پھر اسی دن خلیل زاد نے ٹوئٹ میں کہا کہ، ’میں افغان امن عمل کی حمایت میں مزید بین الاقوامی اتفاق رائے بڑھانے کے سلسلے میں پہلے سے شیڈول ملاقاتوں میں شریک ہونے کے لیے آج دہلی جاؤں گا۔‘ بعدازاں انہوں نے ٹوئٹر پر ایک تصویر شیئر کی جس میں وہ بھارتی وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر کے ساتھ بیٹھے نظر آئے، اور ساتھ ہی یہ لکھا کہ افغانستان میں پائیدار اور مستحکم قیام امن میں بھارت کی مدد کا کردار اہم ہے۔‘ یہ تو صاف ہے کہ امریکا کی توجہ افغانستان میں امن عمل پر مرکوز رہے گی۔
مودی کی جانب سے 370 کی منسوخی سے 3 دن قبل زلمے خلیل زاد پاکستان میں موجود تھے اور انہوں نے آرمی چیف اور وزیرِاعظم سے ملاقاتیں بھی کیں، اور صرف اتنا بیان دیا کہ ’ہم نے افغان امن عمل میں پاکستان کے کردار اور ان اضافی مثبت اقدامات پر تبادلہ خیال کیا جو پاکستان کے لیے ممکن ہیں۔‘
واشنگٹن سے موصول ہونے والا پیغام صاف تھا، ’افغانستان پر ہی توجہ مرکوز رکھی جائے، رکھنی ہے یا نہیں؟‘ 5 اگست کے چند دن بعد ایف اے ٹی ایف کو دیے گئے ایکشن پلان پر ہونے والی پیش رفت کا جائزہ لینے کے لیے سینئر امریکی وفد پاکستان پہنچا اور پاکستان کو گرے لسٹ سے بچانے کے لیے یہ دورہ نہایت اہمیت کا حامل ہے۔
تو پیارے قارئین، قصہ مختصر یہی ہے۔ جس بات کا اندازہ دانا شخصیات کو دہائیوں پہلے تھا، آج وہ بات کھل کر سامنے آگئی۔ پاکستان کے کشمیر کے حوالے سے انصاف پر مبنی مؤقف کو اسی بہتے خون سے ابر آلود کردیا گیا ہے جو دہائیوں سے اس وادی میں بہتا آیا ہے۔ چنانچہ آج جہاں کشمیری عوام کو تاریخ میں ہماری سب سے زیادہ ضرورت ہے، وہیں ہمارے وزیرِاعظم یہ سوال پوچھتے ہیں کہ، ’آپ ہی بتائیں میں کیا کروں؟‘
یہ مضمون 8 اگست 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔