Dawn News Television

اپ ڈیٹ 24 ستمبر 2022 01:34pm

کے الیکٹرک بلوں میں کے ایم سی چارجز کی وصولی کے خلاف جماعت اسلامی کی درخواست

جماعت اسلامی نے کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن(کے ایم سی) کے لیے کے الیکٹرک کے بجلی کے بلوں کے ذریعے میونسپل یوٹیلیٹی چارجز اینڈ ٹیکسز کی وصولی کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں درخواست دائر کردی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جمعہ کو جاعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمٰن اور دیگر نے سندھ ہائی کورٹ کو درخواست دی کہ میونسپل یوٹیلیٹی چارجز اینڈ ٹیکسز ایڈمنسٹریٹر کراچی کی جانب سے منظور کردہ قرارداد کی روشنی میں نافذ کیا گیا جو کہ غیر قانونی اور قانون کی شق سے ماورا ہے۔

مزید پڑھیں: کراچی: بجلی کے بلوں میں 'متنازع' کے ایم سی ٹیکس کی وصولی شروع

وزارت توانائی (پاور ڈویژن)، چیف سیکریٹری سندھ، سیکریٹری لوکل گورنمنٹ، سٹی ایڈمنسٹریٹر اور کے الیکٹرک کو فریق بناتے ہوئے درخواست گزاروں نے کہا کہ میونسپل یوٹیلیٹی چارجز اینڈ ٹیکسز کو بجلی کے استعمال سے منسلک کرنا خلاف قانون ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاور یوٹیلیٹی اپنی ناقص کارکردگی، اوور بلنگ اور مختلف ناموں اور اکاؤنٹس سے عوام سے رقم بٹورنے کے لیے شہرت رکھتی ہے اور اب میونسپل یوٹیلیٹی چارجز اینڈ ٹیکسز کو بھی کے الیکٹرک کو آؤٹ سورس کر دیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کے الیکٹرک ایک پرائیویٹ کمپنی ہے اور اس کے پاس صرف بجلی کی پیداوار، ترسیل اور تقسیم کے لیے محدود لائسنس ہے اور وزارت توانائی اور کے الیکٹرک کے درمیان ہونے والے معاہدے میں مختلف چارجز کی وصولی کے بارے میں کچھ نہیں ہے اور اسے کے ایم سی کے ٹیکس کی وصولی کا حصہ نہیں بنایا جا سکتا۔

درخواست گزاروں نے مزید کہا کہ وزیراعلیٰ سندھ کی منظوری کے بعد چیف سیکریٹری نے 21 جنوری کو ایک نوٹیفکیشن جاری کیا تھا جس میں صوبائی محکمہ توانائی اور کے ایم سی کو سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013 کے تحت میونسپل یوٹیلیٹی چارجز اینڈ ٹیکسز کی وصولی کے لیے کے ای کی خدمات حاصل کرنے کی اجازت دی گئی تھی، اس نوٹیفکیشن کے حوالے سے صوبائی حکومت نے 12 اپریل کو ایک اور نوٹیفکیشن جاری کیا۔

یہ بھی پڑھیں: کے الیکٹرک کی اجارہ داری 2023 میں ختم ہو جائے گی، امتیاز شیخ کا دعویٰ

ان کا موقف تھا کہ یہ متعلقہ قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کیا گیا ہے کیونکہ سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ بالکل واضح ہے کہ کسی بھی ٹیکس کے نفاذ سے پہلے اس کی اشاعت ضروری ہے کیونکہ ہر شہری، جس پر ٹیکس عائد کرنا ہے، اس کو معلوم ہونا چاہیے کہ کس قسم کا ٹیکس لگایا جا رہا ہے اور وہ اس طرح کے ٹیکس پر اعتراض اٹھا سکتا ہے۔

ان کا استدلال تھا کہ انصاف کے تمام قوانین اور اصولوں کو نظرانداز کرتے ہوئے میٹروپولیٹن کمشنر کی طرف سے پیش کی گئی نام نہاد سمری کی بنیاد پر ایڈمنسٹریٹر نے بجلی کے بلوں کے ذریعے میونسپل یوٹیلٹی چارجز اور ٹیکسز کے نفاذ کے ساتھ ساتھ وصولی کی قرارداد پر دستخط کیے۔

انہوں نے درخواست میں مزید کہا کہ کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کی جانب سے پہلے واٹر اینڈ کنزروینسی ٹیکس مختلف علاقوں اور جائیدادوں کے زمرے رہائشی، کمرشل، صنعتی اور دیگر سہولتوں کے مطابق وصول کیا جاتا تھا لیکن اب ایسے ٹیکسوں کے تعین کا طریقہ مکمل طور پر تبدیل کر دیا گیا ہے اور اسے بجلی کی کھپت کے ساتھ منسلک کردیا گیا ہے۔

درخواست گزاروں نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ میونسپل یوٹیلیٹی چارجز اینڈ ٹیکسز کی وصولی کے ممنوعہ طریقہ کار میں ان لوگوں کو کوئی رعایت نہیں دی جہاں ایک سے زیادہ بجلی کے میٹر نصب ہیں اور اگر ایک گھر میں چار میٹر لگے ہیں تو ہر بل میں میونسپل یوٹیلیٹی چارجز اینڈ ٹیکسز کو شامل کیا جائے گا۔

انہوں نے عرض کیا کہ میونسپل یوٹیلیٹی چارجز اینڈ ٹیکسز کا جو ریٹ متعارف کرایا جا رہا ہے وہ عوام کے لیے ایک سلو پوائزن اور انہیں پھانسنے کے سوا کچھ نہیں کیونکہ ایڈمنسٹریٹر کی دستخط شدہ قرارداد کے ذریعے اس میں کسی بھی وقت اضافہ کیا جا سکتا ہے۔

مزید پڑھیں: بجلی بلوں میں اضافہ: کراچی کے مختلف علاقوں میں ‘کے-الیکٹرک’ دفاتر پر دھاوا، توڑ پھوڑ

انہوں نے مزید کہا کہ ہر شہری برابر ہے اور یہ عمل امتیازی اور آئین کے آرٹیکل 25 کے خلاف ہے بالخصوص کراچی کے شہریوں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جا رہا ہے کیونکہ کراچی کے علاوہ دیگر علاقوں میں ٹیکس وصولی کا ایسا کوئی نظام نافذ نہیں کیا گیا ہے اور اس طرح ٹیکس وصولی کا کوئی نظام نافذ نہیں کیا گیا ہے، یہ عمل غیر آئینی اور غیر قانونی ہے۔

انہوں نے بجلی کے بلوں کے ذریعے میونسپل یوٹیلیٹی چارجز اینڈ ٹیکسز کی وصولی کو غیر قانونی قرار دینے اور اس طرح کے ٹیکس کو بجلی کی کھپت سے منسلک کرنے کے عمل کو منسوخ کرنے کی استدعا کی۔

حافظ نعیم الرحمٰن نے سندھ ہائی کورٹ سے استدعا کی کہ وہ ایڈمنسٹریٹر کی دستخط شدہ قرارداد کو کالعدم قرار دے اور کے الیکٹرک کو بجلی کے بلوں میں میونسپل یوٹیلیٹی چارجز اینڈ ٹیکسز جمع کرنے سے روکے۔

Read Comments