Dawn News Television

اپ ڈیٹ 27 جولائ 2022 01:28pm

ججز کی تعیناتی پر چیف جسٹس کی جلد بازی سوالیہ نشان ہے، جسٹس فائز عیسیٰ

سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کو خط لکھا ہے جس میں جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کا اجلاس مؤخر کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ججز کی تعیناتی پر چیف جسٹس کی جلد بازی سوالیہ نشان ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ کے سینئر جج اور جوڈیشل کمیشن کے رکن جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کو خط لکھا جس میں کہا گیا کہ ’مجھے اپنی سالانہ چھٹیوں کے دوران سپریم کورٹ کے ایڈیشنل رجسٹرار کی جانب سے واٹس ایپ میسج موصول ہوا جس میں بتایا گیا کہ چیف جسٹس آف پاکستان نے 28 جولائی 2022 کو جوڈیشل کمیشن کا اجلاس بلایا ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ یہ حیران کن ہے کہ جوڈیشل کمیشن کا اجلاس گرمیوں کی چھٹیوں کے دوران سپریم کورٹ کے 5 ججوں کی تعیناتی پر غور کرنے کے لیے بلایا گیا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ جب میں نے سالانہ چھٹی لی اس وقت جوڈیشل کمیشن کا کوئی اجلاس طے نہیں تھا لیکن جیسے ہی میں پاکستان سے روانہ ہوا تو چیف جسٹس نے فیصلہ کیا کہ جوڈیشل کمیشن کے 2 اجلاس ہوں گے تاکہ سندھ اور لاہور ہائی کورٹس میں تعیناتیوں پر غور کیا جاسکے اور اب جوڈیشل کمیشن کا تیسرا غیر اعلانیہ اجلاس سپریم کورٹ کی گرمیوں کی تعطیلات کے دوران منعقد ہونے والا ہے۔

انہوں نے لکھا کہ ’سپریم کورٹ کی گرمیوں کی تعطیلات کا نوٹی فکیشن خود چیف جسٹس نے جاری کیا تھا جس کے بعد یہ سرکاری گزٹ میں درج کردیا گیا تھا، اگر چیف جسٹس اپنے نوٹی فکیشن کو بالکل بے معنی سمجھتے ہیں تو اس کی خلاف ورزی سے پہلے وہ اسے واپس لے لیں‘۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے نشاندہی کی کہ 28 جون کو ہونے والے جوڈیشل کمیشن کے اجلاس میں چیف جسٹس اور جسٹس اعجاز الاحسن کے سوا ہر کسی نے اجلاس ملتوی کرنے کے حق میں ووٹ دیا تھا کیونکہ موسم گرما کی تعطیلات کے دوران اجلاس بلانے کا کوئی جواز نہیں اور سب سے سینئر جج منظور شدہ سالانہ چھٹیوں پر ہیں۔

انہوں نے لکھا کہ ‘میں انتہائی احترام کے ساتھ عرض کرتا ہوں کہ چیف جسٹس جوڈیشل کمیشن کے فیصلوں کو مسترد نہیں کر سکتے، منظور شدہ تعطیلات کے دوران ایسے وقت میں ایک اور اجلاس بلانا بلاجواز ہے جب کچھ اراکین سالانہ چھٹی پر ہوں اور اٹارنی جنرل حال ہی میں کرائی گئی دوسری سرجری سے صحت یاب ہو رہے ہیں۔'

خط میں جسٹس فائز عیسیٰ نے اجلاس 13 اگست تک ملتوی کیے جانے کی تجویز دی، انہوں نے کہا کہ جوڈیشل کمیشن نے مہینوں تک اپنا اجلاس نہیں بلایا جب وہ پاکستان میں موجود تھے اور پھر اس طرح کے 3 اجلاس اس وقت طے طلب کیے جب میں منظور شدہ سالانہ چھٹیوں پر ہوں، یہ ظاہر کرتا ہے کہ چیف جسٹس نہیں چاہتے کہ میں اجلاس میں شریک ہوں جو کہ غیر قانونی اور غیر آئینی ہے‘۔

خط میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ سپریم کورٹ میں ججز کی تعیناتی سے قبل مل بیٹھ کر طے کرنا ہوگا کہ اس معاملے پر آگے کیسے بڑھنا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جوڈیشل کمیشن کے اجلاسوں کے شیڈول پر سوالات اٹھادیے

ان کا اپنے خط میں کہنا تھا کہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس، سینئر ججز کو بائی پاس کرنے سے پہلے چیف جسٹس کی نامزدگی کے طریقہ کار کو زیر غور لایا جائے۔

چیف جسٹس پاکستان کو لکھے گئے خط کے متن کے مطابق سپریم کورٹ کا سینئر ترین جج ججز کی نامزدگی کا طریقہ کار طے کرنے میں ناکام رہا جبکہ چیف جسٹس کی جانب سے ججز کی تعیناتی کے معاملے پر جلد بازی سوالیہ نشان ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے لکھا کہ چیف جسٹس چاہتے ہیں کہ 2 ہزار 347 دستاویزات کا ایک ہفتے میں جائزہ لیا جائے جبکہ یہ دستاویزات ابھی تک مجھے فراہم ہی نہیں کی گئیں۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ نے جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کالعدم قرار دے دیا

سپریم کورٹ کے سینئر جج نے مزید لکھا ہے کہ یہ دستاویزات نہ مجھے کوریئر کی گئیں اور نہ ہی سفارت خانے کے ذریعے بھجوائی گئیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے بھیجے گئے خط کے مطابق واٹس ایپ کے ذریعے یہ ہزاروں دستاویزات مجھے بھیجنے کی کوشش کی گئی جبکہ واٹس ایپ کے ذریعے مجھے صرف 14 صفحات تک رسائی ملی جو پڑھے نہیں جاسکتے۔

جسٹس فائز عیسیٰ نے چیف جسٹس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’براہ کرم آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جوڈیشل کمیشن اور اپنے نامزد امیدواروں کا مذاق نہ بنائیں، جوڈیشل کمیشن کو صرف چیف جسٹس کے پہلے سے منتخب کردہ نامزد افراد پر غور کرنے کا پابند کرنا نامناسب ہے، جوڈیشل کمیشن اپنے چیئرمین کی جانب سے احترام اور تدبر کے ساتھ پیش آنے کا مستحق ہے۔'

خط میں کہا گیا کہ ’چیف جسٹس نے یہ کہہ کر غیر منصفانہ عمل کا اعتراف کیا کہ انہوں نے صرف چند ججوں کے ناموں پر غور کرنے کا فیصلہ کیا اور یہ من مانی ہے، چیف جسٹس نے بتایا کہ انہوں نے پشاور سے 3، لاہور سے 6 اور سندھ سے 12 ججوں کے ناموں پر غور کیا، اس کی کوئی دلیل نہیں ہے کیونکہ لاہور ہائی کورٹ، سندھ ہائی کورٹ سے بہت بڑی ہے لیکن ایک جیسی تعداد یا تناسب کو مدنظر نہیں رکھا گیا‘۔

جسٹس فائز عیسیٰ نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 'چیف جسٹس کی جانب سے اسلام آباد اور بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اور ججز کے ناموں پر گور نہ کرنا امتیازی سلوک ہے، ان علاقوں کے عوام کا احساس محرومی مزید بڑھتا جارہا ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’یہ ظاہر ہوتا ہے کہ چیف جسٹس نے سب سے پہلے یہ فیصلہ کر کے ریورس انجینئرنگ کا سہارا لیا کہ کس کس کو نامزد کرنا ہے اور پھر اپنی نامزدگیوں کو درست ثابت کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی بہانہ تلاش کیا‘۔

انہوں نے اس ضرورت پر زور دیا کہ تمام تعیناتیاں آئین کے مطابق پہلے سے طے شدہ اور غیر امتیازی معیار کی بنیاد پر کسی تعصب کے تاثر کے بغیر کی جانی چاہئیں، آئین چیف جسٹس کو جوڈیشل کمیشن کے دیگر ارکان کے اضافی اختیارات نہیں دیتا، چیف جسٹس کو صرف جوڈیشل کمیشن کا چیئرمین نامزد کیا گیا ہے۔

Read Comments