'شامی باغیوں کا امن مذاکرات میں شرکت سے انکار'

اپ ڈیٹ 03 جنوری 2017
امن مذاکرات رواں ماہ قازقستان کے دارالحکومت میں طے ہیں—فوٹو: اے پی
امن مذاکرات رواں ماہ قازقستان کے دارالحکومت میں طے ہیں—فوٹو: اے پی

بیروت: شام کے باغی گروپس نے روس اور ترکی کی کوششوں سے ہونے والے امن مذاکرات میں شرکت کرنے سے انکار کردیا۔

رپورٹس کے مطابق باغی گروہوں کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ وہ ایسا شامی حکومت کی طرف سے ’بڑے پیمانے پر جنگ بندی کی خلاف ورزی‘ کی وجہ سے کررہے ہیں۔

یاد رہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے روس اور ترکی کی کوششوں سے شام میں امن کی بحالی سے متعلق قرارداد کی متفقہ طور پر منظوری دی تھی، امن کی ان کوششوں میں شام میں جنگ بندی اور آئندہ ماہ قازقستان میں مذاکرات کا آغاز شامل تھا۔

حکومتی نمائندگان اور باغی گروہوں کے درمیان امن مذاکرات رواں ماہ قازقستان کے دارالحکومت آستانہ میں ہونے ہیں۔

جنگ بندی کا معاہدہ داعش اور القاعدہ سے منسلک فتح الشام کے زیر قبضہ علاقوں کے علاوہ ملک بھر میں نافذ العمل کیا گیا تھا، جس کی پاسداری میں کچھ کمی سامنے آرہی ہے۔

سیز فائر کا یہ منصوبہ حلب میں شامی فوج کے کنٹرول کے چھ روز بعد سامنے آیا تھا، روس اور ترکی کی ثالثی میں ہونے والی جنگ بندی کے تحت حلب سے ہزاروں عام شہریوں اور باٖغیوں کو نکالا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: شام امن معاہدہ: سلامتی کونسل میں متفقہ قرارداد منظور

امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹ کے مطابق شامی حکومت کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ برادا کی وادی جنگ بندی کے معاہدے میں شامل نہیں ہے کیوں کہ یہاں فتح الشام کے جنگجو موجود ہیں تاہم مقامی افراد کا کہنا ہے کہ اس علاقے میں کوئی جنگجو موجود نہیں۔

دوسری جانب شامی اپوزیشن کے رضاکاروں بشمول برادا ویلی میڈیا سینٹر نے بتایا کہ وادی برادا کے متعدد گاؤں پر شدید بمباری کی جارہی ہے اور اتوار سے اب تک حکومت کی جانب سے 9 فضائی حملے کیے جاچکے ہیں۔

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان حملوں میں 6 افراد ہلاک اور 73 زخمی ہوئے ہیں۔

اسی تناظر میں 10 باغی دھڑوں نے یہ اعلان کیا کہ وہ جنگ بندی کے معاہدے پر مکمل عمل درآمد تک تک ہر قسم کے مذاکرات کو معطل کرتے ہیں۔

مذاکرات کے بائیکاٹ کا اعلان کرنے والے گروپس میں طاقتور گروپ جیش الاسلام بھی شامل ہے۔

بیان کے مطابق برادا کی وادی میں ہونے والی جنگ بندی کی خلاف ورزیوں میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے، جس سے وہاں بسنے والے ہزاروں افراد کی جان خطرے میں ہے۔

بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ زمینی طور پر کسی بھی فوجی تبدیلی کو جنگ بندی کے معاہدے کی خلاف ورزی سمجھا جائے گا۔

واضح رہے کہ وادی برادا جس پر باغیوں کا قبضہ تھا اب وہاں حکومتی فورسز اور لبنانی حزب اللہ گروپ کی افواج موجود ہیں، اس علاقے کو دمشق اور اس کے اطراف کے علاقوں کے لیے پانی کا اہم ذریعہ سمجھا جاتا ہے، تاہم 22دسمبر کے بعد سے کشیدہ حالات میں دارالحکومت دمشق میں پانی کی شدید قلت پیدا ہوگئی ہے۔

مزید پڑھیں: دمشق میں باغیوں پر پانی میں زہر ملانے کا الزام

وادی کے میڈیا سینٹر کی جانب سے جاری ہونے والی تصاویر میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ عین الفجح آبشار اور پانی فراہم کرنے والا سینٹر فضائی حملوں میں مکمل طور پر تباہ ہوچکا ہے۔

حکومت کا کہنا ہے کہ باغیوں کی جانب سے پانی میں ڈیزل ملا کر اسے ناقابل استعمال بنانے کی کوشش کی گئی جس کی وجہ سے دارالحکومت تک پانی کی سپلائی کو منقطع کرنا پڑا۔

یاد رہے کہ گذشتہ برس ستمبر میں بھی امریکا اور روس نے شام میں جنگ بندی کا اعلان کیا تھا تاہم ایک ہفتے بعد ہی شامی فوج نے عسکریت پسندوں پر معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام لگاتے ہوئے روس اور امریکا کے تحت ہونے والے جنگ بندی معاہدے کو ختم کرنے کا اعلان کردیا تھا اور اس کے بعد ملک کے دوسرے بڑے اور اہم شہر حلب میں شدید بمباری کی گئی تھی۔

شام میں تقریباً 6 سال سے جاری خانہ جنگی میں 4 لاکھ سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں، اس دوران شام میں جنگ بندی کے کئی معاہدے ہوئے لیکن کوئی بھی دیرپا ثابت نہ ہوسکا۔

واضح رہے کہ شام میں اس وقت حکومت کے خلاف شدت پسند تنظیم داعش کے علاوہ دیگر باغی گروہ بھی لڑ رہے ہیں، جبکہ داعش اور ان باغی گروہوں کی بھی تصادم ہوتے رہتے ہیں۔

داعش نے عراق اور شام کے وسیع رقبے پر 2014 میں قبضہ کرکے خود ساختہ خلافت کا اعلان کیا تھا، جس کے بعد سے اس خطے میں جنگ میں تیزی آئی ہے جبکہ دو سال کے دوران عالمی طاقتیں داعش کو بھی مکمل طور پر قابو نہ کر سکیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

جواد Jan 04, 2017 12:34pm
امریکہ کی طرف سے ہتھیاروں کی فراہمی کے اعلان کے بعد یہ تو ہونا تھا