سپریم کورٹ: ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ مسترد، چوہدری پرویز الہٰی وزیر اعلیٰ پنجاب قرار

اپ ڈیٹ 27 جولائ 2022
سپریم کورٹ نے پرویز الہٰی کو وزیراعلیٰ قرار دے دیا---فوٹو: ڈان نیوز
سپریم کورٹ نے پرویز الہٰی کو وزیراعلیٰ قرار دے دیا---فوٹو: ڈان نیوز
سپریم کورٹ وزیراعلیٰ پنجاب کے الیکشن کے حوالے سے درخواستوں کی سماعت کر رہا ہے — فائل فوٹو: اے ایف پی
سپریم کورٹ وزیراعلیٰ پنجاب کے الیکشن کے حوالے سے درخواستوں کی سماعت کر رہا ہے — فائل فوٹو: اے ایف پی

سپریم کورٹ نے وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے حوالے سے ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری کی جانب سے مسلم لیگ(ق) کے 10 ووٹ مسترد کرنے کی رولنگ رد کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے امیدوار چوہدری پرویز الہٰی کو نیا وزیراعلیٰ قرار دے دیا۔

چیف جسٹس عمر عطابندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے محفوظ فیصلہ سنادیا اور فیصلے کا آغاز قرآن پاک کی آیت سے کیا گیا ۔

سپریم کورٹ کا 11 صفحات پر مشتمل مختصر فیصلہ چیف جسٹس نے سنایا اور کہا گیا کہ تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔

عدالت نے فیصلے میں کہا کہ پرویز الہٰی کی درخواست منظور کی جاتی ہے اور ڈپٹی اسپیکر کی جانب سے سپریم کورٹ کے مختصر فیصلے اور آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح درست نہیں کی گئی اس لیے یہ برقرار نہیں رہ سکتی ہے۔

فیصلے میں ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی کی رولنگ کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ پرویز الہیٰ وزیراعلیٰ پنجاب ہیں اور چیف سیکریٹری پرویز الہٰی کی وزیراعلیٰ تعیناتی کا نوٹیفیکیشن جاری کرے۔

سپریم کورٹ نے کہا کہ حمزہ شہباز کی بنائی گئی کابینہ تحلیل کردی گئی ہے اور پرویز الہیٰ آج رات ساڑھے گیارہ بجے حلف اٹھائیں۔

فیصلے میں ہدایت کی گئی ہے کہ عدالتی فیصلے کی کاپی گورنر کو ارسال کی جائے، گورنر اگر حلف لینے سے انکار کرے تو صدر مملکت حلف لیں۔

سپریم کورٹ نے مزید کہا ہے کہ حمزہ شہباز کے لگائے گئے تمام مشیران، معاونین کو بھی فارغ کرنے کا حکم دیا جاتا ہے۔

قبل ازیں سپریم کورٹ نے وزیر اعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے حوالے سے ڈپٹی اسپیکر دوست مزاری کی رولنگ کے خلاف دائر درخواست پر حکومتی اتحاد کے بائیکاٹ کے بعد درخواست گزاروں کے وکلا کے دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

سپریم کورٹ نے فیصلہ ابتدائی طور پر شام 5:45 پر سنانے کا اعلان کیا تھا تاہم تاخیر کے بعد 7:30 بجے سنانے کا اعلان کیا گیا مگر مزید تاخیر کی گئی اور 9 بجے سے پہلے سنایا گیا۔

گزشتہ روز فل کورٹ بینچ کے لیے حکومتی اتحاد کی درخواست مسترد کرنے کے بعد سپریم کورٹ میں آج حال ہی میں ہونے والے وزیر اعلیٰ پنجاب کے دوبارہ انتخاب سے متعلق درخواست پر دوبارہ سماعت ہوئی۔

چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی سردار دوست محمد مزاری کی رولنگ پر دلائل سنے جس کے نتیجے میں حمزہ شہباز کو وزیر اعلیٰ کے انتخاب میں فاتح قرار دیا گیا تھا۔

پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری کے وکیل عرفان قادر نے وزیر اعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے حوالے سے سپریم کورٹ میں جاری مقدمے کی کارروائی میں مزید حصہ نہ لینے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ وہ عدالت کی جانب سے فل بینچ تشکیل نہ دینے کے فیصلے پر نظرثانی کی درخواست دائر کریں گے۔

قبل ازیں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے بھی عدالتی کارروائی میں حصہ لینے سے انکار کردیا۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ نے وزیر اعلیٰ کے انتخاب کیس میں فل کورٹ تشکیل دینے کی درخواستیں مسترد کردیں

سماعت ساڑھے 11 بجے کے بعد شروع ہوئی، حکمراں اتحاد نے کہا کہ وہ احتجاجاً کارروائی کا بائیکاٹ کرے گی جبکہ دونوں فریقین کے وکلا پہلے ہی عدالت پہنچ گئے تھے۔

چیف جسٹس نے فاروق ایچ نائیک سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں فل کورٹ بنانے پر ایک بھی قانونی نقطہ نہیں بتایا گیا، آپ نے وقت مانگا تھا اس لیے سماعت ملتوی کی، عدالت میں موجود رہیں اور کارروائی دیکھیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ابھی تک قانونی سوال کا جواب نہیں دیا گیا، سوال یہ تھا کہ کیا پارٹی سربراہ پارلیمانی پارٹی کو ہدایات جاری کر سکتا ہے یا نہیں، قانون کے مطابق پارلیمانی پارٹی نے فیصلہ کرنا ہوتا ہے اور پارٹی سربراہ پالیسی سے انحراف پر ریفرنس بھیج سکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس سوال کے لیے فل کورٹ نہیں بنایا جاسکتا، ہم نے تمام فریقین کو قانونی نقطے پر دلائل کے لیے وقت دیا۔

مزید پڑھیں: وزیراعلیٰ پنجاب کا انتخاب: چوہدری شجاعت، جے یو آئی، پیپلز پارٹی کی کیس میں فریق بننے کی درخواست

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ 1998 میں نگراں کابینہ کو سپریم کورٹ نے معطل کردیا تھا، چیف ایگزیکٹو ہی کابینہ کا سربراہ ہوتا ہے، ہم پنجاب میں وزیر اعلیٰ کا معاملہ جلد از جلد نمٹانا چاہتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ فل کورٹ کے نکتے پر قائل نہ ہوسکے، دلائل میں فل کورٹ کا کہا گیا، فل کورٹ کی تشکیل ستمبر کے دوسرے ہفتے تک ممکن نہیں، ہم اس معاملے کو یوں طول نہیں دے سکتے، یہ محض تاخیری حربے ہیں۔

کیس میں مزید تاخیری حربے برداشت نہیں کریں گے، چیف جسٹس

چیف جسٹس نے کہا کہ ستمبر کے دوسرے ہفتے سے قبل فل کورٹ نہیں بن سکتا، اب اس کیس کے میرٹس پر دلائل سنیں گے، اس کیس کا فیصلہ نہ ہونے کے باعث ایک صوبے میں بحران ہے، اس کیس میں مزید تاخیری حربے برداشت نہیں کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ 21ویں ترمیم کا حوالہ پیش کیا گیا، جسٹس عظمت سعید نے 18ویں ترمیم میں آبزرویشن دی کہ ووٹ پارٹی سربراہ کی ہدایات پر دیا جاتا ہے، 18ویں ترمیم اس کیس سے مختلف ہے، ہمیں اس معاملے پر معاونت درکار ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ‘اگر فل کورٹ مسترد کیا جاتا ہےتو ہم بھی عدلیہ کے فیصلے کو مسترد کرتے ہیں’

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ اگر کسی نے کچھ غلط سمجھا تو اسے درست کیا جاسکتا ہے، غلط طور پر آئین کو سمجھنے کا مقصد ہے کہ آئین کو درست انداز میں نہیں سمجھا گیا۔

انہوں نے کہا کہ دلائل کے دوران 21ویں ترمیم کیس کا حوالہ دیا گیا، 21ویں ترمیم والے فیصلے میں آبزرویشن ہے کہ پارٹی سربراہ ووٹ دینے کی ہدایت کر سکتا ہے، آرٹیکل 63 اے کی تشریح میں کون ہدایت دے گا یہ سوال نہیں تھا، تشریح کے وقت سوال صرف منحرف ہونے کے نتائج کا تھا۔

انہوں نے سوال کیا کہ کیا 17 میں سے 8 ججز کی رائے کی سپریم کورٹ پابند ہوسکتی ہے؟ فل کورٹ بینچ کی اکثریت نے پارٹی سربراہ کے ہدایت دینے سے اتفاق نہیں کیا تھا، عدالت کے سامنے 8 ججز کے فیصلے کا حوالہ دیا گیا، آرٹیکل 63 اے سے متعلق 8 ججز کا فیصلہ اکثریتی نہیں ہے، فیصلہ 9 رکنی ہوتا تو اکثریتی کہلاتا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ عدالتی بائیکاٹ کرنے والوں نے اتنی گریس دکھائی ہے کہ بیٹھ کر کارروائی سن رہے ہیں، میں اپنے کام کو عبادت سمجھ کر کرتا ہوں، عدالت کا بائیکاٹ کرنے والے تھوڑا دل بڑا کریں اور کارروائی سنیں۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ کا فل بینچ نہیں بنتا تو سماعت کا بائیکاٹ کریں گے، رانا ثنا اللہ

انہوں نے بیرسٹر علی ظفر کو ہدایت کی کہ قانونی سوالات پر عدالت کی معاونت کریں اور دوسرا راستہ ہے کہ ہم بینچ سے الگ ہو جائیں۔

اس موقع پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ عدالت نے گزشتہ روز تفصیلی دلائل سنے، یہاں معاملہ آرٹیکل 63-اے کی تشریح کا نہیں ہے، سپریم کورٹ پہلے ہی اس معاملے کی تشریح کر چکی ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہاں معاملہ صرف پارٹی سربراہ کی ڈائریکشن کا ہے، 18ویں ترمیم میں پارٹی سربراہ کو منحرف ارکان کے خلاف کارروائی کا اختیار دیا گیا ہے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ جج کا بار بار اپنی رائے تبدیل کرنا اچھی مثال نہیں ہوتی، جج کی رائے میں یکسانیت ہونی چاہیے۔

آرٹیکل 27 اے کے تحت عدالت کی معاونت کروں گا، ایڈیشنل اٹارنی جنرل

اس مرحلے پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمٰن نے روسٹرم پر آکر کہا کہ عدالت کی خدمت میں چند گزارشات پیش کرنا چاہتا ہوں۔

جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ کیا وفاقی حکومت، حکمراں اتحاد کے فیصلے سے الگ ہوگئی ہے؟ جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرٹیکل 27 اے کے تحت عدالت کی معاونت کروں گا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ فیصلے میں کوئی غلطی نہ ہوجائے اس لیے سب کو معاونت کی کھلی دعوت ہے۔

پی ٹی آئی کے وکیل امتیاز صدیقی ایڈووکیٹ نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ پارٹی سربراہ کی ہدایات بروقت آنی چاہیے، ڈپٹی اسپیکر نے کہا کے مجھے چوہدری شجاعت کا خط موصول ہوا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ چوہدری شجاعت کے وکیل نے کہا کہ تمام پارٹی اراکین کو خط بھیجا گیا تھا، انہیں پارٹی سربراہ کی واضح ہدایات تھیں۔

امتیاز صدیقی نے جواب دیا کہ پنجاب اسمبلی کی کارروائی آپ کے سامنے ہے، عدالت کو علم ہے کہ ووٹنگ کیسے ہوئی، وفاقی حکومت تمام ذرائع بروئے کار لائی، پارٹیوں کے سربراہ کیسے لاہور میں جمع ہوئے یہ سب کے سامنے ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کیا ووٹنگ سے پہلے خط پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں پڑھا گیا؟ انہوں نے فاروق ایچ نائیک سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ نائیک صاحب، اگر کچھ بہتری آ سکتی ہے تو عدالت سننے کیلئے تیار ہے، اس پر فاروق ایچ نائیک نے جواب دیا کہ مسئلہ یہ ہے کہ ان مقدمات میں ہم پارٹی پالیسی کے پابند ہوتے ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ مخالف فریقین کیس سن رہے ہیں لیکن دلائل نہیں دے رہے، اس وقت ان کی حیثیت ایسے ہی ہے جیسے اقوام متحدہ میں مبصر ممالک کی ہوتی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ تمام فریقین معاونت کریں تو بہتر طریقے سے فیصلے پر پہنچ سکتے ہیں، بائیکاٹ کرنے والے اپنے فیصلے پر نظرثانی کریں تو سب کے لیے بہتر ہوگا۔

بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت میں ڈھائی بجے تک وقفہ کردیا۔

سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو چیف جسٹس نے کہا کہ پارٹی سربراہ کے اہم کردار کی بات کی گئی ہے، نواز شریف پارٹی صدارت کیس میں سپریم کورٹ نے کہا کہ پارٹی سربراہ سیاسی جماعت کو کنٹرول کرتا ہے، ہم اس معاملے کو دیکھیں گے۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ پارٹی سربراہ کی اہمیت سے کسی کو انکار نہیں، پارٹی سربراہ پارلیمانی پارٹی کو ہدایات دے سکتا ہے لیکن ڈکٹیٹ نہیں کر سکتا، ووٹ کا فیصلہ پارلیمانی پارٹی نے کرنا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اختیارات پارٹی سربراہ کے ذریعے آتے ہیں، پارٹی سربراہ کا اہم کردار ہے لیکن پارلیمانی پارٹی کا سربراہ ووٹنگ کے لیے ہدایات جاری کرتا ہے۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ جو 25 اراکین صوبائی اسمبلی ڈی سیٹ ہوئے، ان میں سے کتنے اراکین نے ضمنی انتخابات میں حصہ لیا جس پر بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ 18 اراکین نے ضمنی انتخابات میں حصہ لیا۔

'الیکشن کمیشن آرٹیکل 63-اے سے منافی کوئی فیصلہ نہیں دے سکتا'

جسٹس اعجازالاحسن نے مزید کہا کہ دوسرے فریق کا یہ کیس ہے کہ پی ٹی آئی ڈی سیٹ کیس میں یہ الیکشن کمیشن کے سامنے پارٹی سربراہ کا سوال تھا، دوسرا فریق کہہ رہا ہے الیکشن کمیشن کا فیصلہ ختم ہو تو پھر حمزہ شہباز کے ووٹ 197 ووٹ پر آجائیں گے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ نے یکم جولائی کو اتفاق رائے سے فیصلہ دیا، سپریم کورٹ نے کہا الیکشن ہوگا، کیا اب اعتراض اٹھایا جاسکتا ہے۔

اس پر بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ نہیں اب معاملہ ختم ہو چکا ہے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے مزید کہا کہ سوال یہ ہے کہ کیا پارٹی سربراہ پارلیمنٹرینز کو کہہ سکتا ہے کہ ووٹ کس کو دینا ہے جس پر وکیل نے جواب دیا کہ عائشہ گلالئی کیس میں عدالت پارٹی سربراہ کی ہدایات کا طریقہ کار دے چکی ہے۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ عائشہ گلالئی کیس کا فیصلہ تو آپ کے مؤکل کے خلاف جاتا ہے جس پر وکیل علی ظفر نے جواب دیا کہ عائشہ گلالئی کیس میرے مؤکل کے خلاف لیکن آئین کے مطابق ہے، عائشہ گلالئی کیس میں بھی منحرف ہونے کا سوال سامنے آیا تھا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا عائشہ گلالئی کیس میں لکھا ہے کہ ہدایت کون دے گا؟ جس پر بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ عائشہ گلالئی کیس میں ارکان کو مختلف عہدوں کے لیے نامزد کرنے کا معاملہ تھا، عائشہ گلالئی کیس میں قرار دیا گیا کہ پارٹی سربراہ یا اس کا نامزد نمائندہ نااہلی ریفرنس بھیج سکتا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ فریق دفاع نے الیکشن کمیشن کے منحرف ارکان کے خلاف فیصلے کا حوالہ دیا ہے جس پر وکیل نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ میں الیکشن کمیشن کے فیصلے کا ذکر نہیں۔

بیرسٹر علی ظفر نے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ عدالت میں پڑھ کر سنائی اور کہا کہ اس کیس میں فل بینچ اور درخواست مسترد کرنے کا مطالبہ کیا، ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ میں تاثر دیا گیا کہ پارٹی سربراہ زیادہ اہم ہے، ڈپٹی اسپیکر نے جواب میں رولنگ کی بنیاد الیکشن کمیشن کا حکم قرار دیا ہے۔

اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن آرٹیکل 63-اے سے منافی کوئی فیصلہ نہیں دے سکتا۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ سپریم کورٹ میں متفقہ طور پر کہا گیا کہ ضمنی انتخاب کے بعد وزیر اعلیٰ پنجاب کا انتخاب کرایا جائے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا حمزہ شہباز عدالت میں موجود تھے جس پر علی ظفر نے جواب دیا کہ جی حمزہ شہباز، پرویز الہٰی دونوں پیش ہوئے، دونوں وزیر اعلیٰ پنجاب کے امیدواروں نے کہا کہ ضمنی انتخابات کے بعد الیکشن پر کوئی اعتراض نہیں۔

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ پھر اس کا کیا اثر ہوگا، نظرثانی اپیلوں کا اور الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف اپیلوں کا انتظار کرنے کا کہا جارہا ہے۔

وکیل علی ظفر نے کہا کہ اتفاق رائے سے جاری کیے گئے یکم جولائی کے فیصلے کے خلاف نظرثانی بھی دائر نہیں کی گئی، یہ معاملہ اب حتمی طور پر طے ہو چکا ہے۔

چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ کیا کوئی اور دستاویز ہے جسے پڑھنے کی ضرورت ہے۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر نے رولنگ الیکشن کمیشن کے فیصلے کے مطابق نہیں دی، ڈپٹی اسپیکر الیکشن کمیشن کے فیصلے کا پابند بھی نہیں ہے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ کل عدالت میں بھی الیکشن کمیشن کے فیصلے کا حوالہ دیا گیا تھا، سپریم کورٹ کس قانون کے تحت الیکشن کمیشن کے فیصلوں کا پابند ہے؟

وکیل علی ظفر نے کہا کہ کوئی قانون سپریم کورٹ کو الیکشن کمیشن فیصلے کا پابند نہیں بناتا۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کتنے منحرف ارکان نے ضمنی الیکشن میں حصہ لیا؟ جس پر پی ٹی آئی کے وکیل فیصل چوہدری نے جواب دیا کہ 20 میں سے 16 نے (ن) لیگ، 2 نے آزاد الیکشن لڑا، جن 18 نے الیکشن لڑا ان میں سے 17 کو شکست ہوئی۔

چیف جسٹس نے فیصل چوہدری کو ہدایت کی کہ ڈسپلن کے تحت آئندہ روسٹم پر آکر ہی بات کیا کریں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ فریق دفاع کے مطابق منحرف ارکان کے کیس میں ہدایات پارٹی سربراہ عمران خان نے دی، فریق دفاع کا کہنا ہے الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم ہوا تو 25 ارکان بحال ہوجائیں گے، فریق دفاع کا کہنا ہے کہ اپیل منظور ہونے سے حمزہ کے ووٹ 197 ہوجائیں گے، الیکشن کمیشن کے فیصلے کے بعد بہت ساری پیشرفت ہو چکی ہے۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ وزارت اعلیٰ کے الیکشن پر ہائی کورٹ کا فیصلہ آچکا ہے، الیکشن کمیشن کا فیصلہ پاسٹ اینڈ کلوز ٹرانزیکشن ہو چکی ہے اور یکم جولائی کو سپریم کورٹ نے وزارت اعلیٰ کے الیکشن پر متفقہ فیصلہ دیا۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ عدالت کو رضامندی دی گئی کہ ضمنی الیکشن ہونے دیا جائے، یہ یقین دہانی بھی دی گئی کہ ضمنی الیکشن کے نتائج پر رن آف الیکشن کرایا جائے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ یکم جولائی کو وزیراعلی کا الیکشن ضمنی انتخابات کے بعد ہونے کا حکم فریقین کے اتفاق رائے سے تھا، کیا ضمنی انتخابات کے بعد منحرف ارکان کی اپیل تک سماعت روکنے کا اعتراض ہو سکتا ہے؟

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ اصولی طور پر منحرف ارکان کی اپیلوں کو پہلے سننے کا اعتراض نہیں بنتا۔

اس موقع پر چیف جسٹس اور بیرسٹر علی ظفر کے درمیان مکالمہ ہوا جس میں جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ اب آپ ایڈووکیٹ پنجاب کے تحریری جواب سے کچھ بتائیے، ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے بھی آرٹیکل 63-اے کی تشریح کی کوشش کی ہے، کوشش اچھی ہے لیکن ایڈووکیٹ جنرل کی تشریح درست نہیں۔

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ یہ سوال تھا کہ ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی کی رولنگ کس طرح عدالتی رائے کے مطابق ہے، ہدایات پارٹی سربراہ جاری کرتا ہے یا پارلیمانی پارٹی سربراہ دوسرا سوال یہ ہے۔

سپریم کورٹ کے ہر فیصلے پر عملدرآمد لازمی نہیں، جسٹس منیب اختر

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ سپریم کورٹ نے مختصر رائے میں کہا کہ منحرف اراکین کا ووٹ شمار نہ کیا جائے، پارٹی سربراہ یا پارلیمانی پارٹی کے بارے میں تفصیلی بحث نہیں کی گئی۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا عدالتی فیصلہ مبہم ہے جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ تفصیلات نہیں آئیں۔

تاہم جسٹس منیب اختر نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ کوئی مبہم نہیں ہے، کون پارٹی سربراہ ہے، کون پارلیمانی پارٹی سربراہ ہوتا ہے سب واضح ہے۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے مزید کہا کہ پارٹی سربراہ کو ووٹ کے لیے ہدایات کے بارے میں 8 ججوں کا فیصلہ جب تک کالعدم یا اس پر نظرثانی نہ کی جائے وہی اصول رہے گا۔

اس پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آپ کی دلیل عجیب و غریب ہے، وہاں اس کیس میں تو ووٹنگ کا سوال ہی نہیں تھا۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی قانون کے ماہر نہیں ہیں، ہم ابھی تک بات کر رہے ہیں، پارٹی سربراہ کی ہدایات ہوں گی یا پارلیمانی پارٹی ہیڈ کی ہدایات ہوں گی۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے مزید کہا کہ آرٹیکل 63-اے ون بی کو سمجھنا کوئی راکٹ سائنس نہیں۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آرٹیکل 63-اے کے مطابق پارلیمانی پارٹی کو اختیار دینا ضروری ہے، پارلیمانی پارٹی کو مضبوط کرنا پارلیمانی جمہوریت کو مضبوط کرنے کے مترادف ہے۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ 2015 کے سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق پارٹی سربراہ ہدایت دے سکتا ہے، سپریم کورٹ کے فیصلے پر جب تک نظر ثانی نہ ہو اس پر عملدرآمد لازمی ہے۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ سپریم کورٹ کے ہر فیصلے پر عملدرآمد لازمی نہیں جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ فیصلے موجود ہیں کہ سپریم کورٹ کے فیصلے ہر عدالت کے لیے بائنڈنگ ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ پرامید رہیں، سب نے مل کر آئین کو مضبوط کرنا ہے، سب کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔

سپریم کورٹ نے فیصلہ محفوظ کر لیا جو پونے 6 بجے فیصلہ سنایا جائے گا۔

فیصلہ دونوں طرف جاسکتا ہے، بیرسٹر علی ظفر

فیصلہ محفوظ ہونے کے بعد عدالت عظمیٰ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بیرسٹر علی ظفر نے کہا ہے کہ فیصلہ دونوں طرف بھی جاسکتا ہے کیونکہ عدالت نے دونوں طرف سے دلائل سنے اور کافی مشکل سوالات بھی پوچھے۔

انہوں نے کہا کہ میری نظر میں عدالت نے فیصلہ آرٹیکل 63-اے کے تحت کرنا ہے کیونکہ اس میں تشریح کی بھی ضرورت نہیں، صرف اس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔

علی ظفر نے کہا کہ کچھ بھی ہو سکتا ہے مگر ہم پرامید ہیں کہ ہماری درخواست منظور ہوگی، اگر درخواست منظور ہوگئی تو پرویز الہٰی وزیر اعلیٰ پنجاب بن جائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے پر مسلسل بحث اور دلائل کے بعد تمام وکلا نے تحریری طور پر اپنا مؤقف رکھا تھا جبکہ اٹارنی جنرل کے نمائندے نے بھی حکومت کی طرف سے اپنا مؤقف رکھا اور عدالت نے بھرپور کوشش کی ہے کہ بائیکاٹ کے باوجود وہ سب کو سنے مگر اٹارنی جنرل موجود تھے جس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت موجود تھی کیونکہ اٹارنی جنرل آئینی طور پر حکومت کا ہی ترجمان ہوتا ہے جو حکومت کے مؤقف کی تشریح کرتا ہے۔

علی ظفر نے کہا کہ کوئی بھی فریق یہ مطالبہ نہیں کر سکتا کہ ہمارا مطالبہ ضروری ہے، اس پر فل کورٹ سماعت کرے اور گزشتہ 25 برسوں میں صرف تین یا چار فل کورٹ بنے ہیں وہ بھی اس وقت بنے ہیں جب آئین میں ترامیم کا معاملہ درپیش تھا کیونکہ فل کورٹ تمام اہم معاملات پر بنتے ہیں اس لیے فل کورٹ تشکیل دینے کا مطالبہ جائز نہیں تھا۔

انہوں نے کہا کہ اگر فل کورٹ بنتا تو پورے پاکستان میں تمام مقدمات خراب ہوتے ہیں کیونکہ اس طرح فل کورٹ بٹھانے کے مطالبے کی کوئی مثال موجود نہیں۔

فل کورٹ کا مطالبہ مسترد کیے جانے پر نظرثانی اپیل کا حق حاصل ہے، عرفان قادر

اس سے قبل دن کے آغاز میں ڈپٹی اسپیکر کے وکیل عرفان قادر نے اسلام آباد میں سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مجھے میرے مؤکل نے ہدایت دی ہے کہ میں اس کیس کی سماعت کا مزید حصہ نہ بنوں، ہمارا فل کورٹ کا مطالبہ مسترد کیے جانے پر ہمیں نظرثانی کی اپیل کرنے کا حق حاصل ہے، ہم یہ آئینی حق استعمال کرنا چاہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر نظرثانی کی اپیل مسترد ہوئی تو پھر ہم دیکھیں گے، ہم تو یہی چاہیں گے کہ نظرثانی کی اپیل یہ بینچ نہ سنے، بینچ پر عدم اعتماد آگیا تو امید یہی ہے کہ وہ اپیل بھی فل کورٹ کے سامنے لگے گی اور اگر وہ فل کورٹ کے سامنے لگی تو مجھے یقین ہے کہ اپیل کامیاب ہوگی اور یہ کیس پھر سے سنا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ جب عدالت میں یہ کہا گیا کہ ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ 17 مئی کی شق 3 کے برعکس ہے تو میں نے فوراً بتایا کہ شق ایک اور دو پڑھ لیں اور جسٹس منیب اختر نے میری بات مانی اور اس کے بعد یہ میٹر سیٹل ہوگیا۔

عرفان قادر نے کہا کہ ہمارا مؤقف آئینی ہے اور آئینی رہے گا، ان شا اللہ عدالت یا میڈیا کے جو بھی سوالات ہوں گے ہم انہیں مطمئن کریں گے، ہمیں کوئی جلدی نہیں، ہم ہر کسی کے بھی سوالات کے جواب دینے کے لیے تیار ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کو پارلیمانی معاملات میں مداخلت کا کوئی اختیار نہیں ہے لیکن سپریم کورٹ کو پارلیمان کو مضوبط اور مستحکم ضرور کرنا چاہیے لیکن ایسا فیصلہ جس کے نتیجے میں پارلیمان میں اقلیت کے ہاتھوں اکثریت کو گرا دیا جائے ایسی مداخلت کو ہم ہرگز قبول کرنے کا تیار نہیں، سپریم کورٹ پارلیمان میں اکثیرت کو اقلیت کا ہاتھوں یرغمال نہیں بنا سکتی۔

عرفان قادر نے کہا کہ سپریم کورٹ کے ایک جج کا معاملہ آیا تو اسے 10 جج سن رہے تھے اور یہاں پورے پاکستان کا مسئلہ ہے اور اسے 3 جج سن رہے ہیں، اس کیس میں ایک سیکشن پر 6 روز لگا دیے گئے ہیں، کیا اس سے تاخیر نہیں ہورہی؟ ہم نے تو انہیں عدالت کی ساتھ بلند کرنے کا موقع دیا تھا لیکن بدقسمتی سے انہوں نے یہ موقع گنوا دیا، تاہم ابھی ہم ان کو یہ موقع مزید فراہم کریں گے۔

اب تک کی پیشرفت

  • سپریم کورٹ نے فل کورٹ کی حکومتی درخواست مسترد کر دی۔

  • حکمران اتحاد نے کارروائی کے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا۔

  • پی ٹی آئی نے کہا کہ سپریم کورٹ کو بلیک میل نہیں ہونے دیں گے۔

یاد رہے کہ وزیراعلیٰ کے انتخابات کے دوران دوست محمد مزاری نے پرویز الہٰی کے حق میں ڈالے گئے مسلم لیگ(ق) کے 10 اراکین اسمبلی کے ووٹ مسترد کر دیے تھے اور اس سلسلے میں پارٹی صدر چوہدری شجاعت حسین کے ایک خط کا حوالہ دیا گیا تھا جس میں انہوں نے حمزہ شہباز کو ووٹ دینے کی ہدایت کی تھی۔

ہفتے کے روز سماعت کے دوران عدالت نے 22 جولائی کو دوبارہ منتخب ہونے والے حمزہ شہباز کو 25 جولائی تک 'ٹرسٹی' وزیراعلیٰ رہنے کی اجازت دی تھی۔

گزشتہ روز حکومت نے فل بنچ تشکیل دینے کی درخواست کی تھی۔

تاہم سپریم کورٹ نے درخواست کو مسترد کر دیا تھا اور چیف جسٹس نے فیصلہ دیا تھا کہ فل کورٹ کا مطلب یہ ہے کہ عدالتی چھٹیوں کے دوران ججوں کی عدم دستیابی کی وجہ سے ستمبر سے پہلے کیس کی سماعت دوبارہ شروع نہیں ہو سکے گی۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا تھا کہ لیکن ہم ان حالات کو کھینچنے اور طول دینے کی اجازت نہیں دے سکتے۔

اس کے بعد سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپنا احتجاج درج کراتے ہوئے حکمران اتحاد نے رات گئے ایک کانفرنس میں اعلان کیا کہ وہ عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کرے گا۔

وزیر اعلیٰ کا الیکشن

جمعہ کے روز انتخابات کے دوران دوست محمد مزاری نے مسلم لیگ (ق) کی طرف سے ڈالے گئے تمام 10 ووٹوں کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا تھا کہ ان اراکین نے پارٹی کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین کے حکم کی خلاف ورزی کی ہے، اس خط کا حوالہ دیتے ہوئے انہیں سرپرست کی جانب سے موصول ہونے والے خط میں کہا گیا تھا کہ انہوں نے اپنی پارٹی کو حمزہ شہباز کی حمایت کی ہدایت کی ہے۔

ووٹوں کی گنتی کے بعد ڈپٹی اسپیکر نے اعلان کیا کہ پرویز الٰہی نے 186 ووٹ حاصل کیے جبکہ حمزہ 179 ووٹ لے سکے تاہم انہوں نے پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ قرار دینے سے گریز کیا۔

اس کے بجائے انہوں نے عندیہ دیا کہ پارٹی سربراہ کی حیثیت سے چوہدری شجاعت حسین کی مسلم لیگ (ق) کے اراکین کو پرویز الٰہی کے بجائے حمزہ شہباز کو ووٹ دینے کی ہدایات نظرانداز کی گئیں۔

اس کے بعد ڈپٹی اسپیکر نے اعلان کیا کہ حمزہ وزیر اعلیٰ کا انتخاب جیت چکے ہیں کیونکہ 10 ووٹوں کی کٹوتی کے بعد پرویز الٰہی کے ووٹوں کی تعداد 176 ہو گئی ہے جبکہ حمزہ 179 کے ساتھ سرفہرست رہے۔

پرویز الٰہی نے سپریم کورٹ میں حمزہ کے دوبارہ انتخاب کے ڈپٹی اسپیکر کے فیصلے کو بوگس قرار دینے کی استدعا کی تھی۔

درخواست میں کہا گیا تھا کہ حمزہ شہباز کو بطور وزیراعلیٰ پنجاب/رکن صوبائی اسمبلی نااہل قرار دیا جائے۔

عدالت سے استدعا کی گئی کہ آئین کے آرٹیکل 63-اے کی بنیاد پر مسلم لیگ(ق) کے 10 اراکین اسمبلی کے ووٹ مسترد کرنے کے ڈپٹی اسپیکر کے فیصلے کو 'غیر آئینی' قرار دیا جائے۔


اس خبر میں مزید تفصیلات شامل کی جارہی ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں