سپریم کورٹ نے جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کالعدم قرار دے دیا

اپ ڈیٹ 20 جون 2020
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ—فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ—فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ

سپریم کورٹ آف پاکستان نے سینئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کو کالعدم قرار دیتے ہوئے ان کی درخواست کو منظور کرلیا۔

عدالت عظمیٰ میں جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 10 رکنی فل کورٹ نے صدارتی ریفرنس کے خلاف جسٹس قاضی فائر عیسیٰ کی درخواست پر سماعت کی، فل کورٹ کے دیگر اراکین میں جسٹس مقبول باقر، جسٹس منظور احمد ملک، جسٹس فیصل عرب، جسٹس مظہر عالم خان، جسٹس سجاد علی شاہ، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس قاضی امین احمد شامل تھے۔

یہ معاملہ گزشتہ سال مئی سے رواں سال جون تک تقریباً 13 ماہ تک چلا، جہاں سپریم کورٹ میں اس کیس کی 40 سے زیادہ سماعتیں ہوئیں، اس دوران ایک اٹارنی جنرل نے ججز سے متعلق بیان پر نہ صرف استعفیٰ دیا بلکہ فروغ نسیم بھی کیس میں حکومت کی نمائندگی کرنے کے لیے وزیر قانون کے عہدے سے مستعفی ہوئے، یہی نہیں بلکہ یہ کیس تاریخی لحاظ سے اس لیے بھی اہم رہا کیونکہ اس میں تاریخ میں پہلی مرتبہ سپریم کورٹ کے حاضر سروس جج جسٹس عیسیٰ عدالت میں خود پیش ہوئے۔

دوران سماعت جسٹس عیسیٰ کے وکیل منیر اے ملک نے حکومتی وکیل فروغ نسیم کے دلائل مکمل ہونے پر جواب الجواب دیا جس کے بعد آج کیس کا فیصلہ محفوظ کیا گیا اور 4 بجے کے بعد فیصلہ جاری کردیا۔

سپریم کورٹ کے 10 رکنی فل کورٹ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے ابتدائی طور پر مختصر فیصلہ سنایا، بعد ازاں مختصر تحریری فیصلہ جاری کیا گیا جس میں تین ججز نے اکثریت فیصلے سے اختلاف میں اضافی نوٹ لکھا۔

10 رکنی فل کورٹ—فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ
10 رکنی فل کورٹ—فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ

فیصلے کے مطابق عدالت نے درخواست گزار جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی صدارتی ریفرنس کے خلاف درخواست کو منظور کرلیا گیا۔

عدالت عظمیٰ نے سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف جاری کیا گیا شوکاز نوٹس بھی منسوخ کردیا، مزید یہ کہ عدالت کی جانب سے یہ حکم دیا گیا کہ فیڈرل بورڈ آف (ایف بی آر) 7 روز میں جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ کو نوٹس جاری کرے، نوٹس ہر پراپرٹی کا الگ الگ بھجوایا جائے، ساتھ ہی عدالت نے کہا کہ نوٹس جسٹس عیسیٰ کی سرکاری رہائش گاہ کے پتے پر بھجوایا جائے اور ایف بی آر معاملے کو التوا میں نہ ڈالے۔

فیصلے میں کہا گیا کہ قانون کی کارروائی بنتی ہو تو سپریم جوڈیشل کونسل مجاز ہوگی، چیئرمیں ایف بی آر اپنے دستخط سے رپورٹ رجسٹرار سپریم کورٹ کو جمع کرائیں۔

یاد رہے کہ گزشتہ برس مئی میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف دائر کیے گئے ریفرنس میں الزام لگایا تھا کہ انہوں نے 2011 سے 2015 کے دوران لندن میں لیز پر اپنی اہلیہ اور بچوں کے نام پر جائیدادیں حاصل کیں تھیں لیکن انہیں ٹیکس گوشواروں میں ظاہر نہیں کیا تھا، بعدازاں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے الزامات کا مقابلہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ براہ راست یا بالواسطہ فلیٹس کے بینیفشل اونر نہیں ہیں۔

اس درخواست کے ذریعے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ میں استدعا کی تھی کہ کچھ طاقتیں انہیں کسی نہ کسی طریقے سے آئینی عہدے سے ہٹانا چاہتی ہیں جبکہ صدر مملکت عارف علوی نے ان کے خلاف ریفرنس دائر کرنے سے قبل اپنی آزادانہ رائے قائم نہیں کی تھی۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا تھا کہ وزیراعظم، وزیر قانون اور اٹارنی جنرل نے انکم ٹیکس آرڈیننس، 2001 کے سیکشن 116 (بی) کو توڑ مروڑ کر پیش کیا تھا اور غلطی سے اسے ان کی اہلیہ اور بچوں پر لاگو کردیا تھا جبکہ اس قانون کا اطلاق صرف زیر کفالت اہلیہ اور ان بچوں پر اطلاق ہوتا ہے جو چھوٹے ہوں اور والد پر انحصار کرتے ہوں۔

درخواست میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ سرکاری ایجنسیوں بشمول ایف آئی اے نے خفیہ طور پر درخواست گزار اور ان کے خاندان کے خلاف آئین کے آرٹیکل 4 اور 14 کی واضح خلاف ورزی کرتے ہوئے معلومات حاصل کیں اور انہیں تحقیقات سے متعلق اعتماد میں نہیں لیا گیا نہ ہی انہیں جواب دینا کا کوئی موقع فراہم کیا گیا۔

جسٹس قاضیٰ عیسیٰ نے عدالت سے درِخواست کی تھی کہ حکومت کی جانب سے ان کے خاندان کی جائیدادوں کی تحقیقات کے لیے تشکیل کردہ اثاثہ جات ریکوری یونٹ کو غیرقانونی قرار دیا جائے، ساتھ ہی انہوں نے کہا تھا کہ میرے اور ان کے اہل خانہ کے خلاف تحقیقات غیر قانونی ہیں۔

اس معاملے پر گزشتہ روز حکومتی وکیل فروغ نسیم نے اپنے دلائل مکمل کیے تھے جس پر عدالت نے ان سے تحریری معروضات جمع کروانے کا کہا تھا جبکہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ نے بھی ویڈیو لنک کے ذریعے اپنا بیان ریکارڈ کروایا تھا۔

عدالت کا مختصر تحریری فیصلہ

  • عدالتی حکم میں کہا گیا کہ 2019 کا ریفرنس نمبر ایک قانونی حیثیت نہیں رکھتا اور اسے کالعدم قرار دیا جاتا ہے لہٰذا اس کے نتیجے میں سپریم جوڈیشل کونسل ("کونسل") میں درخواست گزار کے خلاف سی پی 17/2019 میں زیر التوا کارروائی (بشمول 2019-07-17 کو انہیں جاری کیا گیا شوکاز نوٹس) بھی منسوخ ہوگیا۔

  • جسٹس یحییٰ آفریدی نے سی پی 17/2019 کو مسترد کردیا اور پیرا نمبر ایک میں بیان کی گئی دیگر درخواستوں کو بھی خارج کردیا۔

  • جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس منظور احمد ملک، جسٹس فیصل عرب، جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل، جسٹس سجاد علی شاہ، جسٹس منیب اختر اور جسٹس قاضی محمد امین احمد نے عدالتی حکم میں مندرجہ ذیل احکامات جاری کیے: (جو پیرا 4 سے 11 تک ہیں)

  • یہ حکم جاری ہونے کے 7 روز کے اندر اِن لینڈ ریونیو کے متعلقہ کمشنر کو خود (اور مقتدر اختیارات استعمال کرنے والے دیگر کچھ دیگر افسران نہیں) کو انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 ("2001 آرڈیننس") کے تحت درخواست گزار کی اہلیہ اور بچوں کو مناسب نوٹسز جاری کرنے ہوں گے تاکہ وہ فنڈز کی نوعیت اور ذرائع سے متعلق وضاحت کرسکیں (ہر جائیداد کی علیحدہ) جس کے تحت برطانیہ میں 3 جائیدادیں (وز نمبر 40، اوکڈیل روڈ، لندن ای 11 4 ڈی ایل؛ نمبر 90، ایڈیلیڈ روڈ، لندن ای 10 5 این ڈبلیو اور نمبر 50 کونیسٹن کورٹ، کیندل اسٹریٹ، لندن ڈبلیو 2 2 اے این) جو ان کی اہلیہ اور بچوں کے نام پر حاصل کی گئی تھیں، اس حکم کی تاریخ تک 2001 آرڈیننس کے تحت اس حوالے سے فریقین کو جاری کیے گئے کوئی نوٹسز یا ان افراد کی جائیدادوں سے متعلق کارروائیاں کی جانے والی کارروائیاں (یا تجویز کی گئی ہوں یا کی گئی ہوں) اس حکم نامے کے ساتھ ہی ختم ہوجائیں گی۔

  • اس میں مزید کہا گیا کہ نوٹسز اسلام آباد میں درخواست گزار کی آفیشل رہائش گاہ پر کوریئر سروس یا دیگر ایسے ذرائع کے ذریعے جسے مناسب سمجھا جاسکتا ہے جاری کیے جائیں گے۔

  • حکم نامے کے مطابق فریقین نوٹسز کے جوابات، کسی مواد اور ریکارڈ جو مناسب سمجھیں ان کے ساتھ جمع کروائیں گے، اگر ان میں سے کوئی ملک سے باہر ہو تو یہ اس شخص کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ وقت پر جواب جمع کروائے اور کمشنر کے سامنے کارروائی کو کسی ایسے شخص کی پاکستان میں عدم موجودگی کی بنا پر ملتوی یا تاخیر کا شکار نہیں کیا جائے گا۔

  • جوابات موصول ہونے پر اور اگر مدعی کی جانب سے وضاحت کے لیے اضافی دستاویزات یا ریکارڈ جمع کرایا جاتا ہے تو کمشنر مدعی کو ذاتی طور پر یا نمائندہ/وکیل کے ذریعے سماعت کا موقع دے گا اور 2001 کے آرڈیننس کے مطابق حکم جاری کرے گا۔

سپریم کورٹ میں کیس کی طویل سماعت ہوئی—فائل فوٹو: دی ایٹلانٹک
سپریم کورٹ میں کیس کی طویل سماعت ہوئی—فائل فوٹو: دی ایٹلانٹک

  • نوٹسز موصول ہونے کے بعد کمشنر 60 دن کے اندر سماعت مکمل کرے گا اور وصولی کے 75 دن کے اندر حکم جاری کرے گا اور مذکورہ وقت میں کوئی التوا یا توسیع نہیں ہوگی۔

  • کمشنر کی جانب سے احکامات جاری ہونے کے 7 روز کے اندر فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے چیئرمین سماعت سے متعلق اپنی دستخط شدہ رپورٹ اپنے سپریم کورٹ کے سیکریٹری کے ذریعے کونسل میں جمع کروائیں گے، سیکریٹری رپورٹ کو کونسل کے چیئرمین چیف جسٹس آف پاکستان کے سامنے رکھے گے جو مناسب انداز میں اگر درخواست گزار سے متعلق کونسل کچھ تعین کرے تو رپورٹ کو جائرے، کارروائی، حکم یا سماعت کے لیے کونسل کے سامنے پیش کریں گے، اگر کونسل کی جانب سے کوئی کارروائی کا حکم یا ہدایت دی جاتی ہے تو وہ آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت ازخود نوٹس کا دائرہ کار استعمال کرے گی۔

  • اگر عدالتی حکم کے 100 روز کے اندر سیکریٹری کو چیئرمین ایف بی آر سے کوئی رپورٹ نہیں ملی تو وہ اس کی اطلاع کونسل کے چیئرمین کو دیں گے اور اگر انہیں ہدایت کی گئی تو وہ چیئرمین ایف بی آر کو خط لکھ کر رپورٹ نہ بھیجنے سے متعلق وضاحت طلب کریں گے، اگر جواب میں رپورٹ بھیج دی جاتی ہے تو معاملہ پیراگراف 9 کے مطابق آگے بڑھے گا لیکن اگر جواب میں رپورٹ نہیں بھیجی جاتی یا جواب ہی موصول نہیں ہوتا تو سیکریٹری معاملہ کونسل کے چیئرین کے علم میں لائیں گے جو غور و فکر، حکم یا کارروائی کے لیے معاملہ کونسل کے سامنے پیش کرنے کی ہدایت کر سکتے ہیں، اگر کونسل کوئی کارروائی کرتی ہے، حکم یا ہدایت دیتی ہے تو وہ آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت حاصل سوموٹو (ازخود) اختیارات کے مطابق ہوگا، مذکورہ معاملے کے کسی مرحلے پر اگر چیئرمین ایف بی آر کی طرف سے رپورٹ موصول ہوجاتی ہے تو معاملے کو کسی بھی صورت میں پیرا 9 کے مطابق آگے بڑھایا جائے گا۔

  • کسی بھی شکوک و شبہات کے خاتمے کے لیے یہ واضح کیا جاتا ہے کہ یہاں 2001 آرڈیننس کے تحت کی جانے والی کوئی بھی کارروائی پر ایک طرف غور کیا گیا اور دوسری طرف پیرا 9 اور 10 میں کونسل کے سامنے کیا گیا دونوں ایک دوسرے سے الگ ہیں، اس حکم نامے میں شامل کوئی چیز 2001 آرڈیننس کے تحت کسی فریقین کے اپیل کے حق کو متاثر یا اس سے تعصب نہیں کرے گی اگر وہ کمشنر کی جانب سے کیے گئے فیصلے (جو شاید ہوسکتا ہے) یا کوئی حکم یا کسی ایپلیٹ مرحلے میں کیے گئے فیصلے سے غمزدہ ہوں، ایسی کسی بھی اپیل کا فیصلہ 2001 آرڈیننس کے تحت میرٹ پر کیا جائے، اس کے ساتھ (اور کہنے کی ضرورت نہیں) کونسل میں پیش کیے گئے کسی معاملے پر اس کی جانب سے غور کسی اپیل کے دائر ہونے یا زیر التوا ہونے سے متاثر نہیں ہوگا، تاہم اگر کونسل مناسب سمجھے تو ایسی ایپلیٹ کارروائیوں یا آرڈرز/ فیصلوں پر نوٹس یا ( کونسل میں صرف پیش کیے گئے معاملوں کے لیے) ایسے آرڈرز دے سکتی یا اس حوالے سے ہدایات دے سکتی ہے۔

عدالت کے مختصر تحریری فیصلے میں جسٹس مقبول باقر، جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس یحییٰ آفریدی نے اضافی نوٹ بھی لکھا۔

  • نوٹ میں لکھا گیا کہ بعد میں ریکارڈ ہونے والی وجوہات اور کسی بھی طرح اپنے دائرہ اختیار کو محدود کیے بغیر، تفصیلی فیصلے میں مناسب ڈیکلیئریشن اور ہدایات کو مناسب طور پر وسعت دینے یا درج ذیل موجود پیرا 15 کو مناسب قرار دیے بغیر، ہم مذکورہ درخواست کو برقرار رکھتے ہیں اور اس کی اجازت دیتے ہیں، اس اعلامیے کا ایک نتیجہ یہ بھی ہے کہ صدر مملک کی جانب سے درخواست گزار (جسٹس قاضی فائز عیسیٰ) کے خلاف دائر ریفرنس کالعدم ہے جبکہ سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے جاری شو کاز نوٹس منسوخ کردیے گئے ہیں۔

  • اضافی نوٹ میں کہا گیا کہ ہمارے اہم آئینی اقدار میں سے ایک یہ ہے کہ عدلیہ کی آزادی کا مکمل طور پر تحفظ کیا جائے، اسی آئین میں یہ بھی ہے کہ قانون کے تحفظ سے فائدہ اٹھانے اور قانون کے مطابق برتاؤ ہر شہری کا لازمی حق ہے، لہٰذا اس بات کا اعادہ کیا جاتا ہے کہ ہماری آئینی جمہوریت میں، نہ ہی درخواست گزار جج، نہ ہی کوئی دوسرا جج، یا کوئی فرد یا کوئی ادارہ قانون سے بالاتر ہے، آئینی فورم جیسے سپریم جوڈیشل کونسل کے دروازے ہمیشہ کھلے ہیں یا تو وہ اپنی تحریک پر یا کسی کے لیے بھی جس کی حقیقی شکایت ہے، جو آئینی عدالت کے جج کے خلاف کونسل کے دائرہ اختیار میں قابل عمل ہے۔اسی کے ساتھ یہ بھی اتنا ہی اہم ہے کہ ایک جج، پاکستان کے کسی دوسرے شہری کی طرح قانون کے مطابق لازمی آئینی حق کو حاصل کرے، ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ آئین کی عظمت اور بالادستی کو برقرار رکھنے اور اس آئین کو اپنانے اور آپ کو دینے والی پاکستان کے عوام کی عزت کے لیے ان بنیادی اقدار کا ہر قیمت پر تحفظ کرنا ہے۔

  • جسٹس یحییٰ آفریدی نے آئینی درخواست نمبر 17/2019 کو برقرار نہیں رکھا۔

عدالت عظمیٰ میں ہونے والی سماعت

آج (جمعہ) کو کیس کی سماعت شروع ہوئی تو سب سے پہلے وفاقی حکومت کے وکیل فروغ نسیم نے کچھ دستاویزات جبکہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے ٹیکس ریکارڈ کی دستاویز سربمہر لفافے میں عدالت میں جمع کروائیں۔

سپریم کورٹ میں کیس کی سماعت ہوئی—فوٹو: عدالت عظمیٰ ویب سائٹ
سپریم کورٹ میں کیس کی سماعت ہوئی—فوٹو: عدالت عظمیٰ ویب سائٹ

مزید یہ جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ کی جانب سے بھی زرعی زمین اور پاسپورٹ کی نقول عدالت میں جمع کروائی گئیں۔

اس پر سربراہ بینچ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہم ابھی اس لفافے کا جائزہ نہیں لیتے اور نہ ہی اس پر کوئی آرڈر پاس کریں گے۔

‏انہوں نے کہا کہ معزز جج (جسٹس قاضی فائز عیسیٰ) کی اہلیہ تمام دستاویز ریکارڈ پر لاچکی ہیں، آپ اس کی تصدیق کروائیں، ہم ابھی درخواست گزار کے وکیل منیر اے ملک کو سنتے ہیں۔

سمجھ نہیں آرہا حکومت کا اصل میں کیس ہے کیا، منیر اے ملک

ساتھ ہی عدالت نے منیر اے ملک کو ہدایت کی کہ وہ اپنے دلائل کو مختصر رکھیں، جس پر وکیل جسٹس عیسیٰ نے کہا کہ ساڑھے 10 بجے تک اپنے دلائل مکمل کردوں گا۔

جس پر جسٹس عمر عطا بندیال بولے کے عدالت پہلے بھی آپ کو دلائل کے لیے 21 دن دے چکی ہے۔

منیر اے ملک نے اپنے جواب الجواب میں کہا کہ افتخار چوہدری کیس میں سپریم جوڈیشل کونسل پر بدنیتی کے الزامات تھے، ‏سپریم جوڈیشل کونسل نے بدنیتی پر کوئی فیصلہ نہیں دیا تھا، توقع ہے کہ مجھے جوڈیشل کونسل کی بدنیتی پر بات نہیں کرنا پڑے گی۔ منیر اے ملک نے کہا کہ سمجھ نہیں آرہا حکومت کا اصل میں کیس ہے کیا، فروغ نسیم نے کہا ان کا اصل کیس وہ نہیں جو ریفرنس میں ہے، برطانوی جج جسٹس جبرالٹر کی اہلیہ کے خط اور ان کی برطرفی کا حوالہ دیا گیا، جسٹس جبرالٹر نے خود کو اہلیہ کی مہم کے ساتھ منسلک کیا تھا۔

بدقسمتی سے فروغ نسیم غلط بس میں سوار ہوگئے ہیں، وکیل جسٹس عیسیٰ

انہوں نے کہا کہ ‏جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کبھی اہلیہ کی جائیدادیں خود سے منسوب نہیں کیں، الیکشن اور نیب قوانین میں شوہر اہلیہ کے اثاثوں پر جوابدہ ہوتا ہے۔

اپنے جواب الجواب میں منیر اے ملک نے کہا کہ فروغ نسیم نے کہا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ آنے میں دیر کر دی، ‏بد قسمتی سے فروغ نسیم غلط بس میں سوار ہوگئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ حکومت ایف بی آر جانے کے بجائے سپریم جوڈیشل کونسل آگئی، ایف بی آر اپنا کام کرے ہم نے کبھی رکاوٹ نہیں ڈالی۔

منیر اے ملک بولے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنی اور عدلیہ کی عزت کی خاطر ریفرنس چیلنج کیا، ‏چاہتے ہیں کہ عدلیہ جسٹس عیسیٰ کے خلاف ریفرنس کالعدم قرار دے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل کا کہنا تھا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کے احکامات اور شوکاز نوٹس میں فرق ہے۔

سماعت کے دوران جسٹس عیسیٰ کے وکیل نے ریفرنس میں لگائے گئے جائیدادوں کے الزامات پر کہا کہ لندن کی جائیدادوں کی تلاش کے لیے سرچ انجن 192 ڈاٹ کام کا استعمال کیا گیا، اس پر سرچ کرنے کے لیے ادائیگی کرنا پڑتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ آن لائن ادائیگی کی رسید ویب سائٹ متعلقہ بندے کو ای میل کرتی ہے، ضیاالمصطفیٰ نے ہائی کمیشن کی تصدیق شدہ جائیداد کی تین نقول حاصل کیں، ساتھ ہی انہوں نے بتایا کہ جن سیاسی شخصیات کی جائیدادیں سرچ کیں اس کی رسیدیں بھی ساتھ لگائی ہیں، حکومت رسیدیں دے تو سامنے آجائے گا کہ جائیدادیں کس نے سرچ کیں۔

منیر اے ملک کا کہنا تھا کہ صحافی عبدالوحید ڈوگرنے ایک جائیداد کا بتایا تھا، تاہم اگر سرچ انجن پر اثاثہ جات ریکوری یونٹ (اے آر یو) نے جائیداد تلاش کیں تو رسیدیں دے دیں۔

اس پر عدالتی بینچ کے رکن جسٹس فیصل عرب بولے کے اے آر یو نے بظاہر صرف سہولت کاری کا کام کیا ہے۔

حکومت فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ لکھنے والے جج کو ہٹانا چاہتی ہے، منیر ملک

سماعت کے دوران منیر اے ملک کا کہنا تھا کہ حکومت کہتی ہے کہ دھرنا کیس کے فیصلے پر ایکشن لینا ہوتا تو دونوں ججز کے خلاف لیتے لیکن حکومت صرف فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ لکھنے والے جج کو ہٹانا چاہتی ہے۔

یہاں یہ بات واضح رہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے 6 فروری 2019 کو فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ سنایا تھا اور اس کیس میں عدالت عظمیٰ نے حکومت، قانون نافذ کرنے والے اداروں، خفیہ ایجنسیوں اور پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کو ہدایت کی تھی کہ وہ اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے کام کریں۔

دوران سماعت منیر اے ملک نے جواب الجواب میں کہا کہ ‏سپریم کورٹ نے پاکستان سے باہر گئے پیسے کو واپس لانے کے لیے کمیٹی بنائی تھی، مذکورہ کمیٹی نے تجویز کیا تھا کہ آمدن اور اثاثوں کے فارم میں کئی ابہام ہیں۔

عدالت عظمیٰ میں 40 سے زائد سماعتیں ہوئیں—فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ
عدالت عظمیٰ میں 40 سے زائد سماعتیں ہوئیں—فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ

انہوں نے کہا کہ یہ الزام عائد کیا گیا کہ جسٹس عیسیٰ نے جان بوجھ کر جائیدادیں چھپائیں جبکہ عدالتی کمیٹی کہتی ہے کہ غیر ملکی اثاثے ظاہر کرنے سے متعلق قانون میں بھی ابہام ہے۔

جسٹس عیسیٰ کے وکیل کی بات پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ کا مؤقف تھا کہ ریفرنس سے پہلے جج کی اہلیہ سے دستاویز لی جائیں، گزشتہ روز کی سماعت کے بعد آپ کے مؤقف کو تقویت ملتی ہے۔

منیر اے ملک کا کہنا تھا کہ کیا ہم ایسا قانون چاہتے ہیں کہ ایک ادارہ دوسرے کی جاسوسی کرے؟ جس پر جسٹس یحییٰ آفریدی کا کہنا تھا کہ جج کے بنیادی حقوق زیادہ اہم ہیں، یا ان کا لیا گیا حلف؟ اس پر منیر اے ملک کا کہنا تھا کہ عدالت درخواست کو انفرادی شخص کے حقوق کی پٹیشن کے طور پر نہ لے۔

اس پر جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ جسٹس فائز عیسی گزشتہ دنوں سپریم کورٹ آئے تھے، کیا جج نے بنیادی حق استعمال کرکے حلف کی خلاف ورزی نہیں کی، کیا اس طرح جسٹس عیسیٰ کا عدالت آنا ضابطہ اخلاق کے منافی نہیں۔

جس کے جواب میں منیر اے ملک نے کہا کہ اس بات کا انحصار اس پر ہے کہ جج اپنی ذات کے لیے آئے یا یا عدلیہ کے لیےآئے تھے، آج قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس دائر ہے تو کل نجانے کس کے خلاف ہو۔

ساتھ ہی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل منیر اے ملک کا جواب الجواب پورا ہوگیا۔

جسٹس عیسیٰ کے وکیل کے جواب الجواب کے بعد سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے وکیل حامد خان نے دلائل دینا شروع کیے اور کہا کہ اسلام ہر مرد اور عورت کو جائیداد رکھنے کا حق دیتا ہے۔

اس موقع پر حامد خان نے قرآن پاک کی سورۃ النسا کا بھی حوالہ دیا۔

اے آر یو کو لامحدود اختیارات دیئے گئے، رضا ربانی

سماعت کے دوران سندھ بار کونسل کے وکیل رضا ربانی نے بھی دلائل دیے اور کہا کہ ‏قوائد میں جن ایجنسیوں کا ذکر ہے وہ پہلے سے قائم شدہ ہیں، جس پر جسٹس منصور علی شاہ بولے کے جتنی بھی ایجنسیاں موجود ہیں ان کو قانون کی سپورٹ بھی حاصل ہے، تاہم اس کے جواب میں رضا ربانی نے کہا کہ اے آر یو کو لامحدود اختیارات دیئے گئے۔

رضا ربانی کا کہنا تھا کہ نوٹیفیکیشن کے مطابق اے آر یو کو کابینہ کے فیصلے کا تحفظ حاصل ہے، ‏اے آر یو یونٹ کے لیے قانون سازی نہیں کی گئی۔

انہوں نے کہا کہ تاثر دیا گیا کہ آے ار یو قانونی فورس ہے، حکومت کے مطابق وزیر اعظم ادارہ بنا سکتے ہیں تاہم وزیراعظم وزارت یا ڈویژن بنا سکتے ہیں۔

بعد ازاں بار کونسل کے وکلا کے بھی دلائل مکمل ہوگئے جس کے بعد عدالت میں کیس کی سماعت مکمل ہوگئی۔

سابق وزیرقانون فروغ نسیم عدالت میں پیش ہوئے—فوٹو: ڈان نیوز
سابق وزیرقانون فروغ نسیم عدالت میں پیش ہوئے—فوٹو: ڈان نیوز

اس موقع پر جسٹس عمر عطا بندیال کی جانب سے یہ ریمارکس دیے گئے کہ یہ ہمارے لیے بڑا اہم معاملہ ہے، ہمیں سوچنے کا وقت دیں۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ بار کونسل اور بار ایسوسی ایشن کا عدلیہ پر مکمل اعتماد ہے، تاہم سوال یہ ہے کہ ریفرنس مکمل خارج کردیں؟

ساتھ ہی سپریم کورٹ نے سماعت مکمل ہونے کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا، جس کا مختصر فیصلہ 4 بجے کے بعد سنا دیا گیا۔

جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ کا بیان

خیال رہے کہ گزشتہ روز کیس کی سماعت کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ نے ان 3 آف شور جائیدادوں کی خریداری کے لیے استعمال ہونے والے فنڈز کے ثبوت فراہم کردیے تھے جس کی منی ٹریل ان کے شوہر کے خلاف صدارتی ریفرنس میں اہم ہے۔

ان ثبوتوں پر جسٹس عمر عطا بندیال نے یہ ریمارکس دیے تھے کہ جائیدادوں کے لیے (رقم کے) ذرائع کے حوالے سے جو مواد فراہم کیا گیا ہم اس سے کافی مطمئن ہیں۔

عدالت کے سامنے اپنے بیان میں زرینا مونتیسرات کریرا کھوسو نے یہ بتانے کی کوشش کی کہ لندن کی ان جائیدادوں میں جسٹس عیسیٰ نے کچھ نہیں کیا جس کی بنیاد پر ان کے شوہر کے خلاف صدارتی ریفرنس تیار کیا گیا۔

واضح رہے کہ جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ نے اپنے نام سے متعلق بھی واضح کیا تھا اور بتایا تھا اور پیدائش کا سرٹیکفیٹ بھی عدالت میں دکھایا تھا جس میں ان کا پہلا نام موجود تھے۔

انہوں نے کہا تھا کہ لوگوں نے ان کا نام 'سرینا' ہونے پر مذاق اڑیا جبکہ اسپیشن (ہسپانوی) زبان میں زرینا کو 'سرینا' کہا جاتا ہے ساتھ ہی جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ نے بتایا تھا کہ ان کا نام شناختی کارڈ پر سرینا عیسیٰ ہے، ان کی والدہ اسپین ہیں جبکہ ان کے پاس اسپینش پاسپورٹ ہے۔

اہلیہ جسٹس عیسیٰ نے کہا تھا کہ یہ الزام لگایا گیا کہ میں نے جج کے آفس کا غلط استعمال کیا، جب میرے خاوند وکیل تھے تو مجهے پاکستان کا 5 سال کا ویزا جاری ہوا۔

انہوں نے وضاحت کی تھی کہ مجھے 5 سال کا ویزا اس وقت ملا جب میرے خاوند جج نہیں تھے، میرا ویزا ختم ہوا تو نئے ویزے کے لیے اپلائی کر دیا پھر جب دوسرا ویزا جاری ہوا تو وہ سپریم کورٹ کے جج نہیں تھے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ—فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ—فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ

انہوں نے بتایا تھا کہ جنوری 2020 میں مجھے صرف ایک سال کا ویزا جاری ہوا، یہ ویزا جاری کرنے سے پہلے مجھے ہراساں کیا گیا، ہراساں کرنے کے لیے کم مدت کا ویزا جاری کیا گیا۔

عدالت میں اپنا بیان ریکارڈ کرواتے ہوئے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ آبدیدہ بھی ہوئی تھیں تاہم انہوں نے یہ بھی بتایا تھا کہ ان کے شوہر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے انہیں مشورہ دیا کہ انہیں (اس معاملے میں) نہیں پڑنا چاہیے کیونکہ ریفرنس ان سے متعلق ہے لیکن زرینا عیسیٰ نے کہا کہ وہ چاہتی ہیں کہ ان کا اور ان کے خاندان کا نام صاف ہو، ساتھ ہی یہ بھی کہا تھا کہ اپنوں نے ایسا کیس بنایا جیسے ماسٹر مائنڈ کرمنل (مجرم) ہوں۔

سپریم کورٹ کے سامنے بیان ریکارڈ کرواتے ہوئے جائیدادوں کے بارے میں اہلیہ جسٹس عیسیٰ نے کہا تھا کہ پہلی جائیداد 2004 میں برطانیہ میں خریدی، برطانیہ میں جائیداد کی خریداری کے لیے پاسپورٹ کو قبول کیا گیا۔

انہوں نے اپنے بیان میں یہ بھی بتایا تھا کہ وہ کراچی میں امریکن اسکول میں وہ ملازمت کرتی رہیں، ریحان نقوی ان کے ٹیکس معاملات کے وکیل تھے، ان کی جانب سے گوشوارے جمع کروانے پر حکومت نے انہیں ٹیکس سرٹیفکیٹ جاری کیا لیکن ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ میرا ٹیکس ریکارڈ کراچی سے اسلام آباد منتقل کردیا گیا، ایف بی آر سے ریکارڈ کی منتقلی کا پوچھا تو کوئی جواب نہیں دیا گیا۔

زرینا عیسیٰ نے کہا تھا کہ ‏کلفٹن بلاک 4 میں جائیداد خریدی، بعد ازاں کلفٹن کی جائیداد فروخت کردی گئی، اس کے علاوہ شاہ لطیف میں خریدی گئی ایک اور جائیداد بھی فروخت کر دی گئی۔

انہوں نے بتایا تھا کہ ان کی زرعی زمین ان کے نام پر ہے، زرعی زمین کا خاوند سے تعلق نہیں ہے، زرعی زمین والد سے ملی ہے، یہ زمین سندھ کے ضلع جیکب آباد اور ڈیرہ مراد جمالی بلوچستان میں ہے، ان زرعی زمین کی دیکھ بھال ان کے والد کرتے تھے جبکہ حکومت کو میری زمین کے بارے میں پتا تھا۔

اپنے بیان کے دوران انہوں نے لندن کی جائیدادوں اور پاکستان سے رقم منتقلی کے بارے میں بھی سب کچھ بتایا تھا اور کہا تھا کہ انہوں نے 2003 سے 2013 کے درمیان جائیدادیں خریدیں اور اسیٹنڈرڈ چارٹرڈ بینک کے ذریعے 7 لاکھ پاؤنڈ کی رقم منتقل کی جو ان کے نام پر منتقل کی گئی، اس کے علاوہ 'بینک نے ہرٹرانزیکشن کی رپورٹس اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو دی'۔

جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ نے یہ بھی بتایا تھا کہ پہلی جائیداد 2004 میں ان کے نام پر 2 لاکھ 36 ہزار پاؤنڈز، دوسری جائیداد 2013 میں ان کے اور ان کے بیٹے کے نام پر 2 لاکھ 45 ہزار پاؤنڈز جبکہ تیسری جائیداد ان کی بیٹی کے نام پر 2 لاکھ 70 ہزار پاؤنڈز میں خریدی گئی۔

صدارتی ریفرنس سے فل کورٹ کی سماعت تک

سپریم کورٹ کے سینئر ترین ججز میں سے ایک جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کا معاملہ مئی 2019 کے اواخر میں سامنے آیا۔

سپریم جوڈیشل کونسل میں صدر مملکت کی جانب سے بھجوائے گئے ریرنس میں جسٹس عیسیٰ پر یہ الزام لگایا گیا تھا کہ انہوں نے برطانیہ میں اپنی ان جائیدادوں کو چھپایا جو مبینہ طور پر ان کی بیوی اور بچوں کے نام ہیں۔

صدارتی ریفرنس میں اثاثوں کے حوالے سے مبینہ الزامات عائد کرتے ہوئے سپریم جوڈیشل کونسل سے آرٹیکل 209 کے تحت کارروائی کی استدعا کی تھی۔

یاد رہے کہ ججز کی بے ضابطگیوں اور دیگر شکایات درج کرانے کا واحد فورم سپریم جوڈیشل کونسل ہے۔

ریفرنس دائر ہونے کی خبر کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدر ڈاکٹر عارف علوی کو خطوط لکھے تھے، پہلے خط میں انہوں نے کہا تھا کہ ذرائع ابلاغ میں آنے والی مختلف خبریں ان کی کردارکشی کا باعث بن رہی ہیں، جس سے منصفانہ ٹرائل میں ان کے قانونی حق کو خطرات کا سامنا ہے۔

عدالت نے اکثریتی فیصلہ سنایا—فائل فوٹو: شٹر اسٹاک
عدالت نے اکثریتی فیصلہ سنایا—فائل فوٹو: شٹر اسٹاک

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدر مملکت سے یہ درخواست بھی کی تھی کہ اگر ان کے خلاف ریفرنس دائر کیا جاچکا ہے تو اس کی نقل فراہم کردی جائے کیونکہ مخصوص افواہوں کے باعث متوقع قانونی عمل اور منصفانہ ٹرائل میں ان کا قانونی حق متاثر اور عدلیہ کے ادارے کا تشخص مجروح ہو رہا ہے۔

صدر مملکت کو اپنے دوسرے خط میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا تھا کہ انہوں نے لندن میں موجود جائیدادوں سے متعلق کچھ نہیں چھپایا۔

دوسرے خط میں جسٹس قاضی فائز نے استفسار کیا تھا کہ آیا وزیراعظم پاکستان عمران خان نے اپنے ٹیکس ریٹرنز میں اپنی بیویوں اور بچوں کی ملکیت میں موجود جائیدادوں کی تفصیلات فراہم کی ہیں، اگر وزیراعظم نے خود ایسا نہیں کیا تھا تو انہیں صدر کو ریفرنس دائر کرنے کی تجویز نہیں دینی چاہیے تھی۔

یہاں یہ بات واضح رہے کہ عدالت عظمیٰ میں جسٹس عیسیٰ پر ریفرنس کے خلاف سماعتوں میں فیض آباد دھرنا کیس کا کئی مرتبہ ذکر کیا گیا تو یہ واضح رہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے 6 فروری 2019 کو فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ سنایا تھا اور اس کیس میں عدالت عظمیٰ نے حکومت، قانون نافذ کرنے والے اداروں، خفیہ ایجنسیوں اور پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کو ہدایت کی تھی کہ وہ اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے کام کریں۔

سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس بھیجنے کے بعد 3 جون 2019 کو وزارت قانون و انصاف کے ترجمان اور وزیر اعظم کے دفتر کے اثاثہ جات وصولی یونٹ (اے آر یو) نے ایک مشترکہ بیان میں دعویٰ کیا کہ انہیں اعلیٰ عدالتوں کے ججز کی برطانیہ میں رجسٹرڈ جائیدادوں کی مصدقہ نقول موصول ہوگئیں جن کی بنیاد پر سپریم جوڈیشل کونسل ریفرنس دائر کیا گیا تھا۔

تاہم اس کے جواب میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدر مملکت کو دوسرا خط لکھا اور کہا کہ انہوں نے لندن میں موجود جائیدادوں سے متعلق کچھ نہیں چھپایا۔

بعد ازاں سپریم جوڈیشل کونسل میں 14 جون 2019 کو اس معاملے کو سننے کے لیے پہلا اجلاس ہوا، اس پہلی سماعت کی سربراہی اس وقت کے چیف جسٹس پاکستان آصف سعید کھوسہ نے کی جبکہ ان کے ہمراہ جسٹس گلزار احمد، جسٹس شیخ عظمت سعید، سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس احمد علی محمد شیخ اور پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ پر مشتمل کونسل کے 5اراکین شامل تھے۔

14 جون کی سماعت کے بعد جسٹس قاضی فائر عیسیٰ کو صدارتی ریفرنس کی نقول فراہم کر کے ان سے الزامات پر جواب طلب کیا گیا تھا تاہم اس وقت سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے اظہارِ وجوہ کا نوٹس نہیں جاری کیا گیا تھا۔

بعد ازاں 12 جولائی کو ہونے والی سپریم جوڈیشل کونسل کی سماعت کے بعد ریفرنس کے حوالے سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو اظہارِ وجوہ کا نوٹس جاری کیا گیا تھا جس میں ان پر برطانیہ میں اہلیہ اور بچوں کے نام پر جائیداد رکھنے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔

تاہم جسٹس عیسیٰ جو یہ نوٹس 17 جولائی کو موصول ہوا تھا جس میں انہیں 15 روز میں جواب دینے کی ہدایت کی گئی تھی۔ 27 جولائی کو سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اس وقت کے چیف جسٹس پاکستان سے درخواست کی تھی کہ ان کے خلاف ثبوت مہیا کیے جائیں تا کہ اظہارِ وجوہ کے نوٹس کے جواب میں وہ اپنا جواب تیار کرلیں۔

بعد ازاں 7 اگست 2019 جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے خلاف صدارتی ریفرنس کو ذاتی طور پر عدالت عظمیٰ میں چیلنج کردیا۔

جسٹس قاضیٰ فائز عیسیٰ کی جانب سے عدالت عظمیٰ میں 300 سے زائد صفحات پر مشتمل تفصیلی درخواست دائر کی گئی تھی، جس میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ میرے خلاف ریفرنس بدنیتی پر مبنی ہے، لہٰذا عدالت سے استدعا ہے کہ میری درخواست پر فیصلہ آنے تک سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی روکی جائے۔

یہاں یہ بھی واضح رہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کی کارروائی کو رکوانے کے دیگر درخواست گزاروں نے بھی متفرق درخواستیں دائر کی تھیں۔

جس کے بعد 26 اگست کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدارتی ریفرنس پر سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کے خلاف دائر آئینی درخواست کی سماعت کے لیے سپریم کورٹ میں فل کورٹ تشکیل دینے کی درخواست جمع کرائی تھی۔ اس درخواست میں جسٹس عیسیٰ نے سپریم کورٹ سے استدعا کی تھی ان کی درخواست کے ساتھ دیگر درخواست گزاروں کی درخواستوں پر فل کورٹ تشکیل دیا جائے۔

جس کے بعد مذکورہ معاملے پر پہلے 7 رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا گیا تھا، جس میں جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس مقبول باقر، جسٹس منظور احمد ملک، جسٹس طارق مسعود، جسٹس فیصل عرب، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل شامل تھے۔

تاہم یہ بینچ 17 ستمبر کو اس وقت تحلیل ہوگیا تھا جب مذکورہ کیس کی سماعت کے دوران جسٹس عیسیٰ کے وکیل منیر اے ملک نے ججز پر اعتراض اٹھایا تھا جس کے ساتھ ہینئے بینچ کی تشکیل کے لیے معاملہ چیف جسٹس پاکستان کو بھیج دیا گیا تھا۔

جسٹس عمر عطا فل کورٹ کے سربراہ تھے—فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ
جسٹس عمر عطا فل کورٹ کے سربراہ تھے—فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ

منیر اے ملک کی جانب سے ججز پر اعتراض اٹھایا گیا تھا کہ 'جن ججز نے چیف جسٹس بننا ہے، ان کی دلچسپی ہے، اس بینچ کے 2 ججز ممکنہ چیف جسٹس بنیں گیے اور ان دو ججز کا براہ راست مفاد ہے'، بعد ازاں اس وقت بینچ میں شامل جسٹس طارق مسعود نے کہا تھا کہ ہم پہلے ہی ذہن بنا چکے تھے کہ بینچ میں نہیں بیٹھنا، اس کے ساتھ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے تھے کہ ہم نے جو حلف اٹھایا ہے تمام حالات میں اس کا پاس رکھنا ہوتا ہے، ہمارے ساتھی جج کی جانب سے ہمارے بارے میں تحفظات افسوسناک ہیں۔

علاوہ ازیں سپریم کورٹ نے دونوں ججز جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس سردار طارق مسعود نے خود کو بینچ سے الگ کردیا تھا اور بینچ تحلیل ہوگیا تھا۔

جس کے بعد 20 ستمبر 2019 کو اس وقت کے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے صدارتی ریفرنس کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کے لیے نیا 10 رکنی فل کورٹ تشکیل دیا تھا۔

عدالت عظمیٰ کے اس 10 رکنی بینچ کا سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال کو بنایا گیا تھا جبکہ ان کے علاوہ جسٹس مقبول باقر، جسٹس منظور احمد ملک، جسٹس فیصل عرب، جسٹس مظہر عالم خان، جسٹس سجاد علی شاہ، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس قاضی امین احمد اس کا حصہ تھے۔

بعد ازاں اس معاملے پر فل کورٹ نے کیس کی سماعت کی تھی جہاں حکومت کی جانب سے اس وقت کے اٹارنی جنرل برائے پاکستان انور منصور خان جبکہ جسٹس عیسیٰ کی جانب سے ان کی قانون ٹیم کے رکن اور سینئر وکیل منیر اے ملک نے دلائل دیے تھے جبکہ ان کی غیر موجودگی میں دیگر ٹیم کے رکن نے مؤقف عدالت کے سامنے رکھا تھا۔

بعد ازاں فل کورٹ مذکورہ معاملے کو سن رہا تھا اور رواں سال فروری میں سپریم کورٹ نے جسٹس عیسیٰ کی صدارتی ریفرنس کے خلاف درخواستوں کی سماعت کے دوران اثاثہ جات برآمدی یونٹ کے اختیارات سمیت 2 قانونی نکات اٹھائے تھے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کیا تھا کہ پہلا نکتہ ہے کہ جج کے خلاف انکوائری کا اختیار اثاثہ جات برآمدی یونٹ کو کس نے دیا جبکہ دوسرا یہ کہ کس قانون کے تحت حکومتی حکام نے ریفرنس کو پبلک کیا۔

منیر اے ملک نے ابتدائی طور معاملے پر دلائل دیے تھے اور یہ کیس طویل سماعتوں کے ساتھ جاری رہا تھا جبکہ رواں سال کے آغاز میں انور منصور کے دلائل دینے کی باری آئی تھی۔

تاہم اس کیس میں صورتحال اس وقت ایک ڈرامائی موڑ اختیار کرگئی تھی جب اس وقت کے اٹارنی جنرل انور منصور خان نے عدالت عظمیٰ کے سامنے ایسا بیان دیا تھا کہ اسے حذف کردیا گیا تھا۔

18 فروری کو اپنے دلائل کے آغاز کے پہلے روز ہی صورتحال اس وقت ناخوشگوار ہوگئی تھی جب اٹارنی جنرل نے شعلہ بیانی سے دلائل کا آغاز کیا تھا۔

اٹارنی جنرل نے فل کورٹ کے سامنے ایک بیان دیا تھا، جس پر ججز نے انہیں استثنیٰ دیتے ہوئے بیان سے دستبردار ہونے کا کہا تھا، ساتھ ہی مذکورہ بیان کو ’بلاجواز‘ اور ’ انتہائی سنگین‘ قرار دیا تھا۔

اس بیان سے متعلق عدالت نے میڈیا کو رپورٹنگ سے روک دیا تھا۔

اسی روز کی سماعت میں اٹارنی جنرل نے کہا تھا کہ انہیں احساس ہے کہ انہوں نے کچھ ایسا کہا تھا کہ جو عدالتی بینچ کے لیے خوشگوار نہیں تھا، جس کے جواب میں بینچ کے رکن جسٹس مقبول باقر نے ردعمل دیا تھا کہ ’یہ بلاجواز' تھا۔

ساتھ ہی عدالت کے ایک اور رکن جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے تھے کہ انور منصور کو اپنے بیان سے دستبردار ہونا چاہیے۔

تاہم اس وقت اٹارنی جنرل نے بیان واپس لینے سے انکار کردیا تھا جس کے ساتھ ہی عدالت نے میڈیا کو بیان شائع کرنے سے منع کردیا تھا کیونکہ بعدازاں یہ رپورٹ ہوا تھا کہ ’اٹارنی جنرل اپنے بیان سے دستبردار ہوگئے تھے‘۔

بعد ازاں 19 فروری کو جسٹس عیسیٰ کیس کی جب دوبارہ سماعت ہوئی تھی تو جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے تھے کہ کل آپ نے اتنی بڑی بات کردی ہے، یہ دلائل کا طریقہ کار نہیں، تحریری طور پر اپنے دلائل دیں۔

اس پر اٹارنی جنرل نے کہا تھا کہ تحریری دلائل نہیں دے سکتا، جس پر عدالت نے ریمارکس دیے تھے کہ اٹارنی جنرل نے بینچ کے حوالے سے گزشتہ روز کچھ بیان دیا، اٹارنی جنرل اپنے بیان کے حوالے سے مواد عدالت میں پیش کریں، اگر اٹارنی جنرل کو مواد میسر نہیں آتا تو تحریری معافی مانگیں۔

تاہم یہ قیاس آرائیاں کی جارہی تھیں کہ اٹارنی جنرل کی جانب سے عدالت عظمیٰ میں ججز کی جاسوسی سے متعلق کوئی بات کی گئی تھی۔

بعد ازاں سپریم کورٹ میں 'متنازع بیان' دینے کے بعد 20 فروری کو انور منصور خان نے اٹارنی جنرل فار پاکستان کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا جبکہ حکومت کا کہنا تھا کہ ان سے استعفیٰ مانگا گیا تھا۔

حکومت کی جانب سے یہ کہا گیا تھا کہ عدالت عظمیٰ میں دیے گئے بیان سے حکومت کا کوئی تعلق نہیں نہ ہی اس بارے میں حکومت کو پتہ تھا بلکہ یہ انور منصور کی ذاتی رائے تھی تاہم سابق اٹارنی جنرل انور نے کہا تھا کہ سپریم کورٹ میں دیے گئے بیان سے حکومت آگاہ تھی۔

بعد ازاں حکومت نے خالد جاوید خان کو نیا اٹارنی جنرل مقرر کیا تھا تاہم انہوں نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس میں حکومت کی نمائندگی کرنے سے انکار کردیا تھا۔

مذکورہ معاملے کی 24 فروری کو ہونے والی سماعت میں عدالت نے حکومت کو اس معاملے کے ایک کُل وقتی وکیل مقرر کرنے کا کہا تھا، جس کے بعد معاملے کو طویل وقفے تک ملتوی کردیا گیا تھا، جس کے بعد مذکورہ معاملے میں وفاق کی نمائندگی کے لیے فروغ نسیم نے وزیر قانون کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا اور وہ پیش ہوئے تھے۔

ایک طویل وقفے کے بعد اس کیس کی سماعت جون کے آغاز سے دوبارہ شروع ہوئی تھی اور گزشتہ 2 ہفتوں سے روزانہ کی بنیاد پر اس کیس کی سماعت ہورہی تھی اور آج کی سماعت میں کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا گیا تھا جسے بعد میں سناتے ہوئے ریفرنس کو کالعدم قرار دے دیا گیا۔

تبصرے (0) بند ہیں