نواز شریف نے کراچی واقعے پر فوج کی انکوائری رپورٹ مسترد کردی

اپ ڈیٹ 10 نومبر 2020
نواز شریف نے کہا کہ خود کو بچانے کے لیے جونیئر افسران کو قربان کرنے کی یہ روش قابلِ مذمت ہے—فائل فوٹو: اے ایف پی
نواز شریف نے کہا کہ خود کو بچانے کے لیے جونیئر افسران کو قربان کرنے کی یہ روش قابلِ مذمت ہے—فائل فوٹو: اے ایف پی

مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف نے کراچی واقعے سے متعلق فوج کی انکوائری رپورٹ مسترد کردی۔

لندن میں زیر علاج سابق وزیر اعظم نے ٹوئٹر پر کہا کہ 'کراچی واقعے کی انکوائری رپورٹ اصل حقائق پر پردہ ڈالنے کی ناکام کوشش ہے'۔

نواز شریف نے کہا کہ 'خود کو بچانے کے لیے جونیئر افسران کو قربان کرنے کی یہ روش قابلِ مذمت ہے'۔

واضح رہے کہ آج پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) سے جاری بیان میں بتایا گیا کہ کراچی واقعے میں ملوث سندھ رینجرز اور انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے افسران کو معطل کردیا گیا ہے۔

ایک بیان جاری کرتے ہوئے آئی ایس پی آر نے کہا تھا کہ مزار قائد کی بے حرمتی کے پسِ منظر میں رونما ہونے والے واقعے پر انسپکٹر جنرل (آئی جی) سندھ کے تحفظات کے حوالے سے فوج کی کورٹ آف انکوائری مکمل ہوگئی ہے جو آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے حکم پر کی گئی۔

مزید پڑھیں: آرمی چیف کا 'کراچی واقعے' پر نوٹس، کور کمانڈر کو تحقیقات کی ہدایت

دوسری جانب پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کراچی واقعے کی تحقیقات اور ذمہ داران کے خلاف کارروائی کو خوش آئند قرار دیا ہے۔

انہوں نے کہا تھا کہ 'جمہوری طریقہ کار یہ ہی ہے کہ جو بھی غلطی ہو تو اس کی تحقیقات ہو اور متعلقہ افراد کے خلاف ایکشن لیا جائے'۔

بلاول بھٹو زرداری نےامید ظاہر کی تھی کہ یہ سلسلہ آگے بھی چلے گا۔

کراچی واقعے پر ذمہ داران کےخلاف کارروائی جمہوری قوتوں کی فتح ہے، پی ڈی ایم

اس ضمن میں حکومت مخالف اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) نے آئی جی سندھ سے متعلق کراچی واقعے کی تحقیقات اور ذمہ داران کے خلاف تادیبی کارروائی کو جمہوری قوتوں کی فتح قرار دیا ہے۔

پی ڈی ایم کے سیکریٹری اطلاعات میاں افتخار حسین نے کہا کہ آئی ایس پی آر کی جانب سے کراچی واقعے کی انکوائری کے نتیجے میں رونما ہونے والی پیش رفت دراصل جمہوری قوتوں کی فتح ہے۔

مزید پڑھیں: کراچی واقعہ بڑوں کی لڑائی ہے جس میں عمران خان کہیں نہیں، مریم نواز

انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم نے انکوائری کو نتیجہ خیز بنانے کا مطالبہ کیا تھا۔

میاں افتخار حسین نے کہا کہ اچھا ہوا کہ اس ضمن میں پیشرفت ہوئی، اب ذمہ داران کو جلد از جلد کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔

انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم اس سلسلے میں مزید مشاورت کرے گی۔

معاملے کا پس منظر

یاد رہے کہ 18 اکتوبر کو پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے جلسے کے سلسلے میں مسلم لیگ (ن) کی قیادت کراچی آئی تھی جس نے مزار قائد پر حاضری دی تھی، اس دوران کیپٹن (ر) صفدر اور مسلم لیگ (ن) کے کارکنان نے ووٹ کو عزت دو کے نعرے لگائے تھے۔

کیپٹن صفدر کو ہوٹل کے کمرے سے گرفتار کیا گیا تھا—فائل فوٹو: اسکرین شاٹ
کیپٹن صفدر کو ہوٹل کے کمرے سے گرفتار کیا گیا تھا—فائل فوٹو: اسکرین شاٹ

بعد ازاں شام کو ہونے والے جلسے کے چند گھنٹوں بعد کراچی کے ایک ہوٹل سے مسلم لیگ (ن ) کے رہنما کیپٹن (ر) صفدر کو مزار قائد کے تقدس کی پامالی سے متعلق مقدمے پر گرفتار کرلیا گیا تھا۔

کیپٹن (ر) صفدر کو اسی روز عدالت سے ضمانت مل گئی تھی تاہم معاملہ اس وقت ایک نئی صورتحال اختیار کر گیا تھا جب مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور سابق گورنر سندھ محمد زبیر کی آواز میں ایک آڈیو سوشل میڈیا پر صحافی کی جانب سے شیئر کی گئی تھی۔

مذکورہ آڈیو میں محمد زبیر یہ الزام لگا رہے تھے کہ ’مراد علی شاہ نے انہیں تصدیق کی تھی کہ پہلے آئی جی سندھ پولیس پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی گئی کہ وہ گرفتاری کے لیے بھیجیں‘۔

مزید پڑھیں: گرفتار کیپٹن (ر) محمد صفدر کی ضمانت منظور

آڈیو میں کہا گیا تھا کہ ’جب انہوں نے اس سے انکار کیا تو رینجرز نے 4 بجے اغوا کرلیا اور مجھے وزیراعلیٰ نے یہی بات کہی، میں نے ان سے اغوا کے لفظ پر دوبارہ پوچھا تو انہوں نے مجھے بتایا کہ جی انہیں اٹھایا گیا اور سیکٹرز کمانڈر کے آفس لے گئے جہاں ایڈیشنل آئی جی موجود تھے اور انہیں آرڈر جاری کرنے پر مجبور کیا‘۔

بعدازاں وزیراعلیٰ ہاؤس میں پریس کانفرنس کے دوران وزیراعلیٰ نے کہا تھا کہ جو کچھ ہوا اس کی انکوائری لازمی ہے، رفقا کے ساتھ صلاح مشورے سے فیصلہ کیا ہے کہ حکومت سندھ اس معاملے کی تحقیقات کرے گی۔

تاہم وزیر اعلیٰ کی جانب سے تحقیقاتی کمیٹی بنانے کے اعلان کے کچھ دیر بعد ہی سندھ پولیس کے انسپکٹر جنرل سمیت اعلیٰ پولیس افسران نے کیپٹن (ر) صفدر کی گرفتاری کے معاملے میں بے جا مداخلت پر چھٹیوں کی درخواست دے دی تھی۔

اس درخواست کے بعد پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے بھی پریس کانفرنس کی تھی اور کہا تھا کہ ایس ایچ او سے لے کر آئی جی کی سطح کے افسران تک سوال کر رہے ہیں کہ وہ کون لوگ تھے جنہوں نے رات 2 بجے کے بعد ہمارے آئی جی کے گھر کے باہر گھیراؤ کیا تھا’۔

ساتھ ہی انہوں نے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ اور انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اپنے طور پر معاملے کی تحقیقات کریں۔

بعد ازاں چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کراچی میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما کیپٹن (ر) صفدر کی گرفتاری کے لیے ’پولیس پر دباؤ‘ ڈالنے سے متعلق واقعے کا نوٹس لیا تھا۔

اس کے علاوہ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ اور بلاول بھٹو زرداری نے آئی جی سندھ سے ملاقات بھی کی تھی جس کے بعد سندھ پولیس نے ایک بیان جاری کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: سندھ پولیس کے متعدد اعلیٰ افسران کی چھٹی کی درخواستیں

بیان میں کہا گیا تھا کہ انسپکٹر جنرل سندھ پولیس نے کراچی میں مسلم لیگ (ن) کے رہنما کیپٹن (ر) صفدر کی گرفتاری کے لیے ’پولیس پر دباؤ‘ ڈالنے سے متعلق واقعے پر چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کے نوٹس لینے کے بعد چھٹیوں پر جانے کا فیصلہ مؤخر کردیا تھا۔

ایک روز قبل ہی پولیس نے مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز اور ان کے شوہر کیپٹن (ر) صفدر کے خلاف مزار قائد کے تقدس کی پامالی کے مقدمے کو 'جھوٹا' قرار دے دیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں