کالعدم تحریک طالبان نے سینئر رہنما کی ہلاکت کی تصدیق کردی

اپ ڈیٹ 13 جنوری 2022
ٹی ٹی پی کا کہنا ہے کہ مفتی خالد بلتی کسی عہدے پر فائز نہیں ہیں— فائل فوٹو: ڈان نیوز
ٹی ٹی پی کا کہنا ہے کہ مفتی خالد بلتی کسی عہدے پر فائز نہیں ہیں— فائل فوٹو: ڈان نیوز

کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے سینئر رہنما مفتی خالد بلتی کی ہلاکت کی تصدیق کردی، جنہیں رواں ہفتے افغانستان کے مشرقی صوبے ننگرہار میں مارا گیا تھا۔

ٹی ٹی پی کے ترجمان محمد خراسانی نے اپنے ایک بیان میں تفصیلات سے آگاہ کیے بغیر مفتی خالد بلتی کی موت کی تصدیق کی۔

اس سے قبل ایک پاکستانی سینیئر سیکیورٹی عہدیدار نے بتایا تھا کہ خالد بلتی عرف محمد خراسانی، ننگرہار میں مارے گئے، جو ٹی ٹی پی کے موجودہ ترجمان تھے۔

تاہم ٹی ٹی پی کا کہنا ہے کہ وہ کسی عہدے پر فائز نہیں تھے۔

ایک عسکریت پسند ذرائع نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ مفتی کی نماز جنازہ منگل کو افغانستان کے مشرقی صوبے کنڑ میں ادا کی گئی اور انہیں وہیں سپرد خاک کیا گیا۔

مزید پڑھیں: کالعدم ٹی ٹی پی رہنما محمد خراسانی افغانستان کے صوبے ننگرہار میں ہلاک

ٹی ٹی پی کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا کہ گروپ نے 'ایک مذہبی اسکالر اور سیاسی امور کے ماہر کو کھو دیا' یہ اس گروپ کے لیے ایک بہت بڑا نقصان ہے۔

انہوں نے کہا کہ مقتول رہنما 2011 سے ہجرت کے بعد ٹی ٹی پی سے منسلک تھے اور ایک سرگرم رہنما تھے، انہیں 2015 میں گرفتار کیا گیا اور 2021 تک جیل میں رکھا گیا اور 9 جنوری کو قتل کر دیا گیا۔

اس سے قبل ایک پاکستانی سیکیورٹی اہلکار نے کہا تھا کہ تقریباً 50 سالہ مفتی خالد بلتی بھی کالعدم تنظیم کے ترجمان رہ چکے ہیں اور وہ پاکستان کے عوام اور سیکیورٹی فورسز پر متعدد حملوں میں ملوث تھے۔

سیکیورٹی عہدیدار نے مزید کہا کہ جب سے طالبان نے افغانستان میں اقتدار پر قبضہ کیا ہے تو خالد بلتی اکثر کابل کا دورہ کیا کرتے تھے۔

مفتی خالدبلتی ٹی ٹی پی کے مختلف دھڑوں کو متحد کرنے اور ٹی ٹی پی کے سربراہ مفتی نور ولی محسود کے ساتھ مل کر دہشت گرد حملوں کی منصوبہ بندی کرنے کی کوششیں کر رہے تھے۔

اہلکار نے کہا کہ انہوں نے حال ہی میں پاکستان کے اندر دہشت گردانہ حملے کرنے کا اشارہ بھی دیا تھا۔

مزید پڑھیں: افغانستان: ’ڈرون حملے‘ میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے رہنما محفوظ

تاہم افغان حکومت کے ترجمان نے ٹی ٹی پی کے سینئر رکن کی ہلاکت کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایسا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔

مفتی خالد بلتی کے قتل پر تبصرہ کرتے ہوئے افغان حکومت کے ترجمان بلال کریمی نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ 'میں ان رپورٹس کی تصدیق نہیں کرتا، یہ سچ نہیں ہیں،افغانستان کی جانب سے ایسا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا'۔

گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے مفتی خالدبلتی گزشتہ کئی برسوں سے ٹی ٹی پی کے آپریشنل کمانڈر تھے۔

سال 2007 میں انہوں نے سوات میں کالعدم تحریک نفاذ شریعت محمدی میں شمولیت اختیار کی اور ٹی ٹی پی کے سابق سربراہ ملا فضل اللہ کے ساتھ قریبی تعلقات قائم کر لیے تھے۔

حکام نے بتایا کہ خالد بلتی کے ٹی ٹی پی کے تمام درجوں کے اراکین کے ساتھ خوشگوار اور قریبی تعلقات تھے۔

انہوں نے مزید کہا کہ مفتی خالد بلتی نے ٹی ٹی پی کی پروپیگنڈا مہم میں اہم کردار ادا کیا۔

مزید پڑھیں: افغانستان: کالعدم ٹی ٹی پی کا کمانڈر دھماکے میں ہلاک

حکام نے بتایا کہ خالد بلتی خیبر پختونخوا کے میرانشاہ قصبے میں دہشت گردوں کے ٹھکانے چلاتے تھے اور آپریشن ضرب عضب کے بعد افغانستان فرار ہو گئے تھے، جس کے بعد 2014 میں انہوں نے ٹی ٹی پی میڈیا کمیٹی کے سربراہ کے طور پر کام کیا۔

خالدبلتی کی سرگرمیوں سے باخبر ٹی ٹی پی کے ایک سابق رکن کے مطابق انہیں افغان فورسز نے 2015 میں ننگرہار میں گرفتار کیا جس کے بعد وہ بٹگرام اور پل چرخی جیلوں میں رہے تھے۔

مفتی خالد بلتی اور ٹی ٹی پی کے دیگر عسکریت پسندوں کو گزشتہ سال اگست میں اس وقت رہا کیا گیا جب افغان طالبان نے اپنے فوجی آپریشن کے دوران قیدیوں کو رہا کرنے کا سہارا لیا تھا۔

یاد رہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی 14 سال قبل سامنے آئی تھی جس پر مختلف پاکستانی حکومتوں کی جانب سے 70 ہزار افراد کے قتل کا الزام لگایا جاتا رہا ہے اور پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر 7 سال قبل ہونے والے بدترین حملے کی ذمہ داری بھی ٹی ٹی پی نے قبول کی تھی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں