کراچی: مذہب تبدیل کرنے والی آرزو کی عمر کی تصدیق کیلئے میڈیکل بورڈ تشکیل دینے کا حکم

عدالت نے لڑکی کی عمر کی تصدیق کے لیے میڈیکل بورڈ تشکیل دینے کی ہدایت کردی — فائل فوٹو: ویکیمیڈیا کومنس
عدالت نے لڑکی کی عمر کی تصدیق کے لیے میڈیکل بورڈ تشکیل دینے کی ہدایت کردی — فائل فوٹو: ویکیمیڈیا کومنس

کراچی: سندھ ہائی کورٹ نے مذہب تبدیل کرکے اپنی مرضی سے شادی کرنے والی 'کم عمر' کرسچن لڑکی کی عمر کی تصدیق کرنے کے لیے سیکریٹری ہیلتھ کو میڈیکل بورڈ بنانے کا حکم دے دیا۔

علاوہ ازیں سندھ ہائی کورٹ کے ڈویژنل بینچ نے پولیس کو مزید ہدایات کی کہ کیس کی آئندہ سماعت (9 نومبر) تک وہ لڑکی کو دارالامان میں رکھیں۔

سندھ ہائی کورٹ میں مذہب تبدیل کرکے مرضی کی شادی کرنے والی آرزو فاطمہ کیس کی سماعت ہوئی، جس میں پولیس نے آرزو اور اس کے شوہر علی اظہر کو عدالت میں پیش کیا۔

مزید پڑھیں: کراچی: کم سن لڑکی آرزو کے 'اغوا' میں ملوث ملزم ریمانڈ پر پولیس کے حوالے

لڑکی نے عدالت کو بتایا کہ اسے اغوا نہیں کیا گیا اور اس نے اپنی مرضی سے سید علی اظہر سے شادی کی جبکہ ساتھ ہی عدالت سے استدعا کی کہ اسے اس کے شوہر کے ساتھ جانے کی اجازت دی جائے۔

اس سے قبل دوران سماعت کیس کے تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا کہ آروز فاطمہ کیس سے متعلق جو عدالت کا حکم تھا عملدرآمد کردیا گیا ہے اور لڑکی کو پیش کردیا ہے۔

تفتیشی افسر نے بتایا کہ ابھی لڑکی کا مجسٹریٹ کے سامنے 164 کا بیان بھی ریکارڈ کرانا ہے۔

لڑکی نے دوران سماعت عدالت کو بتایا کہ ‘میں نے مرضی سے نکاح کیا ہے میری عمر 18 سال ہے’، جس پر عدالت نے ریمارکس دیئے کہ دستاویزات کے مطابق آپ کی عمر 18 سال سے کم ہے۔

جسٹس کے کے آغا نے مزید ریمارکس دیئے کہ میڈیکل بورڈ بنے گا وہ آپ کی عمر کا فیصلہ کرے گا۔

یہ بھی پڑھیں: سندھ ہائیکورٹ کے حکم کے بعد 13 سالہ آرزو کو بازیاب کرالیا گیا، مرتضیٰ وہاب

اس موقع پر بیرسٹر صلاح الدین نے وفاقی وزیر شیریں مزاری کی جانب سے وکالت نامہ جمع کرایا۔

دوران سماعت لڑکی کے والدین کے وکیل جبران ناصر نے عدالت کو کہا کہ لڑکی کی عمر کا تعین ضروری ہے جبکہ بیرسٹر صلاح الدین نے عدالت سے استدعا کی کہ میری گزارش ہے چیمبر میں بھی لڑکی کا بیان ریکارڈ کیا جائے۔

اس پر عدالت نے ریمارکس دیئے کہ ہم باریک بینی سے جائزہ لیں گے اور چانچ کرائیں گے جبکہ ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ لڑکی کا بیان ریکارڈ نہیں کیا جائے وہ کم عمر ہے۔

جسٹس کے کے آغا نے ریمارکس دیئے کہ اگر وہ 18 سال کی ہے تو اس کا حق ہے جس کے ساتھ رہے، اس نے خود کہا ہے کہ اسے اغوا نہیں کیا گیا۔

دوسری جانب ہائی کورٹ کے ڈویژنل بینچ نے ریمارکس دیئے کہ ان کے سامنے پیش کی جانے والی دستاویزات کے مطابق لڑکی کی عمر 18 سال سے کم ہے اور سندھ چائلڈ میریج ریسٹرکشن ایکٹ 2013 کے مطابق کسی کی بھی شادی 18 سال سے کم عمر میں نہیں کی جاسکتی۔

جس کے بعد عدالت نے آرزو کی عمر کے تعین کے لیے سیکریٹری ہیلتھ کو میڈیکل بورڈ بنانے کا حکم دے دیا اور پولیس کو ہدایت کی کہ آرزو کو خواتین پولیس اہلکاروں کی تحویل میں طبی معائنے کے لیے لے جایا جائے۔

یاد رہے کہ 2 نومبر کو کراچی کی مقامی عدالت نے کم سن لڑکی آرزو کے مبینہ اغوا اور جبری طور پر مسلمان بنانے میں ملوث ایک ملزم کو ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا تھا۔

تفتیشی افسر نے 2 نومبر کو مبینہ مرکزی ملزم کو جوڈیشل مجسٹریٹ جنوبی محمد علی دل کے سامنے پیش کرکے تفتیش کے لیے جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی تھی۔

پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ 13 سالہ لڑکی آرزو کے شوہر سید علی اظہر کے خلاف مقدمہ درج کرلیا گیا جبکہ ان کے دو بھائیوں اور ایک دوست کو مبینہ طور پر 13 اکتوبر کو لڑکی کے اغوا میں ملوث ہونے پر گرفتار کرلیا گیا۔

مزید پڑھیں: کم عمری کی شادی اور جبری مذہب تبدیلی کے خلاف بل پیش

خیال رہے کہ گزشتہ ماہ 13 سالہ آرزو کے مبینہ اغوا اور جبری مذہب تبدیلی اور مسلم شخص سے کم عمری میں شادی کے خلاف انسانی حقوق کے گروپوں کی جانب سے احتجاج کیا گیا تھا۔

دوسری جانب پولیس نے لڑکی کے مبینہ شوہر سید علی اظہر کے خلاف مقدمہ درج کرکے اس کے دو بھائیوں سید شارق علی، سید محسن علی، ایک دوست دانش کو کم عمر لڑکی کے مبینہ طور پر اغوا، زبردستی مذہب تبدیلی اور مسلمان شخص سے شادی کے الزام میں گرفتار کرلیا تھا۔

اس سے قبل جوڈیشل مجسٹریٹ نے آرزو کے اہل خانہ کی جانب سے اسے دارالامان بھیجنے کے لیے دائر درخواست کو مسترد کردیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں