کراچی: بجلی کے بلوں میں 'متنازع' کے ایم سی ٹیکس کی وصولی شروع

اپ ڈیٹ 16 ستمبر 2022
ترجمان کے ای نے کہا کہ کمپنی صرف متعلقہ حکومتی ہدایات پر عمل کر رہی ہے — تصویر: آن لائن
ترجمان کے ای نے کہا کہ کمپنی صرف متعلقہ حکومتی ہدایات پر عمل کر رہی ہے — تصویر: آن لائن

کے الیکٹرک نے اپنی سروس کی حدود میں آنے والے 32 لاکھ صارفین سے سندھ حکومت کی جانب سے عائد کردہ متنازع ٹیکس وصول کرنا شروع کردیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال سے حکومت سندھ، کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن (کے ایم سی) کے میونسپل یوٹیلٹی چارجز اینڈ ٹیکسز (ایم یو سی ٹی) کے الیکٹرک کے بجلی کے بلوں کے ذریعے وصول کرنے کی کوشش کر رہی تھی، لیکن اس وقت کی وفاق میں حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سمیت اپوزیشن جماعتوں نے اس کی مخالفت کرکے اس اقدام پر عمل درآمد کو ناکام بنادیا تھا۔

ایم یو سی ٹی سب سے پہلے 2009 میں سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کراچی نے سابق ناظم کراچی سید مصطفیٰ کمال کے دور نظامت میں لگایا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: بجلی بلوں میں اضافہ: کراچی کے مختلف علاقوں میں ‘کے-الیکٹرک’ دفاتر پر دھاوا، توڑ پھوڑ

اس وقت تک کے ایم سی خود ٹیکس وصول کر رہی ہے لیکن کم وصولی کی وجہ سے وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے گزشتہ سال بجلی کے بلوں کے ذریعے ٹیکس جمع کرنے کی تجویز دی تھی۔

اب ‘کے الیکٹرک’ نے خاموشی سے کراچی کے شہریوں سے ایم یو سی ٹی کی مد میں رقم وصول کرنا شروع کردی ہے اور بہت سے بجلی صارفین کو رواں ہفتے اپنے نئے بجلی کے بل آنے کے بعد اس ٹیکس کی وصولی سے متعلق معلوم ہوا۔

رواں ہفتے جب شہریوں نے بل دیکھے تو انہیں ایم یو سی ٹی (کے ایم سی) کے تحت اضافی چارجز دیکھ کر دھچکا لگا جب کہ ان کے مطابق بجلی کے بل پہلے ہی بہت زیادہ تھے۔

اس سوال پر کہ کیا ‘کے ای’ نے اپنے بلوں میں کوئی نیا ٹیکس لگایا ہے، کے ای کے ترجمان نے کہا کہ صوبائی حکومت نے کے ای کو میونسپل یوٹیلیٹی چارجز اور ٹیکسز وصول کرنے کی ہدایت کی ہے، کے ای صرف ایک محکمے کے طور پر متعلقہ حکومتی ہدایات پر عمل کر رہی ہے۔

مزید پڑھیں: لوڈشیڈنگ سے استثنیٰ ختم، کے الیکٹرک کا شہر بھر میں 3 گھنٹے لوڈشیڈنگ کا اعلان

اس سوال پر کہ کیا کے الیکٹرک کو نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) سے اجازت ملی ہے، ترجمان نے کہا کہ وفاقی اور صوبائی حکومت نیپرا کی منظوری کے بغیر ٹیکس عائد کر سکتی ہے۔

کے ای کے سینئر عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست پر بتایا کہ بجلی سپلائی کرنے والی کمپنی اپنے صارفین پر اضافی ٹیکس کا بوجھ نہیں ڈالنا چاہتی، تاہم پاکستان مسلم لیگ (ن) کی زیرقیادت مخلوط وفاقی حکومت جس میں صوبائی حکمراں جماعت پاکستان پیپلز پارٹی اہم شراکت دار ہے، کی جانب سے ٹیکس جمع کرنے کو کہا گیا ہے۔

سینئر عہدیدار کا کہنا تھا کہ یہ معاملہ گزشتہ ایک سال سے زیر التوا تھا جب کہ حکومت سندھ نے گزشتہ سال نیپرا سے رابطہ کیا تھا جس کے بعد واضح ہوگیا تھا کہ وفاقی یا صوبائی حکومتیں ٹیکس عائد کرسکتی ہیں، تاہم گزشتہ سال سے سیاسی جماعتوں کی جانب سے مزاحمت کے باعث کے ای نے ٹیکس وصولی نہیں کی تھی لیکن اب ایسی صورتحال نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کے-الیکٹرک کے خلاف جماعت اسلامی کا دھرنا

جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمٰن شہر کے پہلے سیاسی رہنما ہیں جنہوں نے اس اقدام کو مسترد کیا ہے۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر جاری اپنے بیان میں انہوں نے کہا کہ کے الیکٹرک کے بلوں میں کے ایم سی چارجز کسی بھی صورت میں قابل قبول نہیں ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں