۔

حکومت کی تبدیلی کے بعد وزیراعظم شہباز شریف کی سربراہی میں قومی سلامتی کمیٹی کا ایک اور اجلاس ہوا تھا جس کے اعلامیے میں کہا گیا کہ قومی سلامتی کمیٹی کو اعلیٰ ترین سیکیورٹی ایجنسیوں نے دوبارہ مطلع کیا ہے کہ انہیں کسی سازش کا کوئی ثبوت نہیں ملا ہے۔

اجلاس کے دوران قومی سلامتی کمیٹی نے یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ کوئی غیر ملکی سازش نہیں ہوئی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں