Dawn News Television

اپ ڈیٹ 11 نومبر 2020 12:16am

کراچی: دو کم عمر لڑکیوں کے نکاح خواں کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری

کراچی کی مقامی عدالت نے دو کم عمر مسیحی لڑکیوں نیہا اور آرزو راجا کا نکاح پڑھانے والے عالم دین کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے جو مبینہ طور پر مفرور ہیں۔

سندھ چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ 2013 کی دفعات 3، 4 اور 5 کے تحت مبینہ طور پر 13 سالہ نیہا کا نکاح پڑھانے والے مقامی عالم دین قاضی مفتی احمد جان رحیمی، لڑکی کے شوہر محمد عمران اور ان کے رشتہ داروں محمد ریحان بلوچ، سندس اور عذرا کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

عدالت نے گزشتہ ماہ نابالغ نیہا کی شادی میں ملوث عالم دین اور دیگر نامزد 4 ملزمان کی گرفتاری کے قابل ضمانت وارنٹ جاری کیے تھے۔

مزید پڑھیں: 'اغوا اور مذہب تبدیل کرنے کا معاملہ': آرزو کی عمر 14سال ہے، میڈیکل بورڈ

دوسری جانب یہ خبر بھی سامنے آئی تھی کہ قاضی مفتی احمد جان رحیمی نے ایک اور لڑکی آرزو راجا کا بھی نکاح پڑھایا اور اطلاعات کے مطابق انہیں جبری طور پر مذہب تبدیل کرکے مسلمان لڑکے سے شادی کروائی گئی۔

جوڈیشل مجسٹریٹ غربی واجد علی چنا کی عدالت میں اتحاد ٹاؤن تھانے کے ایس ایچ او کی جانب سے تفتیشی افسر نے رپورٹ جمع کرادی تھی، جس میں کہا گیا تھا کہ نیہا کیس میں نامزد عالم سمیت دیگر ملزمان کی گرفتاری ممکن نہیں ہوسکی۔

انہوں نے ملزمان کی گرفتاری اور عدالت میں پیش کرنے کے لیے مزید وقت کی درخواست کی تھی۔

جوڈیشل مجسٹریٹ نے ملزمان کی عدم گرفتاری کا نوٹس لیتے ہوئے تمام ملزمان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے اور تفتیشی افسر کو 16 نومبر کو ملزمان کو پیش کرنے کی ہدایت کی۔

اس سے قبل 13 سالہ نیہا نے عدالت میں براہ راست درخواست دی تھی جس میں عالم دین، ان کے شوہر محمد عمران اور دیگر 4 رشتہ داروں کو نامزد کیا گیا تھا۔

عدالت نے کہا کہ گواہوں کے بیانات درخواست گزاروں کے حق میں جاتے ہیں جبکہ درخواست گزار نے تفتیش کے دوران بیان دیا تھا کہ ان کی عمر 13 سال سے کم ہے اور وہ ملزم محمد عمران کے ساتھ شادی نہیں کرنا چاہتی تھی۔

انہوں نے کہا تھا کہ نکاح ان کی مرضی کے خلاف دباؤ ڈال کر پڑھایا گیا تھا اور بادی النظر میں ملزمان کے خلاف سندھ چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ 2013 کی دفعات 3، 4 اور 5 کی دفعات اور کریمنل پروسیجر کوڈ کا سیکشن 200 لاگو ہوتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی: کم سن لڑکی آرزو کے 'اغوا' میں ملوث ملزم ریمانڈ پر پولیس کے حوالے

جج نے کہا کہ سندھ چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ 2013 کے تحت 18 سال سے کم عمر افراد کی شادی غیر قانونی ہے۔

یاد رہے کہ مئی 2019 میں ایڈیشل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کی جانب سے ضمانت قبل از گرفتاری کے احکامات واپس لینے پر 5 ملزمان عدالت سے فرار ہوگئے تھے۔

جوڈیشل مجسٹریٹ نے کہا کہ مقدمے کے ریکارڈ کے مطابق درخواست گزار اس وقت نابالغ تھیں جبکہ انہوں نے عدالت کے سامنے اسلام قبول کرنے کی بات کو بھی مسترد کردیا تھا۔

جج نے مزید کہا تھا کہ ملزمان نے خالی کاغذ پر نیہا سے جبری طور پر دستخط لیے تھے اور شریک ملزم زنا کے مرتکب ہوئے تھے۔

ابتدائی طور پر مقدمہ تعزیرات پاکستان کی دفعات 365 بی، 376، 342، 506 اور 34 کے تحت اتحاد ٹاؤن تھانے میں متاثرہ لڑکی کی مدعیت میں درج کیا گیا تھا۔

بعد ازاں جوڈیشل مجسٹریٹ کی ہدایت پر ایف آئی آر میں سندھ چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ 2013 کی دفعات 3، 4 اور 5 بھی شامل کی گئی تھیں۔

آرزو ‘اغوا’ کیس

دوسری جانب جوڈیشل مجسٹریٹ غربی نے کم سن لڑکی آرزو راجا کے مبینہ اغوا اور اور ان سے شادی کرنے والے ملزم سید علی اظہر کے جسمانی ریمانڈ میں توسیع کردی۔

کیس کے تفتیشی افسر نے عدالت کو آگاہ کیا کہ سندھ ہائی کورٹ کی ہدایات کی روشنی میں تیار کی گئی رپورٹ میں بتایا گیا کہ لڑکی کی عمر 14 برس ہے۔

گزشتہ روز سندھ ہائی کورٹ کے ڈویژن بینچ نے ہدایت کی تھی کہ بچی کو واپس شیلٹر ہوم میں لے جایا جائے اور پولیس سے کہا کہ وہ سندھ چائلڈ میریجز ریسٹرینٹ ایکٹ 2013 کی خلاف ورزی کرنے پر اس کے مبینہ شوہر کے خلاف کارروائی کرے۔

مزید پڑھیں: کراچی: مذہب تبدیل کرنے والی آرزو کی عمر کی تصدیق کیلئے میڈیکل بورڈ تشکیل دینے کا حکم

تفتیشی افسر شارق احمد صدیقی نے مزید بتایا کہ سندھ ہائی کورٹ نے انہیں آرزو فاطمہ کے شوہر سید علی اظہر سمیت ان کی شادی کے لیے سہولت کاری کرنے والے تمام افراد کے خلاف سماعت شروع کرنے کی ہدایت کی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ متاثرہ لڑکی کا طبی جائزہ لیا گیا اور ہسپتال حکام سے اس کی رپورٹ دو روز میں مل جائے گی اور سرکاری وکیل عبدالرحمٰن تھہیم کی تجویز پر ایف آئی آر میں سندھ چائلد میرج ریسٹرینٹ ایکٹ کے دفعات بھی شامل کرلی گئی ہیں۔

تفتیشی افسر نے عدالت سے ملزم کے مزید جسمانی ریمانڈ کی درخواست کی تاکہ مزید تفتیش اور دیگر قانونی معاملات مکمل کیے جاسکیں۔

وکیل صفائی ایڈووکیٹ چوہدری محمد رمضان نے کہا کہ تفتیشی ایجنسی 3 نومبر تک ریمانڈ حاصل کرنے کے باوجود کوئی پیش رفت کرنے میں ناکام رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ شادی کے مبینہ سہولت کاروں کے پتے تفتیشی افسر کو پہلے ہی معلوم ہیں، اس لیے یہ تفتیشی ایجنسی کی غفلت اور ناکامی ہے کہ کوئی گرفتاری یا مبینہ سہولت کاروں کے خلاف سماعت شروع نہ ہوئی۔

ایڈووکیٹ چوہدری محمد رمضان نےعدالت سےاستدعا کی کہ ملزم کا جوڈیشل ریمانڈ دیا جائے۔

یہ بھی پڑھیں: سندھ ہائیکورٹ کے حکم کے بعد 13 سالہ آرزو کو بازیاب کرالیا گیا، مرتضیٰ وہاب

جج نے کہا کہ سندھ ہائی کورٹ نے تفتیشی افسر کو سندھ چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کرنے والے فرد کے خلاف تفتیش کرنے کی ہدایت کی ہے۔

جج نے 12 نومبر تک ملزم کے جسمانی ریمانڈ میں توسیع کردی اور تفتیشی افسر کو اگلی سماعت میں تفتیشی رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی اور ملزم کی کووڈ-19 کی رپورٹ بھی جمع کرا دیں۔

واضح رہے کہ پولیس نے ابتدائی طور پر تعزیرات پاکستان کی دفعہ 364 اے کے تحت مقدمہ درج کیا تھا، تاہم بعد ازاں سندھ ہائی کورٹ کی ہدایت پر سندھ چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ 2013 کی دفعات بھی شامل کی گئیں۔

Read Comments