بیروت: شام کے حوالے سے قازقستان کے دارالحکومت آستانہ میں امن مذاکرات شروع ہونے سے قبل ہی داعش نے عراقی سرحد کے قریب واقع شہر دیر الزور پر دھاوا بول دیا۔

داعش کی جانب سے دریائے فرات کے کنارے واقع شہر دیر الزور میں ہفتہ 14 جنوری کی صبح اچانک حملہ کیا گیا،جس سے کئی افراد کی ہلاکتوں کا اندیشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔

جنگجوؤوں کی جانب سے حملے کے بعد شامی فوج نے جوابی کارروائیاں کیں۔

داعش نے یہ حملہ ایک ایسے وقت میں کیا ہے جب ترکی اور روس کی ثالثی میں شامی حکومت اور باغیوں کے درمیان امن مذاکرات ہونے والے ہیں۔

امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اےپی) نےشام کی سرکاری ٹی وی کا حوالہ دیتے ہوئے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ مشرقی شام میں داعش کے حملے سے درجنوں افراد ہلاک جب کہ کئی افراد زخمی ہوگئے، تاہم ابتدائی طور پر 3 تین افراد کے ہلاک اور 9 افراد کے زخمی ہونے کی تصدیق ہوسکی ہے۔

دوسری جانب فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی نے شامی آبزرویٹری برائے انسانی حقوق کے حوالے سے بتایا کہ اس جھڑپ میں داعش کے جنگجوؤں نے 12 شامی فوجی اہلکاروں اور دو عام شہریوں کو ہلاک کیا۔

آبزرویٹری کا یہ بھی کہنا ہے شامی فضائیہ اور اس کے اتحادیوں کی فضائی بمباری کے نتیجے میں20جنگجو بھی ہلاک ہوئے ہیں۔

اے ایف پی کے مطابق شہر دیر الزور میں تقریباً 2 لاکھ افراد شام کے زیر اثر علاقوں میں رہائش پذیر ہیں اور ان علاقوں پر داعش نے 2015 کے آغاز میں قبضہ کیا تھا۔

شامی آبزرویٹری کے سربراہ رامی عبدالرحمٰن نے بتایا کہ گزشتہ ایک سال کے دوران داعش کی جانب سے کیا جانے والا سب سے بڑا حملہ ہے۔

انہوں نے بتایا کہ 'داعش اپنے جنگجوؤں کو دیر الزور پر حملے کے لیے اکھٹا کررہی ہے تاکہ حکومتی لائنز کو توڑا جاسکے'۔

انہوں نے کہا کہ داعش چاہتی تھی کہ وہ ایئرپورٹ کو شہر سے ملانے والا راستہ بند کردیں تاہم حکومت کی جوابی کارروائی کی وجہ سے وہ اس میں کامیاب نہیں ہوسکی۔

اے ایف پی کے مطابق داعش دیر الزور شہر پر مکمل طور پر قبضہ کرنا چاہتی ہے اور ساتھ ہی وہاں موجود ملٹری ایئرپورٹ پر بھی اپنا کنٹرول قائم کرنے کی خواہاں ہے۔

یہ بھی پڑھیں: دمشق میں باغیوں پر پانی میں زہر ملانے کا الزام

اے پی کے مطابق داعش کے جنگجوؤں نے دیر الزور کے ان علاقوں میں راکٹ داغے جو حکومت کے زیر کنٹرول ہیں،جس کے بعد قریبی علاقے بغالیہ میں موجود شامی فوج نے جنگجوؤں کے خلاف حملے شروع کردیے۔

خبر رساں ادارے کے مطابق داعش کی جانب سے بغالیہ اور آیایش جیسے حکومتی فوجیوں کے زیر کنٹرول علاقوں کونشانہ بنایا گیا جہاں شامی فوج کی برگیڈ 137 رہائش پذیر ہے۔

خیال رہےکہ اس سے قبل جنوری 2016 میں داعش کی جانب سے بغالیہ میں حملہ کیا گیا تھا، جس کے دوران حکومتی فوجیوں سمیت عام شہری بھی ہلاک ہوئے تھے۔

شام میں امن مذاکرات

گزشتہ ماہ روس اور ترکی کی ثالثی کے بعد شام میں باغیوں اور حکومت کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ طے پایا تھا، جب کہ باغیوں اور حکومت کے درمیان رواں ماہ امن مذاکرات ہونے کا بھی امکان ہے۔

مزید پڑھیں: شام میں جنگ بندی، امن مذاکرات ہوں گے

حکومتی نمائندگان اور باغی گروہوں کے درمیان امن مذاکرات رواں ماہ 23 جنوری کو قازقستان کے دارالحکومت آستانہ میں ہونے ہیں، اس حوالے سے روس اور ترکی دونوں فریقوں کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے کوشاں ہیں۔

گزشتہ روز امریکی نشریاتی ادارے‘اے بی سی‘ نیوز نے امریکی اخبار میں چھپنے والی ایک خبر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ روس نے شام کے امن مذاکرات میں شرکت کے لیے نئی امریکی انتظامیہ کو شمولیت کی دعوت دی ہے۔

امریکی نشریاتی ادارے کے مطابق وائٹ ہاؤس کے نو منتخب پریس سیکریٹری سین اسپائر نے بتایا کہ امریکا میں مقرر روسی سفیر سرگئی کسالیک نے 29 دسمبر 2016 کو نومنتخب امریکی صدر کو امن مذاکرات میں شرکت کی دعوت دی تھی، جب کہ اسی روز سبکدوش ہونے والے براک اوباما نے روس سے 35 سفیروں کو ملک بدر کرنے کے احکامات جاری کیے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: شام امن معاہدہ: سلامتی کونسل میں متفقہ قرارداد منظور

تاہم امریکا کی جانب سے 23 جنوری کو ہونے والے امن مذاکرات میں شامل ہونے سے متعلق حتمی تصدیق یا تردید سامنے نہیں آسکی، خیال رہے کہ یہ مذاکرات ڈونلڈ ٹرمپ کےعہدہ صدارت سنبھالنے کے تین دن بعد ہوں گے۔

دوسری جانب شام کے باغی گروپس نے بھی روس اور ترکی کی کوششوں سے ہونے والے امن مذاکرات میں شرکت کرنے سے انکار کیا تھا۔

خبر رساں اداے ’اے پی‘ نے بتایا تھا کہ باغی گروہوں کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ وہ ایسا شامی حکومت کی طرف سے ’بڑے پیمانے پر جنگ بندی کی خلاف ورزی‘ کی وجہ سے کررہے ہیں۔

جنگ بندی کا معاہدہ داعش اور القاعدہ سے منسلک فتح الشام کے زیر قبضہ علاقوں کے علاوہ ملک بھر میں نافذ العمل کیا گیا تھا، جس کی پاسداری میں کچھ کمی سامنے آرہی ہے۔

سیز فائر کا یہ منصوبہ حلب میں شامی افواج کا کنٹرول قائم ہونے کے چھ روز بعد سامنے آیا تھا، روس اور ترکی کی ثالثی میں ہونے والی جنگ بندی کے تحت حلب سے ہزاروں عام شہریوں اور باٖغیوں کو نکالا گیا تھا۔


تبصرے (0) بند ہیں