افغان طالبان کا باغی ہزارہ کمانڈر کو ہلاک کرنے کا دعویٰ

18 اگست 2022
سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی تصاویر میں مہدی مجاہد کو زندہ اور زیر حراست دکھایا گیا—فوٹو : مولوی مہدی مجاہد
سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی تصاویر میں مہدی مجاہد کو زندہ اور زیر حراست دکھایا گیا—فوٹو : مولوی مہدی مجاہد

افغانستان کی وزارت دفاع نے ایک بیان میں کہا کہ امارت اسلامیہ سے چند ماہ قبل مبینہ طور پر علیحدگی اختیار کرنے والے طالبان کے واحد ہزارہ شیعہ کمانڈر ملک سے فرار ہونے کی کوشش میں مارے گئے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق حکام نے تصدیق کی کہ مولوی مہدی مجاہد کو طالبان فورسز نے ایران کی سرحد کے قریب گولی مار کر ہلاک کر دیا جس نے حکومت کے خلاف بغاوت کی تھی۔

انہوں نے بتایا کہ گزشتہ سال طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد مولوی مہدی مجاہد کو صوبہ بامیان میں انٹیلی جنس چیف کا عہدہ دیا گیا تھا لیکن چند ماہ بعد انہیں کوئلے کی منافع بخش تجارت سے منسوب مقامی میڈیا کے تنازع کے بعد برطرف کر دیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: وادی پنج شیر میں طالبان اور باغیوں کا لڑائی میں بھاری نقصانات کا دعویٰ

انہوں نے کہا کہ مہدی مجاہد اس وقت فرار ہو گئے تھے جب جون میں طالبان نے ان کے وفاداروں کو پسپا کرنے کے لیے ہزاروں فوجی بھیجے۔

مہدی مجاہد اور طالبان کے درمیان دراڑ کی وجوہات کو ظاہر نہیں کیا گیا لیکن جون میں وزارت دفاع نے شمالی افغانستان میں باغیوں کے خلاف ایک کلیئرنس آپریشن کی بات کی تھی۔

گزشتہ روز حکام نے کہا کہ 'سرحدی فورسز نے ایران کے ساتھ سرحد کے قریب صوبہ ہرات میں مہدی مجاہد کی نشاندہی کی اور اسے اس کے اعمال کی سزا دے دی'۔

مزید پڑھیں: افغانستان: پنج شیر میں مزاحمتی فورسز کے ساتھ جھڑپ، '8 طالبان جنگجو مارے گئے'

وزارت دفاع نے مہدی مجاہد کو شمالی صوبے سر پل کے ایک ضلع میں موجود 'باغیوں کا رہنما' قرار دیا۔

صوبائی انفارمیشن افسر نعیم الحق حقانی نے بتایا کہ 'مہدی مجاہد کے ساتھ اور کوئی نہیں تھا، وہ لڑائی کے بعد مارے گئے'۔

تاہم سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی تصاویر میں مہدی مجاہد کو زندہ اور زیر حراست دکھایا گیا ہے، نعیم الحق حقانی نے ان خبروں کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ افواہیں جھوٹ پر مبنی ہیں کہ یہ شخص زندہ پکڑا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کالعدم تحریک طالبان نے سینئر رہنما کی ہلاکت کی تصدیق کردی

چند برس قبل مولوی مہدی مجاہد کو بطور کمانڈر مقرر کیے جانے کو اقلیتوں کے بارے میں طالبان کے مؤقف میں تبدیلی کی ایک مثال کے طور پر پیش کیا گیا تھا، گزشتہ سال مغربی افواج کے انخلا اور طالبان کے افغانستان پر کنٹرول کے بعد وہ توجہ کے مرکز تھے۔

طالبان مذہبِ اسلام کے سنی مکتبہ فکر کے سخت گیر پیروکار ہیں اور قبل ازیں ان میں سے بیشتر کا تعلق خصوصاً پختون نسل سے وابستہ رہا۔

حال ہی میں طالبان نے دیگر نسلوں کے ارکان کو بھی شامل کرنے کی کوشش کی تھی، افغانستان کے وسطی پہاڑوں سے تعلق رکھنے والے 'ہزارہ' ملک کا سب سے بڑا شیعہ نسلی گروہ ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں