اسرائیلی بمباری سے مزید 81 فلسطینی شہید، اسکول پر حملے میں کئی بچے زندہ جل گئے
اسرائیلی بمباری سے غزہ میں 81 فلسطینی شہید ہوگئے جبکہ اسکول پر بمباری کے نتیجے میں کئی بچے زندہ جل گئے۔
قطری نشریاتی ادارے ’الجزیرہ‘ کی رپورٹ کے مطابق طبی ذرائع نے بتایا کہ پیر کی صبح سے اسرائیلی حملوں میں غزہ بھر میں کم از کم 81 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جن میں سے 53 صرف غزہ شہر میں جان کی بازی ہارگئے، اسرائیلی فوج نے گزشتہ روز غزہ کے اسکول پر بھی بمباری کی، جس کے نتیجے میں کئی بچے زندہ جل گئے۔
الجزیرہ کے نمائندے نے واشنگٹن ڈی سی سے اطلاع دی ہے کہ جنگ بندی کے حوالے سے مختلف پیغامات اور قیاس آرائیاں سامنے آرہی ہیں، یہ بیانات اس وقت سامنے آئے ہیں جب اطلاعات ہیں کہ فلسطینی تنظیم حماس نے غزہ کے لیے امریکی جنگ بندی کی تجویز سے اتفاق کر لیا ہے۔
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے ترجمان کا کہنا ہے کہ غزہ میں ہر ایک شہری تکلیف میں مبتلا ہے، اسرائیل کی جانب سے امداد کی بندش اور حملوں کی شدت میں اضافے کے باعث غزہ کے ہسپتالوں میں طبی سامان ختم ہو چکا ہے اور زخمیوں کی حالت ’خوفناک‘ ہے۔
غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اسرائیل کی غزہ پر مسلط کردہ جنگ میں اب تک کم از کم 53 ہزار 977 فلسطینی شہید اور ایک لاکھ 22 ہزار 966 زخمی ہو چکے ہیں۔
حکومت کے میڈیا دفتر نے شہدا کی تعداد 61 ہزار 700 سے زائد بتائی ہے، ہزاروں افراد اب بھی ملبے تلے لاپتا ہیں اور انہیں مردہ تصور کیا جا رہا ہے۔
7 اکتوبر 2023 کو حماس کے حملوں میں اسرائیل میں تقریباً ایک ہزار 139 افراد ہلاک ہوئے تھے اور 200 سے زائد کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔
صہیونی کارکنوں نے امداد کو روک دیا
دائیں بازو کے سرگرم کارکن اسرائیل کی اشدود بندرگاہ پر جمع ہوئے جو غزہ کی پٹی سے تقریباً 30 کلومیٹر (18 میل) کے فاصلے پر واقع ہے، تاکہ محصور علاقے کے لیے بھیجی جانے والی امداد کو روکا جا سکے۔
اسرائیلی میڈیا اور سوشل میڈیا پر موجود ویڈیوز کے مطابق مظاہرین نے بندرگاہ کے دروازے سے نکلنے والے ٹرکوں کے سامنے کھڑے ہو کر ان کا راستہ روکا، جب کہ اسرائیلی پولیس فورسز نے مظاہرین کو ٹرکوں کے راستے سے ہٹانے کی کوشش کی۔
اسی طرح کے ایک احتجاج میں انتہا پسند اسرائیلی وزیر بن گویر نے بھی شرکت کی، اور مظاہرین کو اکسایا کہ امداد کسی صورت غزہ نہ جانے دی جائے۔

اسرائیل پر جرمنی کی تنقید کو سنجیدہ لیا ہے، صہیونی سفیر
اسرائیل کے جرمنی میں تعینات سفیر رون پروسور نے نشریاتی ادارے ’زیڈ ڈی ایف‘ کو بتایا ہے کہ ان کی حکومت غزہ میں جاری مہم پر جرمنی کی تنقید کو سنجیدہ لے رہی ہے۔
یہ بیان جرمن چانسلر فریڈرک مرز کے اس بیان کے بعد سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ اسرائیل کی فوجی کارروائیاں اب مزید حماس کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کا جواز پیش نہیں کر سکتیں۔
رپورٹ کے مطابق پروسور نے کہا کہ جب فریڈرک مرز اسرائیل پر یہ تنقید کرتے ہیں تو ہم بہت غور سے سنتے ہیں کیونکہ وہ ہمارے دوست ہیں۔
’اسرائیل پر برطانوی پابندیاں قانوناً لازم ہوچکیں‘
800 سے زائد وکلا نے کہا ہے کہ برطانیہ کی جانب سے اسرائیل پر پابندیاں عائد کرنا قانونی طور پر لازم ہوچکا ہے۔
کھلے خط میں اسرائیل کی غزہ پر جنگ کے حوالے سے برطانوی حکومت سے ٹھوس اقدامات کا مطالبہ کیا گیا ہے، جس پر 823 قانونی ماہرین نے دستخط کیے ہیں، جن میں 11 سابق جج درجنوں وکلا اور قانونی ماہرین شامل ہیں۔
خط میں کہا گیا ہے کہ برطانیہ کو ان اسرائیلی وزرا اور دیگر سول و فوجی اہلکاروں پر مالی اور امیگریشن پابندیاں عائد کرنی چاہئیں جن پر غیر قانونی اقدامات میں ملوث ہونے کا معقول شک ہو۔
خط میں برطانوی حکومت پر زور دیا گیا ہے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ موجودہ تجارتی تعلقات کا جائزہ لے اور اس بات کی تصدیق کرے کہ وہ بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) کے گرفتاری وارنٹ (جو مقبوضہ فلسطینی علاقوں سے متعلق ہوں) پر عملدرآمد کو یقینی بنائے گی۔
تجارتی معاہدہ معطل، برطانوی ایلچی اسرائیل میں موجود
برطانیہ کے اسرائیل میں تجارتی ایلچی ایان آسٹن نے ’ایکس‘ پر ایک پوسٹ میں کہا ہے کہ وہ اس وقت اسرائیل میں موجود ہیں تاکہ تجارت کو فروغ دینے کے لیے کاروباری شخصیات اور حکام سے ملاقاتیں کریں۔
ان کا یہ دورہ ایسے وقت میں ہوا ہے جب ایک ہفتہ قبل برطانوی حکومت نے غزہ پر جنگ کے دوران اسرائیلی فوجی اقدامات کے پیشِ نظر اسرائیل کے ساتھ آزاد تجارتی مذاکرات معطل کرنے کا اعلان کیا تھا۔
اس سے قبل اسرائیل میں برطانوی سفارتخانے کی ایک پوسٹ میں کہا گیا تھا کہ ایان آسٹن کے پیر کے روز کے شیڈول میں اسرائیل کے انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (ٹیکنیون) اور ایک جدید کسٹمز اسکیننگ سینٹر کا دورہ شامل تھا۔
تنقید کرنے والوں کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی معیشت مقبوضہ مغربی کنارے اور غزہ میں فلسطینیوں پر آزمائے گئے نگرانی کے آلات اور ہتھیار دنیا بھر کے ممالک کو فروخت کر کے فائدہ اٹھاتی ہے۔